سایہ — غلام عباس

 دن بھر جیسے جیسے سائے گھٹتے بڑھتے اور زاویے بدلتے رہتے، سبحان کی دکان بھی جگہیں بدلتی رہتی۔ صبح کو سورج نکلنے سے پہلے ہی وہ اپنا ٹھیلہ وکیل صاحب کے مکان کے سامنے سڑک کے اس کنارے لا کھڑا کرتا۔ اس طرف کوئی عمارت نہ تھی۔ زمین بھوبھل کی طرح تھی اور تھوڑی سی ڈھلوان کے بعد ایک میدان آتا تھا، جس میں پیپل کا ایک پرانا پیڑ تھا۔ جب سورج وکیل صاحب کے چو منزلے مکان کے پیچھے سے ابھرتا اور دھوپ دھیرے دھیرے پیپل کی چوٹی سے اترنی شروع ہوتی اور کوئی دو ڈھائی گھنٹے میں مکان کا احاطہ کرتی، ڈھلوان پر چڑھتی ہوئی سڑک کے کنارے تک پہنچ جاتی تو وہ اپنا ٹھیلہ سڑک کے اس کنارے وکیل صاحب کے مکان کے زینے کے ساتھ ملا کر کھڑا کر دیتا۔ اور یوں اس اونچے مکان کا سایہ دو تین گھنٹے تک اور اسے دھوپ سے بچائے رکھتا۔ 

لیکن جب سورج عین سر پر آ جاتا، اور سایہ مختصر ہوتے ہوتے ایک لکیر سی بن کے رہ جاتا تو اسے ناچار اپنا ٹھیلہ ڈھلوان پر سے دھکیل کر میدان میں پیپل تلے لے جانا پڑتا۔ جہاں وہ دو تین بجے تک ڈیرا جمائے رہتا۔ اس کے بعد سورج ڈھلنا شروع ہوتا تو پیپل کے سائے کے ساتھ ساتھ اس کی دکان بھی آگے سرکنی شروع ہو جاتی۔ یہاں تک کہ شام ہوتے ہوتے وہ پھر وکیل صاحب کے مکان کے سامنے سڑک کے اسی کنارے پر پہنچ جاتا جہاں زمین بھوبھل کی طرح تھی اور جہاں اس نے علی الصباح ٹھیلہ کھڑا کیا تھا۔ خاص طور پر گرمیوں میں اس کی دکان یوں ہی جگہیں بدلتی رہتی تھی۔ 

وکیل صاحب کا مکان سبحان کو دھوپ ہی سے پناہ نہ دیتا تھا بلکہ اس کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ بھی تھا۔ وکیل صاحب ایک وسیع کنبے کے سرپرست تھے۔ ان کا شمار شہر کے مشہور وکیلوں میں ہوتا تھا۔ بڑے با اخلاق، ملنسار اور مہمان نواز۔ جب تک گھر پر رہتے، ملنے والوں کا تانتا لگا رہتا، کچہری جاتے تو پیچھے بیگم صاحب ان کی ہردلعزیزی کو برقرار رکھتیں۔ ان کی اپنی ملنے والیاں بھی کچھ کم نہ تھیں۔ اس پر وکیل صاحب کے مؤکلوں کی بیویوں کی مدارات کرنا بھی ان کے فرائض میں داخل تھا۔ چنانچہ سبحان کے ٹھیلے سے سوڈا لیمن کی بوتلوں، برف، پان سگرٹ وغیرہ کی تھاک بندھی رہتی۔ 

یہ علاقہ شہر کے سرے پر تھا، جہاں شہر کی حد ختم ہو جاتی اور کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ اس جگہ مکان خال خال ہی تھے اور کوئی دکان قریب نہ تھی۔ بھلا دو ایک گھروں کے آسرے کون ایک مستقل دکان کا متحمل ہو سکتا۔ رہا سبحان، اس کی بات دوسری تھی۔ اول تو اس کے ٹھیلے کا خرچ ہی کیا تھا۔ کرایہ دینا پڑتا تھا نہ بجلی پانی کا بل۔ پھر دنیا میں کوئی رشتہ دار تھا نہ عزیز۔ گھر تھا نہ در۔ اس کی ضروریات زندگی اس قدر مختصر تھیں کہ صرف وکیل صاحب کے مکان کی آمدنی ہی سے پوری ہو جاتی تھیں۔ اور وہ شہر کے چوکوں کے ٹھیلے والوں اور دوسرے دکان داروں کی باہمی چشمکوں سے الگ تھلگ اس سنسان مگر عافیت کی جگہ میں خوش تھا۔ 

وکیل صاحب نے جب نئی نئی وکالت شروع کی تھی تو انہیں مجبوراً شہر کے ایک بارونق بازار میں رہنا پڑا تھا۔ چھوٹا سا مکان، کرایہ حد سے بڑھا ہوا، مگر رفتہ رفتہ جب کام چل نکلا اور لوگ ان کو جاننے لگے تو انہوں نے اس نواح میں ایک مؤکل کی زمین سستے داموں خرید لی۔ یہ زمین ایک عرصے تک یوں ہی پڑی رہی۔ رفتہ رفتہ جب انہوں نے تعمیر کے لیے روپیہ جمع کر لیا اور اپنے حسب منشا مکان بنوا لیا تو وہ اپنے وسیع کنبے کو لے کر اس میں اٹھ آئے۔ ان کے دم قدم سے تھوڑے ہی دنوں میں اس علاقے میں زندگی کے آثار نظر آنے شروع ہو گئے۔ دور دور سے تانگے والے ان کے مؤکلوں کو لے کر یہاں پہنچنے لگے۔ چونکہ وکیل صاحب خود بھی تانگے ہی میں بیٹھ کر کچہری جایا کرتے تھے، اس لیے دو ایک تانگے صبح شام ان کے مکان کے آس پاس کھڑے نظر آنے لگے۔ کبھی کبھی کوئی موٹر بھی تھوڑی دیر کے لیے ان کے مکان کے نیچے رک کر اس نواح کی رونق بڑھا جاتی۔ 

وکیل صاحب کے گھر کے علاوہ سبحان کی آمدنی کا ذریعہ یوں تو وہ اکا دکا راہ گیر بھی تھے جو شہر سے دیہات یا دیہات سے شہر جاتے ہوئے اس سے دو ایک پیسے کے بیڑیاں، گڑ کی ریوڑیاں یا بھنے ہوئے چنے خریدنے ٹھہر جاتے۔ مگر ان سے یافت کم اور کوفت زیادہ ہوتی۔ خصوصاً اس وقت جب دیہاتنیں سر اور ٹھوڑی پر دوپٹے کے بل دیے، ناک اور منھ چھپائے اپنی پھڈی جوتیاں گھسیٹ گھسیٹ کر چلتیں تو سڑک پر گرد وغبار کا ایک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوتا اور سبحان کو سوڈے کی بوتلوں سے گرد دور کرنے کے لیے پانی کا ایک اور چھینٹا دینا پڑتا۔ ان راہ گیروں سے کہیں زیادہ اس کی بکری تانگے والوں سے ہوتی تھی جو یوں تو کمر کے نیچے سے پھٹا ہوا خاکی پاجامہ پہنے ہوتے، مگر قینچی سے کم درجے کا سگرٹ پینا ان کی طبع کو پسند نہ تھا اور جب پیاس لگتی تو پانی کے بجائے برف میں لگے ہوئے لیمن کے ادھے سے ان کی تسکین ہوتی تھی۔ 

کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ جب سبحان دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں لاوارث سانڈوں، کتوں، بھک منگے لڑکوں کے ساتھ پیپل کے سائے تلے پناہ لے رہا ہوتا اور بکری سے بے نیاز اسٹول پربیٹھے بیٹھے اونگھنے لگتا تو ایسے میں کوئی دیہاتی برات دولہا دلہن سمیت، پسینے میں شرابور، گلے ماتھے اور کلائیوں پر سستے ریشمی کپڑوں کا رنگ لگا ہوا، پیاس سے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی اس پیپل تلے سستانے اور پڑاؤ کرنے پر مجبور ہو جاتی اور سبحان کی کئی دنوں کی کسر ایک دن میں نکل جاتی۔ 

سبحان کو اس علاقے میں ٹھیلہ لگاتے پانچ برس ہو چکے تھے۔ یہی ایک ایسا کام تھا جو اس نے ایک جگہ جم کر اتنے عرصے تک کیا تھا، ورنہ اس کی ساری عمر گھومنے پھرنے میں گزر گئی تھی۔ ابھی وہ دس برس کا بھی نہ ہوا تھا کہ فکر معاش نے اسے گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس نے بچپن اور جوانی میں بیسیوں دھندے کیے تھے۔ آج اس شہر میں توکل اس شہر میں۔ کبھی کسی گھر میں اوپر کے کام پر ملازم ہے تو کبھی کسی دفتر میں چپراسی ہے۔ کبھی ریلوے شاپ میں، تو کبھی چھاپے خانے میں۔ کچھ عرصہ فوج میں بھی رہا۔ جب تک ہاتھ پاؤں میں سکت رہی، آزاد مزدوری کو ہر کام پر ترجیح دی۔ مگر جب جوانی گزر گئی اور بڑھاپے کے آثار نمودار ہونے شروع ہو گئے تو طبیعت محنت مشقت سے خودبخود بھاگنے لگی۔ آخر اس نے اتنی رقم جمع کر لی کہ ایک ٹھیلہ خرید لے۔ پہلے پہل اس نے پھل اور سبزیاں ٹھیلے پر رکھ کر شہر کا چکر لگانا شروع کیا۔ مگر تھوڑے ہی دنوں میں اس کام سے بددل ہو گیا۔ اول تو منڈی کے بھاؤ کو سمجھنا اور مول تول کرنا اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ وہ مال کو پرکھنے میں بہت جلد دھوکا کھا جاتا۔ پھر مال نہ بکے تو گل سڑ کر یا باسی ہو کر خراب ہو جاتا، اور پھر یہ کہ دوسرے ٹھیلے والوں سے خواہ مخواہ جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ دن بھر پولیس واہوں کی گھڑکیاں اور جھڑکیاں سہنی پڑتی تھیں۔ چنانچہ اس نے زیادہ منافع کے خیال کو چھوڑ کر پان سگرٹ کی دکان پر اکتفا کی اور شہر کا ایک ایسا الگ تھلگ گوشہ تلاش کر لیا جہاں کسی قدر چین سے زندگی کے دن پورے کر سکے۔ 

ادھر وکیل صاحب یہ دیکھ کر کہ یہ دکان محض ان کے گھر کے آسرے ہی پر لگائی گئی ہے، اس کی سرپرستی کرنا اپنا فرض سمجھنے لگے تھے۔ چنانچہ ماما اور نوکروں کو تاکید تھی کہ سب اسی سے سودا خریدیں اور اگر کچھ شکایت ہو یا چیزیں مہنگی معلوم ہوں تو ان کو اطلاع دیں۔ مگر سبحان کسی قسم کی شکایت کا موقع ہی نہ آنے دیتا۔ وہ نوکروں سے ہنسی مذاق کی باتیں کرکے اور ایک آدھ پان یا بیڑی مفت کھلا پلا کے ہمیشہ انہیں خوش رکھنے کی کوشش کیا کرتا۔ یوں بھی وہ ہنس مکھ اور طبیعت کا نیک تھا۔ لگائی بجھائی کی عادت نہ تھی۔ اس لیے سب سے خوب بنتی تھی۔ ٹھیلہ لگانے کے ساتھ ہی اس نے داڑھی رکھ لی تھی۔ لبیں کتروانے لگا تھا۔ خشخشی ڈاڑھی۔ تنکوں کی بنی ہوئی مخروطی وضع کی ایک ہلکی پھلکی ٹوپی ہر وقت سر پر رہا کرتی۔ چارخانہ تہمد، گاڑھے کا کرتا، اس پر خاکی زین کا کوٹ۔ اپنی اس وضع سے وہ خاصا دین دار معلوم ہوتا تھا۔ حالانکہ صوم و صلوٰۃ سے اسے کوئی واسطہ نہ تھا۔ 

ان پانچ برس میں جو اس نے وکیل صاحب کے مکان کے سائے میں گزارے تھے، وہ ان کے خاندان کے بہت سے حالات سے آگاہ ہو گیا تھا۔ اسے ایک ایک فرد کے عادات و اطوار کا علم تھا۔ یہاں تک کہ پردے میں رہنے والی عورتوں کا ناک نقشہ، ان کی سیرت اور سبھاؤ بھی اس سے چھپا ہوا نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ بیگم صاحب کے سارے بچے ایک ہی چھاتی کا دودھ پی کر پلے ہیں۔ کیونکہ دوسری چھاتی میں دودھ نہیں اترتا۔ وہ جانتا تھا کہ منجھلی صاحبزادی سب بہن بھائیوں سے زیادہ غصیلی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ وکیل صاحب کے والد ماجد میر صاحب بڑقصاب تھے مگر بیٹے کے کہنے پر انہوں نے وہ پیشہ چھوڑ دیا تھا۔ غرض کئی اور ایسی باتیں جن کا وکیل صاحب کے بہت سے ملنے جلنے والوں کو سان گمان بھی نہ ہو سکتا تھا۔ 

اسی طرح اسے مکان کے ایک ایک حصے اوراس کی آرائش کا حال بھی معلوم تھا۔ حالانکہ گھر تو گھر، اس نے کبھی سیڑھیوں میں بھی قدم نہ رکھا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کس کمرے میں کون رہتا ہے۔ وکیل صاحب کا دیوان خانہ کہاں ہے۔ بیگم صاحب ملنے والیوں سے کہاں ملاقات کرتی ہیں۔ بڑی صاحبزادیاں اور صاحبزادے رات کو کہاں سوتے ہیں۔ ہارمونیم کون بجاتا ہے۔ وہ پرانا بڑا کلاک جس کا گھنٹہ رات کو پچھلے پہر کے سناٹےمیں سنائی دیا کرتا ہے، کس کمرے میں ہے۔ باورچی خانہ کس منزل پر ہے اور بوڑھے میر صاحب اور نوکر چاکر کس طرح رہتے سہتے ہیں۔ یہ باتیں اسے کچھ تو بچوں کے بھولے پن سے، کچھ نوکروں کی بے احتیاطی سے اور کچھ خود اپنی ٹوہ لگانے کی عادت سے معلوم ہوگئی تھیں۔ لیکن انہیں معلوم کرنےمیں کسی بری نیت کو دخل نہ تھا۔ بس اسے انسانی ہمدردی کہہ لیجیے یا دل بہلاوے کی ایک صورت۔ آخر زندگی میں کچھ لگاؤ تو ہونا ہی چاہیے تھا۔ ورنہ اس ویرانے میں ایک ایسے شخص کا جس کے آگے پیچھے کوئی نہ ہو، دن گزارنا اجیرن ہو جاتا۔ 

اس پانچ سال کے عرصے میں سبحان کے سامنے وکیل صاحب کے خاندان میں دو نئے رکنوں کا اضافہ ہوا تھا۔ ایک صاحبزادہ، ایک صاحبزادی۔ ان سے پہلے جو صاحبزادے کئی گودوں میں رہتے تھے، وہ اب بہن کی انگلی پکڑے سبحان کی دکان سے اپنے لیے مٹھائی کی گولیاں لینے خود آنے لگے تھے۔ ان کے لیے ابھی پاجامہ پہننا ضروری نہیں سمجھا گیا تھا۔ ان بہن بھائیوں سے دو بڑے صاحبزادے علی الصباح سب سے پہلے مکان سے نکلتے۔ ایک کی عمر نو برس، دوسرے کی گیارہ برس، ایک ہی طرح کے کوٹ، ایک ہی طرح کی ٹوپیاں، ایک ہی طرح کے بستے۔ اسکول روانہ ہونے سے پہلے وہ سبحان سے دو دو پیسے کی چوسنے والی سنگترے کی پھانکیں خریدتے۔ سبحان سب سے پہلے ان ہی کی بوہنی کیا کرتا۔ جس دن انہیں آنے میں دیر ہو جاتی، وہ سمجھ جاتا کہ آج اسکول میں چھٹی ہے۔ وہ ان کے لیے بڑھیا سے بڑھیا سنگترے کی پھانکیں اور دوسری انگریزی مٹھائیاں لایا کرتا، اور نفع کا خیال کیے بغیر ہمیشہ گنتی سے زیادہ دیا کرتا۔ 

کبھی کبھی وہ چھوٹے بھائی سے کہتا، ’’افضل میاں اسکول سے دیر ہو گئی ہے نا، دیکھنا آج کیسے کان اینٹھیں گے ماسٹر صاحب!‘‘ اور افضل میاں اس کے سانولے رنگ کو گھور کر کہتے، ’’چپ رہو تم کالا آدمی۔ ہم تم سے بات کرنا نہیں مانگتا۔‘‘ اور وہ دونوں ہنستے ہوئے وہاں سے چل دیتے۔ ایک دن صبح کو بڑا بھائی آیا لیکن چھوٹا نہ آیا۔ جب اس نے پھانکیں خریدنے کے لیے جیب سے پیسے نکالے تو سبحان نے پوچھا، ’’افضل میاں کہاں ہیں؟‘‘ 

’’وہ ماموں کے ساتھ گاؤں گیا ہے۔‘‘ لڑکے نے جواب دیا اور وہ اکیلا ہی اسکول روانہ ہو گیا۔ جب چار پانچ روز تک سبحان نے افضل کی صورت نہ دیکھی تو اسے بے چینی سی ہونے لگی۔ آخر چھٹے روز جب دونوں بھائی پہلے کی طرح اسکول جاتے ہوئے اس کی دکان پر آئے تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی کھوئی ہوئی چیز مل گئی۔ ان لڑکوں کے جانے کے کوئی گھنٹہ بھر بعد ایک خالی تانگہ مکان کے نیچے آکر رکتا اور کوچوان گھنٹی بجاتا۔ سبحان سمجھ جاتا کہ اب صاحبزادیوں کے اسکول جانے کی باری ہے۔ جب انہیں آنے میں کچھ دیر ہو جاتی تو کوچوان بے صبری سے پے در پے گھنٹی بجانا شروع کر دیتا۔ اس پر پہلی منزل کے بخارچے میں سے بوڑھی ماما چق کو سرکا کر اپنا سر باہر نکالتی اور تانگے والے سے کہتی، ’’دم لو میاں آتے ہیں ابھی آتے ہیں۔‘‘ 

یہ سن کر تانگے والا بڑبڑاتا ہوا تانگے سے اتر کر سبحان کے ٹھیلے کے پاس جاتا اور اس سے قینچی کے دو سگریٹ خریدتا اور سونف ملیٹھی والا پان بنوا کر کھاتا۔ آخر وکیل صاحب کی تینوں بڑی صاحبزادیاں ماما کے ہمراہ سیڑھیوں سے اترتیں۔ بڑی کی عمر اٹھارہ، منجھلی کی سولہ اور چھوٹی کی تیرہ برس۔ تینوں کے مصری وضع کے برقعے، ایک کتھئی رنگ کا، ایک سیاہ رنگ کا اور ایک سلیٹی رنگ کا۔ تینوں کے پاؤں میں سینڈل۔ دو بڑی بہنیں تانگے کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتیں اور چھوٹی بہن اور ماما اگلی سیٹ پر، اور تانگے والا ایک بڑی سی سفید چادر تانگے کے آگے پیچھے تان دیتا۔ ماما سیر بھر برف کا چورا کر کے تھرمس بوتل میں بھروا لیتی۔ وہ اپنے لیے سبحان سے ایک برابر کا پان بھی بنواتی جس میں وہ بہت سا کالا تمباکو ڈلوایا کرتی۔ کبھی کبھی منجھلی کو بدہضمی کی شکایت ہوتی تو وہ سوڈے کا ایک ادھا ماما سے منگوا کر پیا کرتی اور تانگہ چل دیتا۔ 

اس کے تھوڑی ہی دیر بعد مختار اور شمشاد وکیل صاحب کے بڑے صاحبزادے موسم گرما کے ہلکے پھلکے کپڑے پہنے، اپنی اپنی سائیکل کندھے پر اٹھائے سیڑھیوں سے اترتے دکھائی دیتے۔ وہ سڑک کو پار کر کے سبحان کے ٹھیلے کے پاس آکھڑے ہوتے۔ سبحان انہیں سلام کرتا جس کا وہ خندہ پیشانی سے جواب دیتے۔ مگر وہ دونوں ہر وقت ایسی گرما گرم بحث میں الجھے رہتے کہ سبحان باوجود کوشش کے ان سے کوئی بات نہ کر پاتا۔ پھر ان کی باتیں بھی عموماً ایسی ہوتیں کہ سبحان کے کچھ بھی پلے نہ پڑتا۔ ان کے جوش و خروش ، تیز لہجے اور آنکھوں کی چمک کو دیکھ کر معلوم ہوتا کہ وہ کسی بہت ہی دقیق مسئلے پر بحث کر رہے ہیں۔ گفتگو کو جتنا حصہ سبحان کی سمجھ میں آتا وہ کچھ اس قسم کا ہوتا، 

’’شمی تمہاری عقل کو کیا ہوگیا ہے بھلا افلاطون۔۔۔‘‘ 

’’لیکن بھائی جان آپ بھی تو ذرا غور فرمائیے کہ ارسطو۔۔۔‘‘ 

’’شمی میں کہتا ہوں کہ تم کیسی بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو۔ مانا کہ۔۔۔‘‘ 

’’وہ تو صحیح ہے لیکن بھائی جان ان دلائل کی روشنی میں۔۔۔‘‘ 

’’یہ سرسراہٹ ہے تمہاری شمی۔‘‘ 

’’بھائی جان لیکن پروفیسر صاحب۔۔۔‘‘ 

’’شمی۔۔۔‘‘ 

’’بھائی جان۔۔۔‘‘ 

’’شمی۔۔۔‘‘ 

’’بھائی جان۔۔۔‘‘ 

غرض کالج کو جاتے۔ کالج سے آتے۔ ہاکی کھیلنے جاتے۔ ہاکی کھیل کر آتے۔ جب کبھی دونوں بھائی ساتھ ساتھ ہوتے، یہ بحث یوں ہی جاری رہتی۔ کبھی کبھی وہ انگریزی میں بھی گفتگو کرنے لگتے۔ پھر تو ان کا جوش و خروش اور بھی بڑھ جاتا۔ ایسے موقعوں پر سبحان نیچی نظریں کر کے مسکرایا کرتا۔ مختار بائیس سالہ نوجوان تھا۔ صحت و توانائی کا مجسمہ۔ بھرا بھرا جسم۔ سرخ و سفید چہرہ، شربتی رنگ کی آنکھیں۔ بھورے گھنگھریالے بال۔ شمشاد اس سے دوسال چھوٹا تھا۔ مگر اس کے باوجود اس کا قد بڑے بھائی سے نکلتا ہوا تھا۔ ظاہری جمال میں وہ مختار کے برابر نہ تھا۔ البتہ اپنی آنکھوں کی غیرمعمولی چمک سے وہ اس سے کہیں زیادہ ذہین معلوم ہوتا تھا اور سبحان نے بارہا یہ محسوس کیا کہ مختار بحث میں اپنے بڑے ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاکر خواہ مخواہ چھوٹے بھائی کو ڈانٹتا ڈپٹتا ہے اور یہ شمشاد کی سعادت مندی ہے کہ وہ ہمیشہ بڑے بھائی کا احترام ملحوظ رکھتا ہے۔ 

سبحان ان کے لیے حسب معمول دو کرارے دیسی پان چن کر نکالتا اور ان پر چونا کم اور کتھا زیادہ لگا کے رچنے کے لیے رکھ دیتا۔ وہ اپنی بحث کے دوران میں اس سے جھاڑن مانگتے اور بائیسکلوں کو بھی جھاڑتے پونچھتے جاتے اور ساتھ ساتھ بحث بھی کرتے رہتے۔ کبھی کسی پہیے میں ہوا کم ہوتی، تو وہیں سے ملازم لڑکے شبیر کو آواز دے کر پمپ منگوایا جاتا اور پہیے میں ہوا بھری جاتی۔ مگر اب بھی کیا مجال کہ بحث لمحہ بھر کے لیے بھی رکنے پائے۔ سبحان پانوں کے علاوہ سگرٹ کی دو ڈبیوں میں قینچی کے پانچ پانچ سگرٹ پہلے ہی سے ڈال رکھتا اور وہ اپنا اپنا پان منہ میں رکھ، سگرٹ سلگا، بائیسکلوں پر سوار ہو تیز تیز پیر مارتے ہوئے کالج روانہ ہو جاتے۔ مگر بحث بدستور جاری رہتی۔ 

کوئی دس بجے کے قریب ایک اور خالی تانگہ مکان کے نیچے آکر رکتا اور سبحان کو معلوم ہو جاتا کہ وکیل صاحب کے کچہری جانے کا وقت ہو گیا۔ اس وقت اس کا ٹھیلہ وکیل صاحب کے مکان کی سیڑھیوں کے برابر کھڑا ہوتا۔ وہ پہلے ہی سے ایک اچھا سا پان چھانٹ کر لگا رکھتا۔ آخر سیڑھیوں میں بھاری قدموں کی آہٹ سنائی دیتی اور وکیل صاحب سیاہ شیروانی پہنے، سر پر مشہدی پگڑی باندھے، چھڑی ٹیکتے ہوئے سیڑھیوں سے اترتے۔ ان کی عمر پچاس برس کے لگ بھگ تھی۔ بھاری بھرکم آدمی تھے۔ مگر چاق چوبند، فرانسیسی تراش داڑھی، جس میں اب کچھ دنوں سے سفید بال زیادہ نظر آنے لگے تھے۔ چہرے سے قناعت اور برد باری ٹپکتی تھی۔ کثرت اولاد کی وجہ سے ہر ایک کو شفقت کی نظروں سے دیکھنے کی عادت پڑ گئی تھی۔ سبحان کے سلام کے جواب میں وہ اس سے ایک آدھ بات کر لینا خواہ وہ بے معنی ہی کیوں نہ ہو، اپنا اخلاقی فرض سمجھتے تھے۔ 

’’بھئی سبحان! آج کل خربوزے پھیکے آ رہے ہیں۔‘‘ 

’’آم بھی تو کھٹے ہیں سرکار۔‘‘ 

’’سچ کہتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر تانگے میں بیٹھ جاتے، اور سبحان معمول کے مطابق پان، قینچی کی ڈبیا، دیا سلائی کا بکس اور ایک کاغذ کے ٹکڑے پر تھوڑا سا چونا رکھ کر کہ وہ زیادہ چونا کھانے کے عادی تھے، تانگے کے پاس جا یہ چیزیں انہیں دے دیتا۔ کبھی کبھی ان کا مختار بھی فائلیں لیے ان کے ہمراہ ہوتا اور سبحان کو اس کے لیے پان میں بہت سی سونف ڈالنی پڑتی۔ وہ وکیل صاحب اور ان کی بیگم کے بہت سے ملنے والوں کو بھی جاننے لگا۔ اسے معلوم تھا کہ بدھ کے روز تیسرے پہر حاجی صاحب کے ہاں سے زنانہ سواریاں آیا کرتی ہیں۔ چنانچہ جیسے ہی ان کا تانگہ آکے رکتا، وہ لائم جوس، رس بھری وغیرہ کی بوتلیں پہلے ہی سے دھو دھا کر نکال رکھتا۔ ان سواریوں کے ساتھ جو بچے آتے ان کی دل پسند مٹھائیوں کا بھی اسے پتہ تھا۔ 

اتوار کے روز عموماً ڈاکٹر علیم الدین یا خیر اللہ چائنا والے کے خاندان آیا کرتے، مؤخر الذکر وکیل صاحب کے دور کے قرابت داروں میں سے تھے اور ان ہی کی طرح کثیر الاولاد۔ قریب کے رشتہ داروں میں جو کبھی کبھی ملنے آ جاتے، اور جن کو سبحان اچھی طرح جانتا تھا، ایک تو بیگم صاحبہ کا چھوٹا بھائی تھا، جس کی بزازی کی دکان تھی۔ جب کبھی وہ آتا، کپڑے کا ایک آدھ تھان اس کی بغل میں ہوتا۔ یہ تھان کبھی تو وکیل صاحب کے ہاں ہی رہ جاتا اور کبھی وہ واپس اپنے ساتھ لے جاتا۔ اور دوسرے وکیل صاحب کے تایا ، جو بےحد ضعیف تھے اور اپنے بیٹے کے ساتھ شہر کے دوسرے سرے پر رہا کرتے تھے۔ جب کبھی یہ باپ بیٹے ملنے آتے تو دن بھر ان کے گھر ہی پر رہتے۔ اور رات کو بڑی دیر میں کھانا کھا کر جاتے۔ 

وہ مختار اور شمشاد کے بعض دوستوں کو بھی جانتا تھا جو ان سے ملنے آیا کرتے تھے۔ خصوصاً ریاض کو۔ شام کو جب وہ ہاکی کھیل کر واپس آتے تو اکثر ریاض بھی سائیکل پر ان کے ہمراہ ہوتا۔ وہ شمشاد کا ہم عمر اور کالج میں اس کا ہم سبق تھا۔ مختار سے اس کی زیادہ بے تکلفی نہ تھی۔ وہ چونکہ شمشاد کا بڑا بھائی تھا، اس لیے ریاض بھی اس کا ادب کیا کرتا تھا۔ ریاض ان دونوں بھائیوں سے قد میں چھوٹا تھا اور رنگت بھی ان جیسی سرخ و سفید نہ تھی۔ تاہم اس کی ملاحت میں ایک خاص بانکپن تھا۔ متبسم چہرہ، زندگی کی مسرتوں سے بھرپور اور فکروں سے آزاد۔ شمشاد کو اس سے اور اس کو شمشاد سے گہری وابستگی تھی۔ 

سبحان کے ٹھیلے کے قریب جو اس وقت وکیل صاحب کے مکان کے عین مقابل سڑک کے کنارے کنارے ہوتا، یہ تینوں نوجوان اپنی اپنی بائیسکل تھامے رخصت سے پہلے کچھ باتیں ضرور کرتے۔ جب کبھی ریاض ان بھائیوں کی بحث میں شامل ہو جاتا، پھر تو بحث طول ہی کھینچتی چلی جاتی۔ سبحان سے بار بار پان اور سگرٹ لیے جاتے۔ ریاض بار بار خدا حافظ کہتا مگر رخصت نہ ہونے پاتا۔ غرض گھنٹہ گھنٹہ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ یوں ہی باتوں میں گزر جاتا۔ اس دوران میں وکیل صاحب کے مکان کی دوسری منزل میں، یہاں بڑی صاحبزادی کا کمرہ تھا، بار بار ایک رنگین سایہ چقوں کے پیچھے حرکت کرتا رہتا، جسے سبحان کی کن انکھیوں کے سوا اور کوئی آنکھ نہ دیکھ سکتی۔ 

وکیل صاحب کے صاحبزادوں اور صاحبزادیوں سے رشتے کے سلسلے میں جو لوگ آیا کرتے ، سبحان ان کو بھی خوب پہچانتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کی بکری ایک دم بڑھ جاتی اور گھر کے ملازموں اور بوڑھی ماما کے ساتھ ساتھ وکیل صاحب کے چھوٹے لڑکے اور لڑکیاں بھی دوڑ دوڑ کر سبحان کی دکان پر سودا لینے آیا کرتے۔ ان لوگوں کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد سبحان ٹوہ لگاتا کہ کہیں بات پکی ہوئی یا نہیں۔ وہ شبیر سے ہنس کر کہتا، ’’پانچوں گھی میں ہوں گی اور سر کڑھائی میں۔‘‘ شبیر حیران ہو کر پوچھتا ’’کیا کہا تم نے؟‘‘ 

’’زیادہ بنو نہیں ہم سے، سب خبر ہے ہمیں۔‘‘ 

شبیر اب بھی لاعلمی ظاہر کرتا تو وہ سمجھ جاتا کہ اس کو واقعی خبر نہیں اور پھر وہ ماما کی طرف رجوع کرتا جس سے اسے اکثر باتیں معلوم ہو جایا کرتی تھیں۔ بڑی بی وکیل صاحب کی سب سے پرانی ملازمہ تھیں۔ ان کے سارے بچے ان ہی کی گود میں پلے بڑھے تھے۔ ان کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔ نہ کوئی رشتہ دار تھا۔ ان بچوں سے انہیں دلی محبت تھی اور اس کی بنا پر وہ ان کے مستقبل کے بارے میں رائے زنی کرنا اپنا حق سمجھتی تھیں۔ چنانچہ محبت اور سادگی میں ان کی زبان سے بے ساختہ نکل جاتا، ’’نوج، جوان لوگوں میں رشتہ ہو۔ مجھے تو یہ ایک آنکھ نہیں بھاتے۔‘‘ پھر ذرا تامل کرکے کہتیں، ’’گھبراؤ نہیں۔ وہ دن بھی آجائے گا۔ چاند سی بیٹیاں ہیں میری۔‘‘ 

اور سبحان سمجھ جاتا کہ ان لوگوں سے بات نہیں ٹھہری۔ یوں ہی کسی موقع پر افضل میاں سے کہتا، ’’شہ بالا بنے گا میرا میاں۔ ہم کو بھی گھوڑی پر چڑھاؤگے نا؟‘‘ اگر اس قسم کی کوئی بات گھر میں ہوئی ہوتی تو افضل میاں شرما کر چل دیتے یا معلوم نہ ہوتا تو کہتے، ’’چپ رہو تم کالا آدمی۔ ہم تم سے بات کرنا نہیں مانگتا۔‘‘ ایک دن ایسے ہی موقع پر جب کچھ عورتیں آئی ہوئی تھیں، بڑی بی پان لینے آئیں۔ ان کا سانس پھولا ہوا تھا، مگر وہ بہت خوش معلوم ہوتی تھیں۔ سبحان نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا ہی تھا کہ وہ پھوٹ پڑیں، ’’کسی سے ذکر وکر نہ کیجیو، بڑی صاحبزادی کی بات ٹھہر گئی۔‘‘ 

’’کب؟‘‘ 

’’ابھی ابھی۔‘‘ 

’’کون لوگ ہیں؟‘‘ 

’’شہر کے مشہور ڈاکٹر ہیں۔ لڑکا بی۔ اے میں پڑھتا ہے۔ پر خبردار کسی سے ذکر نہ کر بیٹھیو۔ سو دشمن ہیں، سو دوست۔ میں نے گھر کا آدمی سمجھ کے تم سے کہہ دیا ہے۔ تم کسی سے نہ کہنا۔ بچوں سے بھی نہیں۔ نوکروں سے بھی نہیں۔۔۔‘‘ 

اس کے دو تین ہی دن بعد سبحان نے کئی اور ذریعوں سے بڑی بی کی بات کی تصدیق کر لی۔ سمدھیوں میں میل جول بڑھنے لگا۔ عورتیں تو آتی جاتی ہی رہتی تھیں۔ ایک بار لڑکے کے والد ڈاکٹر صاحب بھی اپنی موٹر میں بیٹھ کے وکیل صاحب سے ملنے آئے اور دیر تک ان سے باتیں کرتے رہے۔ دوسری مرتبہ ضیافت پر آئے۔ اس موقع پر ان کا بیٹا بھی ان کے ہمراہ تھا۔ وہ خاصا قبول صورت تھا مگر کسی قدر لاغر معلوم ہوتا تھا۔ بڑی بی نے کہا، ’’امتحان کی فکر ہے بچارے کو۔‘‘ سبحان کو اس کا نام بھی معلوم ہوگیا صغیر احمد۔ قرار یہ پایا کہ جب لڑکا امتحان دے لےگا تو اس کی شادی کردی جائےگی۔ بڑی صاحبزادی کے جہیز کے لیے جلدی جلدی جو زیورات و ملبوسات تیار کرائے جا رہے تھے، سبحان ان کی پوری تفصیل جانتا تھا۔ اس دوران میں شمشاد میاں کے دوست ریاض بھی کئی مرتبہ ہاکی کے بعد ان دونوں بھائیوں کو ان کے گھر تک پہنچانے آئے اور سبحان نے دیکھا کہ دوسری منزل میں چقوں کے پیچھے وہ رنگین سایہ اب بھی حرکت کرتا ہے۔ 

اور ایک دن اچانک سبحان کے ذہن میں ایک بات آئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ صاحبزادی کو یہ رشتہ منظور نہ ہو! یہ بات اسے کسی نے نہیں سجھائی تھی۔ اور سجھاتا بھی تو کون۔ کیونکہ وکیل صاحب یا گھر کے کسی اور آدمی کو اس کا گمان تک نہ تھا۔ اس نے مختلف ذریعوں سے اس کے متعلق معلومات حاصل کرکے خود ہی یہ نتیجہ نکالا تھا۔ آخر اس نے بھی ایک عمر گزاری تھی۔ زمانے کا سرد و گرم دیکھا تھا۔ دوتین مرتبہ بڑی بی اور بچوں سے اسے معلوم ہوا تھا کہ صاحبزادی کی طبیعت ناساز ہے۔ ایک دن دیکھا کہ تانگے میں سوار ہوتے وقت وہ بڑی بے دلی سے قدم اٹھا رہی ہے۔ ایک دن وہ اپنی بہنوں کے ساتھ اسکول نہیں گئی۔ بلکہ درد سر کی وجہ سے گھر ہی میں رہی۔ مگر اسی شام کو جب مختار اور شمشاد کے ساتھ ریاض میاں سبحان کی دکان پر آئے اور سڑک کے کنارے کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگے تو اس نے دوسری منزل میں چقوں کے پیچھے اس رنگین سائے کو پہلے سے بھی زیادہ بے چین دیکھا۔ 

ایسے معاملوں میں دل پر جو گزرتی ہے، سبحان اس سے بخوبی واقف تھا۔ مدت ہوئی، جوانی میں وہ ایک پہاڑی مقام پر رکشا چلایا کرتا تھا تو اسے ایک عورت سے محبت ہو گئی تھی۔ دن بھر جو کچھ کماتا لا کر اس کے حوالے کر دیتا۔ مگر اس عورت کے کچھ اور آشنا بھی تھے جن سے وہ چھپ چھپ کر ملا کرتی۔ ایک دن سبحان نے موقع پر جا لیا۔ چٹیا پکڑ کھینچتا ہوا اپنی کوٹھری میں لے آیا اور شراب کے نشے میں کچھ زیادہ ہی مرمت کر ڈالی۔ صبح کو آنکھ کھلی تو کوٹھری خالی تھی اور باہر آنگن میں اس کا رکھشا جلا پڑا تھا۔ سبحان مدتوں اس عورت کو ڈھونڈا کیا۔ مگر اس کی صورت پھر کبھی نظر نہ آئی، اور نہ اس کی یاد دل سے مٹی۔ 

شادی کی تیاریاں اب اور بھی زور شور سے ہونے لگی تھیں۔ وکیل صاحب کے گھر میں ہر وقت ایک شور و غل مچا رہتا۔ طرح طرح کی اجناس ٹھیلوں میں لدلد کے آ رہی تھیں۔ قسم قسم کا فرنیچر، سنگھار میز، پلنگ، کرسیاں، تپائیاں، تانبے اور پیتل کے برتن جنہیں قلعی گرنے چاندی کا سا بنا دیا تھا۔ مہمانوں کی وہ ریل پیل تھی کہ سبحان کو دکانداری سے لمحہ بھر کی فرصت نہ ملتی تھی مگر پھر بھی وہ خوش نہ تھا۔ جوں جوں شادی کا دن قریب آتا جاتا اس کی افسردگی بڑھتی جاتی تھی اور اسے ایک نامعلوم ہول سا ہونے لگا تھا۔ وکیل صاحب اس سے اور بھی زیادہ لطف و مہربانی سے پیش آنے لگے تھے۔ ایک دن وہ اس سے کہنے لگے، ’’سبحان! ہم تمہارے لیے بھی ایک جوڑا سلوائیں گے۔ برات کے روز پہننا۔ دیکھنا انکار نہ کرنا۔ ہمسائے کا رشتہ عزیزوں سے کم نہیں ہوتا۔‘‘ سبحان نے وکیل صاحب کے بچوں کو دعائیں دیں مگر یہ مژدہ بھی اس کی افسردگی کو دور نہ کر سکا۔ 

ایک دن علی الصباح سبحان نےابھی ٹھیلہ سڑک کے کنارے لاکے کھڑا کیا ہی تھا کہ دیکھا شمشاد کندھے پر بائیسکل اٹھائے جلد جلد سیڑھیوں سے اتر رہا ہے۔ اس نے صرف بنیان اور نیکر پہن رکھا تھا، اور ابھی داڑھی بھی نہیں مونڈی تھی۔ 

’’کہئے شمشاد میاں صبح صبح کدھر کی تیاری ہے؟‘‘ سبحان نے پوچھا۔ 

’’کہیں نہیں، ذرا ڈاکٹر کو بلانے جا رہا ہوں۔‘‘ شمشاد نے جواب دیا۔ 

’’خیر تو ہے؟‘‘ سبحان نے فکر مندی سے پوچھا۔ 

’’ہاں خیر ہی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر شمشاد بائیسکل پر تیز تیز پاؤں مارتا ہوا چل دیا۔ سبحان کا ماتھا ٹھنکا اور وہ بے تابی کے ساتھ گھر کے اور لوگوں کی راہ دیکھنے لگا تھا کہ معلوم کرے کون بیمار ہے۔ جب وکیل صاحب کے دونوں چھوٹے صاحبزادے اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلے تو ان سے معلوم ہوا کہ رات بڑی باجی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک موٹر وکیل صاحب کے مکان کے نیچے رکی اور ڈاکٹر ہاتھ میں بیگ لیے اوپر گیا۔ کوئی دس منٹ کے بعد وہ نیچے اترا۔ سبحان اپنا ٹھیلہ چھوڑ اس کے پاس آ گیا۔ مگر اس سے کچھ پوچھنے کی اسے جرأت نہ ہو سکی اور وہ اور بھی زیادہ بے تابی کے ساتھ بڑی بی یا شبیر کا انتظار کرنے لگا۔ 

اس کے کچھ ہی دیر بعد وہ تانگہ آیا جس میں بیٹھ کر لڑکیاں اسکول جایا کرتی تھیں، مگر بڑی بی نے اسے اوپر ہی سے ’’آج نہیں چاہئے‘‘ کہہ کر لوٹا دیا۔ کوئی گھنٹہ بھر کے بعد شبیر برف لینے آیا تو اس سے معلوم ہوا کہ بڑی صاحبزادی کو سرسام ہو گیا ہے۔ مگر زیادہ فکر کی بات نہیں۔ ڈاکٹر دو گھنٹے بعد پھر آئے گا۔ دو گھنٹے بعد ڈاکٹر پھر آیا اور جب وہ جانے لگا تو سبحان پھر اس کے قریب آ کھڑا ہوا۔ اس کے لب ہلے مگر سوال کرنے کی اب کے بھی اسے جرأت نہ ہوئی۔ اس دفعہ بڑی بی پان لینے آئیں تو ان سے معلوم ہوا کہ حالت میں کچھ فرق نہیں ہے۔ ڈاکٹر شام کو پھر آنے کو کہہ گیا ہے۔ اس روز وکیل صاحب کچہری نہیں گئے۔ تیسرے پہر لڑکی کا ہونے والا سسر جو خود بھی ڈاکٹر تھا، اسے دیکھنے آیا اور ایک گھنٹہ تک اس کے پاس رہا، اور جو لوگ اس کی خبر کو آئے انہیں جلد ہی رخصت کر دیا گیا۔ دن بھر مکان پر ایک مقبرے کی سی خاموشی طاری رہی۔ 

شمشاد اور مختار کالج سے جلد واپس آ گئے تھے۔ شام کو وہ ہاکی کھیلنے نہیں گئے۔ ریاض شمشاد سے ملنے آیا۔ سبحان کے ٹھیلے کے قریب جب شمشاد اس سے اپنی بہن کا حال بیان کر رہا تھا تو سبحان نے سنا کہ اس کے مرض میں ابھی افاقہ نہیں ہوا۔ دونوں ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر آج کی رات خیریت سے گزر گئی تو پھر کوئی اندیشہ نہیں۔ جس وقت وہ باتیں کر رہے تھے تو سبحان کی نظر دوسری منزل پر چقوں کی طرف اٹھ گئی۔ کمرے میں روشنی ہو رہی تھی مگر وہ سایہ نظر نہیں آیا۔ تھوڑی دیر میں ریاض رخصت ہو گیا۔ شمشاد نے گھر جاتے ہوئے سبحان سے کہا، ’’برف اور لا رکھنا۔ شاید رات کو ضرورت پڑ جائے۔‘‘ 

’’فکر نہ کیجیے۔ میں نے من بھر برف پہلے ہی سے منگوا رکھی ہے۔‘‘ 

سبحان رات کو عموماً نو بجے دکان بڑھایا کرتا تھا، مگر اس رات اس نے گیارہ بجے تک جمائے رکھی۔ اس دوران میں وہ ملازموں سے برابر بچی کی خیریت معلوم کرتا رہا۔ اس کی حالت اگر سدھری نہیں تھی تو زیادہ بری بھی نہیں ہونے پائی تھی۔ آدھی رات کے قریب وہ ٹھیلے کو بند کر کے حسب معمول اس کے قریب ہی سڑک کے کنارے چارپائی ڈال لیٹ رہا، مگر آنکھوں میں نیند غائب تھی۔ کان وکیل صاحب کے مکان کی طرف لگے ہوئے تھے۔ صبح کو تین بجے کے قریب جب وہ ذرا اونگھنے لگا تو اچانک ایک طرف سے کتے کے بھونکنے کی آواز آئی اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور وکیل صاحب کے مکان کی سیڑھیوں کی طرف بھاگا، مگر گھر میں بدستور خاموشی تھی۔ 

اس نے پتھر مار کر کتے کو بھگا دیا۔ 

کوئی تبصرے نہیں: