اماوس کی رات — پریم چند

دیوالی کی شام تھی۔ سری نگر کے گھروں اورکھنڈروں کے بھی نصیب جاگ گئے تھے۔ گاؤں کے لڑکے لڑکیاں ہنستے کھیلتے۔ چمکتی ہوئی تھالیوں میں چراغ لئے ہوئے مندروں کوجاتے تھے۔ چراغوں سے زیادہ ان کے چہرے روشن تھے۔ ہردرودیوار روشنی سے جگمگارہاتھا۔ صرف پنڈت دیودت کا ست منزلہ محل تاریکی میں کالی گھٹاکی طرح خاموش اورخوفناک کھڑا تھا۔ خاموش اسلئے کہ ایام ِرفتہ کی یادسے دل بھرا ہواتھا اورخوفناک اس لئے کہ جگمگاہٹ گویااسے چڑھارہی تھی۔ ایک زمانہ وہ کہ حسدبھی اسے دیکھ دیکھ کر ہاتھ ملتاتھا۔ اورایک زمانہ یہ ہے کہ حقارت بھی اس پرمسکراتی ہے۔ دروازے پروردی پوش دربانوں کے بجائے اب مدار اوررینڈ کے درخت کھڑے تھے۔ دیوان خانہ میں اب ایک عاشق تن سانڈ اینڈا کرتاتھا۔ اوربالاخانوں پر ماہڑیوں کے نغمہ دل آویز کے بجائے اب جنگلی کبوتروں کی مستانہ آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ کسی انگریزی مدرسے کے طالب علم کے اخلاق کی طرح اس کی بنیادیں ہل گئی تھیں اور اس کی دیواریں کسی بیوہ کے جگر کی طرح چاک تھیں۔ بیدادِرزمانہ کا شکوہ کرنافضول ہے۔ یہ کج فہمی اورکم اندیشی کی عبرتناک داستان تھی۔

اماوس کی رات تھی۔ روشنی سے مقابلے کی تاب نہ لاکر تاریکی نے اسی عالیشان محل میں پناہ لی تھی۔ پنڈت دیودت اپنے نیم تاریک کمرے میں خاموش اور متفکر بیٹھے ہوئے تھے۔ آج ایک مہینے سے ان کی بیوی گرجاکی زندگی بے رحم موت کا کھلونا بنی ہوئی تھی۔ غربت اور افلاس کی مصیبتوں کوجھیلنے کے لئے تیار تھے۔ فلسفہ تقدیر انہیں تشفی دیتاتھا۔ لیکن یہ نئی مصیبت قوتِ برداشتہ سے باہر تھی۔ بے چارے دن کے دن گرجاکے سرہانے بیٹھے اس کے مرجھائے ہوئے چہرہ کو دیکھا کرتے اورروتے تھے۔ گرجاجب اپنی زندگی سے مایوس ہوکر روتی توو ہ اسے سمجھاتے، گرجا روؤمت۔ تم بہت جلداچھی ہوجاؤگی۔

پنڈت دیودت کے بزرگوں کاکاروباربہت فروغ پرتھا۔ وہ لین دین کیا کرتے تھے اور زیادہ تر ان کے بیوہار بڑے بڑے تعلقہ داروں اور راجاؤں کے ساتھ تھے۔ اس زمانہ میں ایمان اتنا ارزاں نہیں بکتاتھا۔ سادے رقعوں اورپرزوں پرلاکھوں کی باتیں ہوجاتیں۔ مگر ۵۷ کی شورش نے کتنے ہی علاقوں اورریاستوں کومٹادیا۔ اوران کے ساتھ تیواریوں کایہ متمول گھرانابھی خاک میں مل گیا۔ اثاثہ لٹ گیا بہی کھاتے پنساریوں کے کام آئے۔

جب ذراامن وامان ہواریاستیں پھرسنبھلیں، تو زمانہ پلٹ چکاتھا۔ قول تحریر کا محتاج ہوچکاتھا اورتحریرمیں سادہ اوررنگین کی تمیزپیدا ہوگئی تھی۔ جب دیودت نے ہوش سنبھالا تواس کے پاس بجزاس کھنڈر کے اورکوئی جائیداد نہ تھی۔ اب گزاران کی صورت مفقود تھی۔ کاشتکاری میں محنت اور پریشانی تھی۔ تجارت کے لئے نہ سرمایہ تھا نہ دماغ۔ علمی استعداد اتنی نہ تھی کہ کوئی ملازمت کرتے۔ خاندانی وقارخیرات لینے میں ہارج تھا۔ بس سال میں دوتین باراپنے پرانے بیوہاریوں کے یہاں بن بلائے مہمان کی طرح جاتے اورجوکچھ رخصتانہ اورزادِراہ ملتا اسی پرگزران کرتے۔

خاندانی حشمت کی یادگارکچھ باقی تھی تووہ ان رقعوں اورہنڈیوں کاایک پلندا تھا جن کی سیاہی بھی حرفِ باطل کی طرح مٹ چکی تھی۔ پنڈت دیودت جی اس پلندے کی بہت اہتمام کے ساتھ پرستش کرتے۔ لکشمی نہ سہی لکشمی کی یادگارتوسہی۔ دوج کا دن ان کی ثروت کے شرادھ کادن تھا۔ اسے چاہے بوالہوسی کہو، چاہے کمزوری۔ مگرپنڈت ممدوح کوان پر زوں پربڑا نازتھا۔ آئے دن کی مناقشات میں اس بوسیدہ کاغذی فوج کی حمایت بڑا کام کرتی۔ اورفریقِ مخالف کواپنی ہارماننی پڑتی۔ اگرسترپشتوں سے ہتھیار کی صورت نہ دیکھنے پربھی لوگ چھتری ہونے کا فخر کرسکتے ہیں توپنڈت دیودت کا ان نوشتوں پرفخر کرنا زیادہ بے موقع نہیں معلوم ہوتا۔ ۷۰ لاکھ کی رقم چھپی ہوئی تھی۔

وہی اماوس کی رات تھی۔ مگرچراغ اپنی مختصر زندگیاں ختم کرچکے تھے اور رات کی تاریکی سے زیادہ اخلاقی تاریکی کاغلبہ تھا۔ چوروں اور جواریوں کے لئے یہ شگون کی رات تھی۔ کیوں کہ آج کی ہارسال بھرہارہوتی ہے۔ لکشمی کی آمدآمدتھی۔ اس لئے ان کاپیش خیمہ آگیاتھا۔ جابجا کوڑیوں پراشرفیاں لٹ رہی تھیں۔ پیرِمغاں بھی آج نخرے کررہاتھا۔ میخانے میں شراب کے بدلے پانی بک رہاتھا۔ پنڈت دیودت کے سواقصبہ میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جودوسروں کی کمائی سمیٹنے کی فکرمیں نہ ہو۔ آج صبح ہی سے گرجا کی حالت خراب تھی اور سرشام سے اس پرغشی طاری تھی۔ یکایک اس نے چونک کرآنکھیں کھولیں اور بہت مدھم آواز سے بولی، ’’آج تو دیوالی ہے۔‘‘

دیودت ایسا بے دل اورنراس ہورہا تھا کہ گرجا کو ہوش میں بھی دیکھ کر اسے خوشی نہ ہوئی۔ ہاں آج دیوالی ہے۔ گرجانے آرزومندنگاہوں سے ادھرادھر دیکھ کر کہا، ’’ہمارے گھر میں کیا دیئے نہ جلیں گے؟‘‘

دیودت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ گرجانے پھراسی لہجہ میں کہا، ’’دیکھو آج برس برس کے دن گھر اندھیرا رہ گیا۔ مجھے اٹھا دومیں بھی اپنے گھر میں دیئے جلاؤں گی۔‘‘

یہ باتیں دیودت کے دل میں چبھی جاتی تھیں۔ انسان کے آخری لمحے خوشیوں اورآرزوؤں کے خیال میں کٹتے ہیں۔ گرجاموت کے منہ میں تھی۔ مگرآرزوؤں کا خواب دیکھ رہی تھی۔

اس قصبہ میں لالہ شنکر داس اچھے ویدمشہورتھے۔ ضلع کی آیورویدک سوسائٹی کی روحِ رواں اوشدھابے میں ادویات کے بجائے چھاپنے کے پریس رکھے ہوئے تھے۔ ادویات کم بنتی تھیں۔ مگراشتہار زیادہ چھپتے تھے۔ چرک اور سسرت پر قانع نہ ہوکرانہوں نے نئے طبی اصولوں کی تلقین شروع کی تھی۔ تندرستی انسان کا طبعی حق ہے۔ بیماری صرف ایک رئیسانہ تکلف ہے۔ اورپولیٹکل اکانومی کے مسئلہ کے مطابق تکلفات سے جس قدر زیادہ ممکن ہوٹیکس لیناچاہئے۔ اسی اصول پر وہ مریضوں کے ساتھ مطلق رورعایت نہیں کرتے تھے۔ اگرکوئی غریب ہے تو ہو۔ اگرکوئی مرتا ہے تو مرے۔ اسے کیا حق ہے کہ وہ بیمارپڑے اور مفت میں علاج کروائے۔ ہندوستان کی یہ حالت بہت کچھ مفت علاج کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ اس نے آدمیوں کو بے احتیاط اورکمزور بنادیاہے۔ دیودت مہینہ بھر سے روزان کے یہاں دوالینے آیاکرتاتھا، لیکن ویدجی کبھی ایسی ہمدردی سے مخاطب نہ ہوئے کہ اسے عرضِ حال کا حوصلہ ہوتا۔ ان کے دل کے کمزورحصے تک پہنچنے کے لئے انہوں نے بہت ہاتھ پیرپھیلائے۔ آنکھوں میں آنسوبھرے آتا۔ مگرویدجی کادل مضبوط تھا اس میں کمزورحصہ تھاہی نہیں۔

وہی اماوس کی ڈراؤنی رات تھی۔ آسمانی شمعیں آدھی رات گزرنے پراب اور بھی زیادہ روشن ہوگئی تھیں۔ گویاوہ سری نگر کے بجھے ہوئے چراغوں پرفاتحانہ مسرت کے ساتھ مسکرارہی تھیں۔ دیودت ایک عالمِ اضطراب میں گرجا کے سرہانے سے اٹھے۔ اورویدجی کے مکان کی طرف چلے۔ وہ جانتے تھے کہ لالہ جی اتنی رات گئے بلااپنا حقِ خدمت لئے ہرگز نہ آئیں گے۔ لیکن مایوسی میں بھی امیدپیچھا نہیں چھوڑتی۔ دیودت قدم آگے بڑھاتاچلاجاتاتھا۔

حکیم جی اس وقت اپنی مجرب تیربہدف ’’امرت بندو‘‘ کااشتہار لکھنے میں محوتھے۔ اور اس اشتہار کی پرتاثیر عبارت مصورانہ رنگینی اورپرزورکشش کے اعتبار سے یہ فیصلہ کرنادشوارتھا ہ وہ حکیم حاذق تھے یا متاثرجادوطراز۔

ناظرین! آپ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ آپ کازردچہرہ آپ کا تنِ لاغر آپ کا ذراسی محنت میں بے دم ہوجانا۔ آپ کالذتِ دنیا سے بے فیض رہنا۔ آپ کی خانہ تاریکی۔ یہ سب اس سوال کا نفی میں جواب دیتے ہیں۔ سنئے میں کون ہوں۔ میں وہ شخص ہو جس نے امراض انسانی کو پردہ دنیا سے معدوم کردینے کا بیڑا اٹھایاہے۔ جس نے اشتہار بازجوفروش گندم نمانام نہاد حکیموں کوبیخ وبن سے کھود کردنیا کوپاک کردینے کا عزم بالجزم کرلیاہے۔ میں وہ حیرت انگیز انسان ضعیف البنیان ہوں۔ جوناشاد کودلشاد، نامراد کوبامراد، بھگوڑے کو دلیر، گیدڑ کو شیربناتاہوں اوریہ کسی جادو سے نہیں، منتر سے نہیں، یہ میری ایجاد کردہ ’’امرت بندو‘‘ کے ادنی کرشمے ہیں۔ امرت بندو کیاہے، اسے کچھ میں ہی جانتا ہوں۔ مہرشی اگست نے دھنونتری کے کان میں اس کا نسخہ بتلایاتھا۔ جس وقت آپ وی پی پارسل کھولیں گے آپ پر اس کی حقیقت روشن ہوجائے گی۔ وہ آبِ حیات ہے۔ وہ مردانگی کا جوہر۔ فرزانگی کا اکسیر۔ عقل کامنبع اورذہن کاصیقل ہے۔ اگربرسوں کی مشاعرہ بازی نے بھی آپ کو شاعر نہیں بنایا اگرشبانہ روز کی رٹن پربھی آپ امتحان میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اگردلالوں کی خوشامداورموکلوں کی نازبرداری کے باوجود بھی آپ احاطہ عدالت میں بھوکتے کتے کی طرح چکر لگاتے پھرتے ہیں۔ اگرآپ گلا پھاڑپھاڑ چیخنے اور میزپرہاتھ پیرپٹکنے پربھی اپنی تقریرمیں کوئی اثرنہیں پیداکرسکتے۔ توآپ امرت بندو کااستعمال کیجئے۔ اس کا سب سے بڑافائدہ جوپہلے ہی دن معلوم ہوجائے گا یہ ہوگا کہ آپ کی آنکھیں کھل جائیں اورآپ پھرکبھی اشتہاربازحکیموں کے دامِ فریب میں نہ پھنسیں گے۔

ویدجی اس اشتہار کوختم کرکے اسے بہ آواز بلندپڑھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں غروراورآنے والی کامیابی کی امید جھلک رہی تھی کہ اتنے میں دیودت نے باہر سے آوازدی۔ ویدجی بہت خوش ہوئے۔ رات کے وقت ان کی فیس دوگنی تھی۔ لالٹین لئے ہوئے باہر نکلے۔ تودیودت روتا ہوا ان کے پیروں سے لپٹ گیا اوربولا، ’’ویدجی! اس وقت مجھ پررحم کیجئے۔ گرجااب کوئی دم کی مہمان ہے۔ اب آپ ہی اسے بچاسکتے ہیں۔ یوں تومیرے نصیب میں جوکچھ لکھا ہے وہ ہوکررہے گا۔ مگر اس وقت آپ چل کرذرا اسے دیکھ لیں تومیرے آنسوبجھ جائیں گے۔ مجھے تسکین ہوجائے گی کہ اس کی خاطرمجھ سے جوکچھ ہوسکتا تھاوہ میں نے کیا۔ ایشورجانتاہے میں اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کی کچھ خدمت کرسکوں۔ لیکن جب تک جیوں گا آپ کا جس گاؤں گا اورآپ کے اشاروں کاغلام بنارہوں گا۔‘‘

حکیم جی کوپہلے توکچھ ترس آیا۔ مگریہ جگنو کی چمک تھی جوبہت جلد خودغرضی کی تاریک وسعت میں غائب ہوگئی۔

وہی اماوس کی رات تھی۔ پھڑوں پربھی سناٹا چھاگیاتھا۔ جیتنے والے اپنے بچوں کو نیند سے جگاجگاکرانعام دے رہے تھے۔ ہارنے والے اپنی ناہمدردی اورپرغضب بیوں سے عذرِگناہ کرتے تھے کہ اتنے میں گھنٹوں کی گونجتی ہوئی پیہم آوازیں ہوا اورتاریکی کوچیرتی ہوئی کان میں آنے لگیں۔ ان کامستانہ انداز اس عالمِ خاموشی میں بہت ہی سہانا معلوم ہوتاتھا۔ یہ آوازیں قریب ہوتی گئیں اوربالآٓخر پنڈت دیودت کے مکان کے پاس آکراس کی وسعتِ پریشان میں غائب ہوگئیں۔ پنڈت جی اس وقت یاس کے بحرِبے پایاں میں غوطے کھارہے تھے۔

افسوس! میں اس قابل بھی نہیں کہ اپنی جان سے عزیز گرجاکی دوااور پن کرسکوں۔ کیا کروں! اس بیدرودحکیم کویہاں کیسے لاؤں۔ ظالم! میں ساری عمر تیری غلامی کرتا، تیرے اشتہار چھاپتا۔ تیری دوائیں کوٹتا، آج پنڈت جی کویہ ناگوار اورہمت شکن تجربہ ہوا کہ سترلاکھ کے رقعے اورکاغذ اتنی کوڑیوں کے مول بھی نہیں۔ خاندانی وقار کا سراب آنکھوں کے سامنے سے دورہوگیا۔ انہوں نے اس مخملی جزدان کوصندوق سے باہرنکالا۔ اوران رقعات کوجوخاندانی ثروت کی باقیاتِ صالح تھیں اورجن کی عزت کی طرح نگہداشت کی جاتی تھی۔ ایک ایک کرکے چراغ کے نذر کرنے لگے۔ جس طرح نازونعمت میں پلا ہوا جسم چتا کے بھینٹ ہوجاتاہے۔ اسی طرح یہ کاغذی ہستیاں اس شمع کے دہنِ آتشیں کا لقمہ ہوتی جاتی تھیں۔ اتنے میں کسی نے باہر سے پنڈت جی کوپکارا۔ انہوں نے چونک کر سراٹھایا۔ خواب سے بیدار ہوئے اوراندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے دروازہ پرآئے تودیکھا کہ کئی آدمی مشعلیں لئے ہوئے کھڑے ہیں۔ اورایک ہاتھی اپنی سونڈ سے ان رینڈ کے درختوں کواکھاڑ رہا ہے جو دروازے پردربانوں کی طرح کھڑے تھے۔ ہاتھی پرایک شکیل نوجوان بیٹھا ہوا ہے جس کے سرپرزعفرانی رنگ کا ریشمی پاگ ہے۔ ماتھے پرچندن کا پلالی ٹیکہ۔ بھالے کی طرح تنی ہوئی نوکدارموچھیں، چہرہ سے رعب اورجلال نمایاں۔ کوئی سردارمعلوم ہوتاہے۔ اس کا کلی دار انگرکھااورچناودار پاجامہ۔ کمرمیں لٹکتی ہوئی تلوار اورگردن میں طلائی کنٹھے اور زنجیر اس کے مردانہ جسم پربہت زیب دے رہے تھے۔ پنڈت جی کودیکھتے ہی اس نے رکاب پرپیررکھا اور نیچے اترکر ان کی تعظیم کی اس کی اس مودبانہ اخلاق سے کچھ نادم ہوکر پنڈت جی بولے، ’’آپ کا آناکہاں سے ہوا؟‘‘

نوجوان نے بہت منت آمیز لہجہ میں جواب دیا اس کے بشرہ سے شرافت برستی تھی۔ ’’میں آپ کا پرانا خادم ہوں۔ غریب خانہ راج نگرمیں ہے۔ وہاں کا جاگیردارہوں۔ میرے بزرگوں پرآپ کے خاندان نے بہت احسان کئے ہیں میری اس وقت جوکچھ عزت اورجاہ ہے وہ سب آپ کے بزرگوں کی شفقت اور کرم کاطفیل ہے۔ میں نے اپنے چندرشتہ دارں سے آپ کا نام سنا تھااورمجھے عرصے سے آپ کے درشنوں کی آرزوتھی۔ آج وہ مبارک موقع مل گیا اور میرا جنم سپھل ہوا۔‘‘

پنڈت دیودت کی آنکھوں میں آنسوبھرآئے۔ خاندانی حشمت کا غرور ان کے دل کانازک ترین حصہ تھا۔ وہ بے بسی جوان کے چہرہ پرچھائی ہوئی تھی۔ ذرادیر کے لئے رخصت ہوگئی۔ تفاخرانہ انداز سے بولے، ’’یہ آپ کی بندہ نوازی ہے جوایسا فرماتے ہیں، ورنہ میں توننگِ خاندان میں ہوں۔ اس قابل بھی نہیں کہ اپنے تئیں ان بزرگوں کی اولاد کہہ سکوں۔‘‘

اتنے میں خادموں نے صحن میں فرش بچھادیا۔ دونوں آدمی اس پر بیٹھے اور باتیں ہونے لگیں۔ وہ باتیں جن کا ہرایک جملہ پنڈت دیودت کے چہرہ کو اس طرح شگفتہ کررہاتھا جس طرح نسیم ِسحر پھولوں کوکھلادیتی ہے۔ پنڈت جی کے جدِبزرگوار نے نوجوان ٹھاکر کے دادا کوپچیس ہزارروپے قرض دیئے تھے۔ ٹھاکراب گیامیں جاکراپنے بزرگوں کاشرادھ کرناچاہتا تھا اس لئے ضروری تھا کہ ان کے ذمہ جوکچھ قرض ہواس کی ایک ایک کوڑی ادا کردی جائے۔ ٹھاکر کوپرانے کاغذات میں یہ واجب الادا رقم نظرآئی۔ پچیس کے اب پچہتر ہزار ہوچکے تھے وہی قرض چکانے کے لئے ٹھاکردوسومیل کی منزل طے کرکے آیاتھا۔ مذہب ہی وہ قوت ہے جودل میں ارادت کاجوش پیدا کرسکتی ہے۔ ہاں اس جوش سے متاثر ہونے کے لئے ایک پاکیزہ بے لوث دل کی ضرورت ہے۔ ورنہ وہی ارادت سیہ کاری اورشقاوت پراترآتی ہے۔ آخر ٹھاکر نے پوچھا، ’’آپ کے یہاں تووہ رقعہ ہوگا؟‘‘

دیودت کادل بیٹھ گیا۔ سنبھل کربولے، ’’غالباً ہوگاکچھ کہ نہیں سکتا۔‘‘

ٹھاکر نے لاپروائی سے کہا، ’’اسے تلاش کیجئے۔ اگرمل جائے تومیں اسے لیتا جاؤں گا۔‘‘

پنڈت دیودت اٹھے۔ مگربادلِ سرد۔ کیا یہ تقدیر کی ستم ظریفیاں ہیں جو یوں سبزباغ دکھارہی ہیں۔ کون جانے وہ پرزہ جل کر خاک ہوگیایا ہے۔ یہ بھی تونہیں معلوم کہ وہ پہلے بھی تھا یانہیں۔ لیکن نہ ملا تو روپے کون دیتاہے۔ افسوس! دودھ کاپیالہ سامنے آکر ہاتھ سے چھوٹاجاتاہے یا ایشور! وہ پرزہ مل جائے۔ میں نے بہت دکھ اٹھائے ہیں۔ اب مجھ پر دیا کرو۔ اس طرح امیدوبیم کی حالت میں دیودت اندرگئے اورچراغ کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں بچے ہوئے نوشتوں کوالٹ پلٹ کردیکھنے لگے۔ دفعتاً وہ اچھل پڑے اور ایک اضطراری جوش بلکہ دیوانگی مسرت کے عالم میں دوتین بارکودے۔ تب دوڑکرگرجا کوگلے سے لگالیا اوربولے، ’’پیاری۔ ایشور نے چاہا تواب تم بچ جاؤگی۔‘‘ اس مدہوشی میں انہیں مطلق نہ معلوم ہواکہ گرجا اب وہاں نہیں ہے۔ صرف اس کی لاش ہے، اس نے رقعے کواٹھالیا اوردہلیز تک ایسی تیزی سے آیا گویا پاؤں میں پرلگ گئے ہیں مگریہاں اس نے اپنے تئیں روکا اور مسرتِ قلب کی امڈتی ہوئی لہروں کو روکتے ہوئے ٹھاکر سے بولا، ’’یہ لیجئے وہ رقعہ مل گیا۔ اتفاق کی بات ہے ورنہ سترلاکھ کے کاغذ دیمکوں کی خوراک بن گئے۔‘‘

غیرمتوقع کامیابی اکثربدگمانی کا باعث ہوتی ہے۔ جب ٹھاکر نے اس رقعے کے لینے کوہاتھ بڑھایا تو دیودت کواندیشہ ہواکہ کہیں وہ اسے چاک نہ کرڈالے۔ حالانکہ یہ اندیشہ بے معنی تھا۔ مگر انسان کمزوریوں کاپتلا ہے۔ ٹھاکر نے اس کے سوءظن کوتاڑلیا۔ ایک ترحم آمیزتبسم کے ساتھ اس نے رقعہ کولیا اور مشعل کی روشنی میں دیکھ کربولا، ’’اب مجھے کامل اطمینان ہوا۔ یہ لیجئے آپ کی امانت آپ کی نذر ہے۔ دعا کیجئے کہ میرے بزرگوں کی مکتی ہوجائے۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنے کمرے سے ایک خریطہ نکالا اور اس میں سے ایک ایک ہزار کے پچہتر نوٹ نکال کر دیودت کودے دیئے۔ پنڈت جی کادل بڑی زور سے دھڑک رہاتھا اورنبض اچھلی پڑتی تھی۔ انہوں نے نوٹوں کولے لیا۔ اظہارِ عالی ظرفی کی بے سود کوشش میں ان کاغذوں کوگنابھی نہیں۔ صرف اڑتی ہوئی نگاہ سے دیکھ کرانہیں سمیٹا اور جیب میں ڈال دیا۔

وہی اماوس کی رات تھی۔ آسمانی شمعیں بھی دھندلی ہوچلی تھیں۔ ان کا سفر سورج کی آمد کی خبر دے رہا تھا۔۔۔ مشرق افق فیروزی باناپہن چکاتھا اور مغربی افق بھی سفیدی کی طرف مائل تھا۔ پنڈت دیودت ٹھاکر کورخصت کرکے گھرمیں چلے۔ اس وقت ان کا دل فیاضی کی روشنی سے منور ہورہاتھا۔ خوش اعتقادی کی لہراٹھی ہوئی تھی۔ کوئی سائل اس وقت ان کے دروازے سے بے فیض نہ جاسکتا۔ ست نارائن کی کتھاسننے کا اوردھوم دھام کے ساتھ سننے کافیصلہ ہوچکا۔ گرجا کے لئے گہنے اورکپڑے کے منصوبے بندھ چکے۔ اندرپہنچتے ہی انہوں نے سالگرام کے سامنے سچے دل سے سرجھکایا اورتب باقی ماندہ رقعوں کو سمیٹ کربہ حفاظت تمام اسی مخملی جزدان میں رکھ دیا۔ اس لئے نہیں کہ شاید ان مردوں میں سے پھرکوئی زندہ ہو بلکہ معاش کی طرف سے بے فکر ہوکر اب وہ خاندانی شوکت وثروت پرفخر کرسکتے تھے۔ اس وقت وہ صابرانہ قناعت کے جوش میں مست تھے۔ بس اب مجھے زندگی میں مال ودولت کی ضرورت نہیں۔ ایشور نے مجھے اتنا دے دیاہے۔ اس میں میری اورگرجا کی زندگی بڑے آرام سے کٹ جائے گی۔ انہیں کیاخبر تھی گرجا کی زندگی پہلے ہی کٹ چکی ہے۔ ان کے دل میں یہ خیال گدگدارہا تھا کہ جس وقت گرجا یہ خوشخبری سنے گی اس وقت ضروراٹھ بیٹھے گی۔ فکراور تکلیف نے اس کی یہ گت بنادی ہے۔ جسے کبھی بھرپیٹ روٹی نصیب نہ ہوئی۔ جوبے کسی اور صبرسے کبھی آزاد نہ ہوئی۔ اس کی حالت اس کے سوا اورہو ہی کیاسکتی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے وہ گرجا کے پاس گئے اور اسے آہستہ سے ہلاکر کہا، ’’گرجا آنکھیں کھولو۔ دیکھو ایشور نے تمہاری بنتی سن لی اورہمارے اوپردیا کی۔ کیسی طبیعت ہے؟‘‘

مگرجب گرجا ذرابھی نہ منکی تو انہوں نے چادرہٹادی اوراس کے منہ کی طرف دیکھا۔ سینہ سے ایک جگرسوزآہ نکلی اورسرتھام کروہیں بیٹھ گئے۔ آنکھوں سے خون کے قطرے نکل آئے۔ آہ! کیا یہ دولت اتنی گراں قیمت پرملی ہے! کیا ایشور کے دربارسے مجھے اس پیاری جان کی قیمت دی گئی ہے۔ ایشور تم خوب انصاف کرتے ہو۔ مجھے گرجا کی ضرورت ہے ان روپیوں کی ضرورت نہیں۔ یہ سودا بہت گراں ہے!

اماوس کی اندھیری رات گرجا کی تاریک زندگی کی طرح ختم ہوچکی تھی۔ کھیتوں میں ہل چلانے والے کسانوں کے گانے کی بلند اورسہانی آوازیں آرہی تھیں۔ سردی سے کانپتے ہوئے بچے سورج دیوتا سے باہرنکلنے کی التجا کررہے تھے۔ پنگھٹ پر گاؤں کی البیلی عورتیں جمع ہوگئی تھیں۔ پانی بھرنے کے لئے نہیں، ہنسنے کے لئے۔ کوئی گھڑے کوکنویں میں ڈالے اپنی پوپلی ساس کی نقل کررہی تھی۔ کوئی ستون سے چمٹی ہوئی اپنی سہیلی سے مسکرا مسکراکر رازونیاز کی باتیں کرتی تھی۔ بوڑھی عورتیں روتے ہوئے پوتوں کوگودمیں لئے اپنی بہوؤں کوکوس رہی تھیں جوگھنٹہ بھر ہوئے اب تک کنویں سے نہیں لوٹی تھیں۔ مگرراج ویدلالہ شنکر داس ابھی تک میٹھی نیندسورہے تھے۔ کھانستے ہوئے بچے اورکراہتے بوڑھے ان کے دواخانہ کے دروازہ پرجمع ہوچلے تھے۔ اس مجمع ِبے تمیری سے کچھ دورہٹ کر دوتین خوش وضع مگرزردرونوجوان سرجھکائے ہوئے ٹہلتے نظرآتے تھے۔ اور ویدجی سے تخلیہ میں کچھ باتیں کرنے کی فکر میں تھے۔ اتنے میں پنڈت دیودت ننگے سر، ننگے بدن، سرخ آنکھیں چہرہ سے وحشت برستی ہوئی کاغذ کاایک پلندہ لئے دوڑتے ہوئے آئے اوردواخانہ کے دروازہ پراتنی زور سے ہانگ لگائی کہ ویدجی چونک پڑے اورکمہارکوآوازدی کہ جاکر دروازہ کھول دے یہ حضرت بڑی رات گئے کسی برادری کی پنچایت سے لوٹے تھے۔ انہیں گراں خوابی کا مرض تھا۔ جو باوجود حکیم جی کے مسلسل زبانی اورطبی نسخوں کے کم نہ ہوتاتھا۔ بارے آپ اینڈتے ہوئے اٹھے اوردروازہ کھول کراپنے حقہ چلم کی فکرمیں آگ ڈھونڈنے چلے گئے۔ حکیم جی اٹھنے کی کوشش کررہے تھے کہ یکایک دیودت ان کے روبرو جاکرکھڑے ہوگئے اور نوٹوں کاپلندا ان کے آگے ٹیک کربولے، ’’ویدجی! یہ پچہتر ہزار کے نوٹ ہیں یہ آپ کا شکرانہ اور آپ کی فیس ہے آپ چل کر گرجا کودیکھ لیجئے اورایسا کچھ کیجئے کہ وہ صرف ایک بارآنکھیں کھول دے۔ یہ اس کی ایک نگاہ کاصدقہ ہے۔ صرف ایک نگاہ۔ آپ کو روپے انسان کی جان سے پیارے ہیں۔ وہ آپ کی نذر ہیں۔ مجھے گرجا کی ایک نگاہ ان روپیوں سے کئی گنی پیاری ہے۔‘‘

ویدجی نے ندامت آمیز ہمدردی سے دیودت کی طرف دیکھا اورصرف اتنا کہا، ’’مجھے سخت افسوس ہے۔ میں ہمیشہ کے لئے تمہارا گنہگار ہوں۔ مگرتم نے مجھے سبق دے دیا۔ ایشور نے چاہا تو اب ایسی غلطی نہ ہوگی۔ مجھے افسوس ہے۔ واقعی سخت افسوس ہے۔‘‘

یہ باتیں ویدجی کے دل سے نکلی تھیں۔

کوئی تبصرے نہیں: