زرد کتا — انتظار حسین
ایک چیز لومڑی کا بچہ ایسی اس کے منہ سے نکل پڑی۔ اس نے اسے دیکھا اورپاؤں کے نیچے ڈال کر روندنے لگا، مگر وہ جتنا روندتا تھا اتناوہ بچہ بڑا ہوتا جاتا تھا۔
جب آپ یہ واقعہ بیان فرما چکے تھے تو میں نے سوال کیا، ’’یا شیخ۔۔۔ لومڑی کے بچہ کا رمز کیا ہے اور اس کے روندے جانے سے بڑے ہونے میں کیا بھید مخفی ہے۔۔۔؟‘‘ تب شیخ عثمان کبوتر نے ارشاد فرمایا کہ’’لومڑی کا بچہ تیرا نفس امارہ ہے۔ تیرا نفس امارہ جتنا روندا جائے گا موٹا ہوگا۔‘‘
میں نے عرض کیا، ’’یا شیخ اجازت ہے۔۔۔؟‘‘
فرمایا، ’’ اجازت ملی، اور پھر وہ اڑ کر املی کے پیڑ پر جابیٹھے۔‘‘ میں نے وضو کیا اور قلمدان اور کاغذ لے کر بیٹھا۔ اے ناظرین! یہ ذکر میں بائیں ہاتھ سے قلمبند کرتا ہوں کہ میرا دایاں ہاتھ دشمن سے مل گیا اور وہ لکھنا چاہا جس سے میں پناہ مانگتا ہوں اور شیخ ہاتھ سے پناہ مانگتے تھے اور اسے کہ آدمی کا رفیق و مددگار ہے، آدمی کا دشمن کہتے تھے۔ میں نے ایک روز یہ بیان سن کر عرض کیا، ’’یا شیخ تفسیر کی جائے۔‘‘ تب آپ نے شیخ ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ سنایا جو درج ذیل کرتا ہوں۔
’’شیخ ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں تیسرا فاقہ تھا، ان کی زوجہ سے ضبط نہ ہو سکا اور انہوں نے شکایت کی۔ تب شیخ ابوسعید باہر نکلے اور سوال کیا۔ سوال پر جو انہوں نے پایا وہ لے کر اٹھتے تھے کہ کوتوالی والوں نے انہیں جیب تراشی کے جرم میں گرفتار کر لیا اور سزا کے طور پر ایک ہاتھ قلم کر دیا۔ آپ وہ ترشا ہوا ہاتھ اٹھا کر گھر لے آئے۔ اسے سامنے رکھ کر رویا کرتے تھے کہ اے ہاتھ تونے طمع کی اور تونے سوا کیا، سو تو نے اپناانجام دیکھا۔‘‘
یہ قصہ سن کر میں عرض پرداز ہوا، ’’یا شیخ اجازت ہے۔۔۔؟‘‘ اس پر آپ خاموش ہوئے، پھر فرمایا، ’’اے ابوقاسم خضری لفظ کلمہ ہیں اور لکھنا عبادت ہے۔ پس وضو کر کے دو زانو بیٹھ اور جیسا سنا ویسا رقم کر۔‘‘ پھر آپ نے کلام پاک کی یہ آیت تلاوت کی۔
’’پس افسوس ہے ان کے لئے بوجہ اس کے جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور افسوس ہے، ان کے لئے بوجہ اس کے جو کچھ وہ اس سے کماتے ہیں۔‘‘
اور یہ آیت پڑھ کر آپ ملول ہوئے۔ میں نے سوال کیا، ’’یا شیخ! یہ آیت آپ نے کیوں پڑھی؟ اور پڑھ کر ملول کس باعث ہوئے؟‘‘اس پر آپ نے آہ سرد بھری اور احمد حجری کا قصہ سنایا جو من و عن نقل کرتا ہوں۔
’’احمد حجری اپنے وقت کے بزرگ شاعر تھے مگر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ شہر میں شاعر بہت ہو گئے۔ امتیاز ناقص و کامل مٹ گیا اور ہر شاعر خاقانی اور انوری بننے لگا۔ قصیدہ لکھنے لگا۔ احمد حجری نے یہ حال دیکھ کر شعر گوئی ترک کی اور شراب بیچنی شروع کر دی۔ ایک گدھا خریدا کہ شراب کے گھڑے اس پر لاد کر بازارجاتے تھے اور انہیں فروخت کرتے تھے۔ لوگوں نے بہت انگلیاں اٹھائیں کہ احمد گمراہ ہوا، کلام پاکیزہ سے گزر کر شراب کا سوداگر ہوا۔ انہوں نے لوگوں کے کہنے پر مطلق کان نہ دھرا اور اپنے مشغلے سے لگے رہے۔ مگر ایک روز ایسا ہوا کہ گدھا ایک موڑ پر آکراڑ گیا۔ انہوں نے اسے چابک رسید کیا تو اس گدھے نے انہیں مڑ کردیکھا اور ایک شعر پڑھا، جس میں تجنیس لفظی استعمال ہوئی تھی اور مضمون یہ تھا کہ میں دوراہے پر کھڑا ہوں۔ احمد کہتا ہے چل، احد کہتا ہے مت چل، احمد حجری نے یہ سن کر اپنا گریبان پھاڑ ڈالا اور آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانے کا برا ہو کہ گدھے کلام کرنے لگے اور احمد حجری کی زبان کو تالا لگ گیا۔ پھر انہوں نے گدھے کو آزاد کر کے شہر کی سمت ہنکا دیا اور خود پہاڑوں میں نکل گئے۔ وہاں عالم دیوانگی میں درختوں کو خطاب کر کے شعر کہتے تھے اور ناخن سے پتھروں پر کندہ کرتےتھے۔‘‘
یہ واقعہ سنا کر شیخ خاموش ہوگئے اور دیر تک سرنیوڑھائے بیٹھے رہے پھر میں نے عرض کیا، ’’یا شیخ آیا درخت کلام سماعت کرتے ہیں۔ در آنحالیکہ وہ بے جان ہیں۔‘‘ آپ نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ پھر فرمایا، ’’زبان کلام کے بغیر نہیں رہتی۔ کلام سامع کے بغیر نہیں رہتا۔ کلام کا سامع آدمی۔ پر آدمی کی سماعت جاتی رہے تو جو سامعہ سے محروم ہیں انھیں سامعہ مل جاتا ہے کہ کلام سامعہ کے بغیر نہیں رہتا۔‘‘ پھر شیخ نے سید علی الجزائری کا قصہ بیان فرمایا۔ ملاحظہ ہو۔
’’سید علی الجزائری اپنے زمانہ کے نامی گرامی شعلہ نفس خطیب تھے۔ پر ایک زمانہ ایسا آیا کہ انہوں نے خطاب کرنا یکسر ترک کر دیا اور زبان کو تالا دے لیا۔ تب لوگوں میں بے چینی ہوئی۔ بے چینی بڑھی تو لوگ ان کی خدمت میں عرض پرداز ہوئے کہ خدارا خطاب فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا ہمارا منبر قبرستان میں رکھا جائے۔ اس نرالی ہدایت پر لوگ متعجب ہوئے۔ خیر۔۔۔ منبر قبرستان میں رکھ دیا گیا۔ وہ قبرستان میں گئے اور منبر پر چڑھ کر ایک بلیغ خطبہ دیا۔ اس کا عجب اثر ہوا کہ قبروں سے صدا بلند ہوئی۔ تب سید علی الجزائری نے آبادی کی طرف رخ کر کے گلو گیر آواز میں کہا۔ اے شہر تجھ پر خدا کی رحمت ہو۔ تیرے جیتے لوگ بہرے ہوگئے اور تیرے مردوں کو سماعت مل گئی۔ یہ فرما کر وہ اس قدر روئے کہ ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی اور اس کے بعد انہوں نے بستی سے کنارہ کیا اور قبرستان میں رہنے لگے، جہاں وہ مردوں کو خطبہ دیا کرتے تھے۔‘‘
یہ قصہ سن کر میں نے استفسار کیا، ’’یا شیخ زندوں کی سماعت کب ختم ہوتی ہے اور مردوں کو کب کان ملتے ہیں؟‘‘ اس پر آپ نے ٹھنڈا سانس بھرا اور فرمایا۔
’’یہ اسرار الٰہی ہیں۔ بندوں کو راز فاش کرنے کا اذن نہیں۔‘‘ پھر وہ پھڑ پھڑا کر اڑ ے اور املی کے درخت پہ جا بیٹھے۔ جاننا چاہیئے کہ شیخ عثمان کبوتر پرندوں کی طرح اڑا کرتے تھے اور اس گھر میں ایک املی کا پیڑ تھا کہ جاڑے، گرمی، برسات، شیخ اسی کے سائے میں محفلِ ذکر کرتے۔ چھت کے نیچے بیٹھنے سے حذر تھا۔ فرمایا کرتے تھے، ایک چھت کے نیچے دم گھٹا جاتا ہے، دوسری چھت برداشت کرنے کے لئے کہاں سے تاب لائیں۔۔۔؟ یہ سن کر سید رضی پر وجد طاری ہوا اور اس نے اپنا گھر منہدم کر دیا اور ٹاٹ پہن کر املی کے نیچے آپڑا۔ سید رضی، ابومسلم بغدادی، شیخ حمزہ، ابو جعفر شیرازی، حبیب بن یحییٰ ترمذی اور یہ بندہ حقیر، شیخ کے مریدان فقیر تھے۔ میرے سوا باقی پانچوں مردان باصفا تھے اور فقروقلندری ان کا مسلک تھا۔ شیخ حمزہ تجرد کی زندگی بسر کرتے تھے اور بے چھت کے مکان میں رہتے تھے۔ وہ شیخ کی تعلیم سے متاثر تھے اور کہتے تھے کہ چھت کے نیچے رہنا شرک ہے۔ چھت ایک ہے کہ وحدہ لا شریک نے پائی ہے۔ بندوں کو زیب نہیں کہ چھت کے مقابل چھت پاٹیں۔ ابو مسلم بغدادی صاحبِ مرتبہ باپ کا بیٹا تھا۔ پھر گھر چھوڑ کر باپ سے ترکِ تعلق کر کے یہاں آبیٹھا تھا اور کہا کرتا تھا کہ مرتبہ حقیقت کا حجاب ہے اور ابوجعفر شیرازی نے ایک روز ذکر میں اپنا لباس تار تار کر دیا اور چٹائی کو نذر آتش کر دیا۔ اس نے کہا کہ چٹائی مٹی اور مٹی کے درمیان فاصلہ ہے اور لباس مٹی کو مٹی پر فوقیت دیتا ہے اور اس روز سے وہ ننگ دھڑنگ خاک پر بسیرا کرتا تھا اور ہمارے شیخ کہ خاک ان کی مسند اور اینٹ ان کا تکیہ تھی۔ املی کے تنے کے سہارے بیٹھتے تھے اور اس عالم سفلی سے بلند ہوگئے تھے۔ ذکر کرتے کرتے اڑتے، کبھی دیوار پر کبھی املی پر جا بیٹھتے، کبھی اونچا اڑ جاتے اور فضا میں کھو جاتے۔ میں نے ایک روز استفسارکیا، ’’یا شیخ قوت پرواز آپ کو کیسے حاصل ہوئی۔۔۔؟‘‘
فرمایا، ’’عثمان نے طمع ِدنیا سے منہ موڑ لیا اور پستی سے اوپر اٹھ گیا۔‘‘
عرض کیا، ’’یا شیخ طمعِ دنیا کیا ہے؟‘‘
فرمایا، ’’دنیا تیرا نفس ہے۔‘‘
عرض کیا، ’’نفس کیا ہے؟‘‘
اس پر آپ نے یہ قصہ سنایا۔
’’شیخ ابوالعباس اشقانی ایک روز گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا ایک زرد کتا ان کے بستر میں سو رہا ہے انہوں نے قیاس کیا کہ شاید محلہ کا کوئی کتا اندر گھس آیا ہے۔ انہوں نے اسے نکالنے کا ارادہ کیا مگر وہ ان کے دامن میں گھس کر غائب ہو گیا۔‘‘
میں یہ سن کر عرض پرداز ہوا۔
’’یا شیخ زرد کتا کیا ہے؟‘‘
فرمایا، ’’زرد کتا تیرا نفس ہے۔‘‘
میں نے پوچھا، ’’یا شیخ نفس کیا ہے۔۔۔؟‘‘
فرمایا، ’’نفس طمع ِدنیا ہے۔‘‘
میں نے استفسار کیا، ’’یا شیخ طمعِ دنیا کیا ہے؟‘‘
فرمایا، ’’طمعِ دنیا پستی ہے۔‘‘
میں نے استفسار کیا، ’’یا شیخ پستی کیا ہے؟‘‘
فرمایا، ’’پستی علم کا فقدان ہے۔‘‘
میں ملتجی ہوا، ’’یا شیخ علم کا فقدان کیا ہے؟‘‘
فرمایا، ’’دانشمندوں کی بہتات۔‘‘
میں نے کہا، ’’یا شیخ تفسیر کی جائے۔‘‘ آپ نے تفسیر بصورت حکایت فرمائی کہ نقل کرتا ہوں۔
’’پرانے زمانے میں ایک بادشاہ بہت سخی مشہور تھا۔ ایک روز اس کے دربار میں ایک شخص جو کہ دانشمند جاناجاتا تھا، حاضر ہو کر عرض پرداز ہوا کہ جہاں پناہ دانشمندوں کی بھی قدر چاہیئے۔ بادشاہ نے اسے خلعت اور ساٹھ اشرفیاں دے کر بصد عزت رخصت کیا۔ اس خبر نے اشتہار پایا۔
ایک دوسرے شخص نے کہ وہ بھی اپنے آپ کو دانشمند جانتا تھا، دربار کا رخ کیا اور بامراد پھرا۔ پھر تیسرا شخص، کہ اپنے آپ کو اہل دانش کے زمرہ میں شمار کرتا تھا۔ دربار کی طرف چلا اور خلعت لے کر واپس آیا۔ پھر تو ایک تانتا بندھ گیا۔ جو اپنے آپ کو دانشمند گردانتے تھے۔ جوق در جوق دربار میں پہنچتے تھے اور انعام لے کر واپس آتے تھے۔
اس بادشاہ کا وزیر بہت عاقل تھا۔ دانشمندوں کی ریل پیل دیکھ کر اس نے ایک روز سرِ دربار ٹھنڈا سانس بھرا۔ بادشاہ نے اس پر نظر کی اور پوچھا تو نے ٹھنڈا سانس کس باعث بھرا؟ اس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا۔
جہاں پناہ! جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔
فرمایا، امان ملی۔ تو تب اس نے عر ض کیا، خداوند نِعمت تیری سلطنت دانشمندوں سے خالی ہے۔
بادشاہ نے کہا، کمال ِتعجب ہے، تو روزانہ دانشمندوں کو یہاں آتے اور انعام پاتے دیکھتا ہے اور پھر بھی ایسا کہتا ہے۔
عاقل وزیر تب یوں گویا ہوا کہ ’’اے آقائے ولئ نعمت، گدھوں اور دانشمندوں کی ایک مثال ہے کہ جہاں سب گدھے ہوجائیں وہاں کوئی گدھا نہیں ہوتا اور جہاں سب دانشمند بن جائیں وہاں کوئی دانشمند نہیں رہتا۔‘‘
یہ حکایت سننے کے بعد میں نے سوال کیا، ’’ایسا کب ہوتا ہے کہ سب دانشمند بن جائیں اور کوئی دانشمندنہ رہے۔۔۔؟‘‘
فرمایا، ’’جب عالم اپنا علم چھپائے۔۔۔‘‘
سوال کیا کہ ’’یا شیخ! عالم اپنا علم کب چھپاتا ہے؟‘‘
فرمایا، ’’جب جاہل، عالم اور عالم، جاہل قرار پائیں۔‘‘
سوال کیاکہ ’’جاہل، عالم کب قرار پاتے ہیں۔‘‘ جواب میں آپ نے ایک حکایت بیان فرمائی جو اس طرح ہے۔
’’ایک نامور عالم کو تنگ دستی نے بہت ستایا تو اس نے اپنے شہر سے دوسرے شہر ہجرت کی۔ اس دوسرے شہر میں ایک بزرگ رہتے تھے۔ انہوں نے اکابرین شہر کو خبر دی کہ فلاں دن، فلاں گھڑی ایک عالم اس شہر میں وارد ہو گا، اس کی تواضع کرنا اور خود سفر پر روانہ ہوگئے۔ اکابرین شہر مقررہ وقت پر بندرگاہ پہنچے۔ اسی وقت ایک جہاز آکر رکا۔ اس جہاز میں وہی عالم سفر کر رہا تھا۔ مگر ایک موچی بھی اس کا ہم سفر بن گیا تھا۔ وہ موچی حرام خور اور کاہل مزاج تھا۔ اس نے اس عالم کو سیدھا سادا دیکھ کر اپنا سامان ان پر لاد دیا اور چھڑی چھانٹ ہو گیا۔ جب جہاز سے دونوں اترے تو ایک ٹاٹ کے کرتے میں ملبوس کفش سازی کے سامان سے لدا پھندا تھا، اس پر کسی نے توجہ نہ دی اور دوسرے کو عزت و احترام سے اتارا اور ہمراہ لے گئے۔
وہ بزرگ جب سفر سے واپس آئے تو دیکھا کہ سڑک کے کنارے ایک شخص جس کے چہرے پر علم و دانش کا نور عیاں ہے، جوتیاں گانٹھ رہا ہے۔ آگے گئے تو دیکھا کہ اکابرین و عمائدین کی ایک مجلس آراستہ ہے اور ایک بے بصیرت مسائل بیان کر رہا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بزرگ سر سے پاؤں تک کانپ گئے اور بولے۔ اے شہر تیرا براہو، تو نے عالموں کو موچی اور موچیوں کو عالم بنا دیا۔ پھر خود کفش سازی کا سامان خریدا اور اس عالم سے قریب ایک کوچے میں جوتیاں گانٹھنے بیٹھ گئے۔‘‘
یہ حکایت میں نے سنی اور سوال کیا، ’’یا شیخ عالم کی پہچان کیا ہے؟‘‘
فرمایا، ’’اس میں طمع نہ ہو۔‘‘
عرض کیا، ’’طمع دنیا کب پیدا ہوتی ہے؟‘‘
فرمایا، ’’جب علم گھٹ جائے۔‘‘
عرض کیا، ’’علم کب گھٹتا ہے۔‘‘
فرمایا، ’’جب درویش سوال کرے، شاعر غرض رکھے، دیوانہ ہوش مند ہوجائے۔ عالم تاجر بن جائے، دانشمند منافع کمائے۔‘‘ عین اس وقت ایک شخص لحن میں یہ شعر پڑھتا ہوا گزرا۔
چناں قحط سالے شد اندر دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
آپ نے اسے پکار کر کہا، ’’اے فلانے یہ شعرپھر پڑھ۔‘‘ اس نے وہ شعر پھر پڑھا۔ پھر آپ پر مراقبے کا عالم طاری ہو گیااور جب آپ نے سر اٹھایا تو یہ حکایت بیان فرمائی۔
’’ایک شہر میں ایک منعم تھا۔ اس کی سخاوت کی دھوم تھی۔ اس شہر میں ایک درویش، ایک شاعر، ایک عالم اور ایک دانشمند رہتا تھا۔ درویش پر ایک ایسا وقت آیا کہ اس پر تین دن فاقے میں گزر گئے۔ تب وہ منعم کے پاس جاکر سوالی ہوا اور منعم نے اس کا دامن بھر دیا۔ عالم کی بیوی نے درویش کو خوشحال دیکھا تو شوہر کو طعنے دینے شروع کئے کہ تمہارے علم کی کیا قیمت ہے؟ تم سے تو وہ درویش اچھا ہے کہ منعم نے اس کا دامن دولت سے بھر دیا ہے۔ تب عالم نے منعم سے سوال کیا اور منعم نے اسے بھی بہت انعام و اکرام دیا۔ دانشمند ان دنوں بہت مقروض تھا۔ اس نے درویش اور عالم کو منعم کے دروازے سے کامران آتے دیکھا تو وہ وہاں جا پہنچا اور اپنی حاجت بیان کی۔ منعم نے اسے خلعت بخشی اور عزت سے رخصت کیا۔ شاعر نے یہ سنا تو زمانے کا بہت شاکی ہوا کہ سخن کی قدر دنیا سے اٹھ گئی اور اس نے منعم کے پاس جاکر اپنا کلام سنایا اور انعام کا طالب ہوا۔ منعم اس کا کلام سن کر خوش ہوا اور اس کا منہ موتیوں سے بھر دیا۔
درویش کو جو مل گیا تھا اسے اس نے عزیز جانا پھر فاقوں کی نوبت نہ آئے اور بخل کرنا شروع کر دیا۔ عالم نے اسی دولت سے کچھ پس انداز کر کے کچھ اونٹ اور تھوڑا سا اسباب خریدا اور سوداگروں کے ہمراہ اصفہان، کہ نصف جہان ہے، روانہ ہوا۔ اس سفر میں اسے منافع ہوا۔ تب اس نے مزید اونٹ اور مزید سامان خریدا اور خراسان کا سفر کیا۔۔۔ دانشمند نے قرض لینے اور ادا کرنے میں بڑا تجربہ حاصل کیا اور اپنا روپیہ سود پر چلانا شروع کر دیا۔
شاعر بہت کاہل نکلا۔ اس نے بس اتنا کیا کہ چند اشعار اور لکھ لئے۔ کچھ تہنیتی، کچھ شکایتی اور اسے مزید انعام مل گیا اور یوں درویش، عالم، دانشمند اور سوداگر۔۔۔ چاروں تونگر ہوئے۔ مگر اس کے بعد ایسا ہوا کہ درویش کی درویشانہ شان، عالم کا علم، دانشمند کی دانش اور شاعر کے کلام کی سرمستی جاتی رہی۔‘‘
شیخ نے یہ حکایت سنا کر توقف کیا۔ پھر فرمایا۔
’’حضرت شیخ سعدیؒ نے بھی صحیح فرمایا اور شیخ عثمان کبوتر بھی صحیح کہتا ہے کہ دمشق میں عشق فراموش دونوں صورت ہوا ہے۔‘‘ پھر وہ دیر تک اس شعر کو گنگناتے رہے اور اس روز اس کے بعد کوئی بات نہیں کی۔ معلوم ہوا کہ ہمارے شیخ کی طبیعت میں گداز تھا اور دل درد سے معمور۔ شعر سنتے تھے تو کیفیت پیدا ہوجاتی تھی۔ جب بہت متاثر ہوتے تو رقت فرماتے اور گریبان چاک کر ڈالتے تھے۔ آخری شعر جو آپ نے سماعت فرمایا اس کا ذکر رقم کرتا ہوں۔
اس روز رات سے آپ پر اضطراب کا عالم تھا۔ شب بیداری آپ کا شیوہ تھا۔ پر اس شب آپ نے گھڑی بھر بھی آرام نہیں فرمایا۔ میں نے گزارش کی تو فرمایا کہ ’’مسافروں کو نیند کہاں؟‘‘ اور پھر تسبیح و تہلیل میں مستغرق ہوگئے۔ ابھی تڑکا تھا اور آپ فجر کا فریضہ ادا کر چکے تھے کہ ایک فقیر پر سوز لحن میں یہ شعر پڑھتاہوا گزرا،
آگے کسو کے کیا کریں دستِ طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
آپ پر رقت طاری ہوگئی۔ فرمایا، ’’اے فلانے یہ شعر پھر پڑھ۔‘‘ اس نے وہ شعر پھر پڑھا۔ آپ نے گریبان چاک کر ڈالا۔ فرمایا، ’’اے فلانے یہ شعرپھر پڑھ۔‘‘ فقیر نے شعر پھر پڑھا۔ آپ کا جی بھر آیا۔ دکھ بھری آواز میں بولے، ’’افسوس ہے۔ ان ہاتھوں پر بوجہ اس کے جو انہوں نے مانگا۔ افسوس ہے ان ہاتھوں پر بوجہ اس کے جو انہوں نے پایا اور آپ نے اپنے ہاتھ پر نظر فرمائی اور گویا ہوئے کہ ’’اے میرے ہاتھ گواہ رہنا کہ شیخ عثمان کبوتر نے تمہیں رسوائی سے محفوظ رکھا۔‘‘ وہ فقیر کہ ہم نے اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا نہ سنا تھا۔ اندر آگیا اور شیخ سے مخاطب ہوا کہ ’’اے عثمان اب مرنا چاہئے کہ ہاتھ سوالی ہوگئے۔‘‘
آپ نے یہ سن کر گریہ کیا اور فرمایا، ’’میں مر گیا۔‘‘ اور پھر آپ نے اینٹ پر سر رکھا اور چادر تان کر ساکت ہوگئے۔
آپ نے اینٹ پر سر رکھ کر چادر تان لی اور آپ ساکت ہوگئے اور وہ فقیر جدھر سے آیا تھا ادھر چلا گیا اور میں بالیں پہ مشوش بیٹھا رہا۔ پھر مجھے لگا کہ چادر کے اندر کوئی شے پھڑکتی ہے۔
میں نے چادر کا کونہ اٹھایا۔ دفعتاً چادر کے اندر سے ایک سفید کبوتر پھڑک کر نکلا اور دم کے دم میں بلند ہو کر آسمان میں گم ہو گیا۔
میں نے چادر کا کونہ اٹھا کر شیخ کے چہرہ مبارک پر نظر ڈالی۔ اس چہرہ مبارک پر اس آن عجب تجلی تھی۔ لگتا تھا کہ آپ خواب فرما رہے ہیں۔ تب مجھ پر رقت طاری ہوئی اور میں نے گریہ زاری کی کہ میں غش کر گیا۔
شیخ کے وصال شریف کا مجھ پر عجب اثر ہوا کہ میں اپنے حجرے میں بند ہو کر بیٹھ گیا۔ دنیا سے جی پھر گیا اور ہم جنسوں سے مل بیٹھنے کی آرزو مٹ گئی۔ جانے میں کتنے دن حجرہ نشین رہا۔ ایک شب شیخ، اللہ ان کے قبر نور سے بھرے، خواب میں تشریف لائے۔ آپ نے اوپر نظر فرمائی اور میں نے دیکھا کہ حجرے کی چھت کھل گئی ہے اور آسمان دکھائی دے رہا ہے۔ اس خواب کو میں نے ہدایت جانا اور دوسرے دن حجرے سے باہرنکل آیا۔
جانے میں کتنے دن حجرہ نشین رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ دنیا ہی بدل گئی ہے۔ بازار سے گزرا تو وہ رونق دیکھی کہ پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ ہزاری بزاری دکانیں صاف شفاف، صراف کے برابر صراف۔ سینکڑوں کا سودا دم کے دم میں ہوتا ہے۔ سوداگروں کی خدائی ہے۔ دولت کی گنگا بہتی ہے۔ میں نے آنکھیں مل کر دیکھا کہ یا رب یہ عالم بیداری ہے یا خواب دیکھتا ہوں؟ کس شہر میں آگیا ہوں؟ تب میں نے سوچا کہ پیر بھائیوں سے ملنا چاہیئے۔ حقیقت حال معلوم کرنا چاہیئے۔
میں نے پہلے خانہ برباد سید رضی کا پتہ لیا۔ ڈھونڈتا ڈھونڈتا شہر کے ایک خوشبو کوچے میں پہنچا اور ایک قصرکھڑادیکھا۔ لوگوں نے کہا کہ سید رضی کا دولت کدہ یہی ہے۔ میں نے اس قصر کو دیکھا اور چلا کر کہا کہ خدا کی قسم، اے لوگو! تم نے مجھ سے جھوٹ کہا۔ سید رضی گھر نہیں بنا سکتا اور میں آگے بڑھ گیا۔
پھر میں نے ابومسلم بغدادی کا پتہ لیا۔ ایک شخص نے مجھے قاضی شہر کی محل سرائے کے سامنے جا کھڑا کیااور کہا کہ ابومسلم بغدادی کا مسکن یہی ہے۔ میں نے اس محل سرائے کو دیکھا۔ اپنے تئیں حیران ہوا کہ ابومسلم بغدادی نے مرتبہ لے لیا۔
میں آگے بڑھ گیا اور شیخ حمزہ کا پتہ لیا۔ شیخ حمزہ کا پتہ لیتے لیتے میں نے خود کو پھر ایک حویلی کے روبرو کھڑا پایا اور میں نے کہا کہ خدا کی قسم شیخ حمزہ نے چھت پاٹ لی۔ وہ مجھ سے دور ہو گیا۔
میں آگے بڑھا اور ابوجعفر شیرازی کا پتہ پوچھا۔ تب ایک شخص نے مجھے ایک جوہری کی دکان پر لے جا کر کھڑا کر دیا، جہاں قالین پر گاؤ تکیہ سے کمر لگا کر ریشمی پوشاک میں ملبوس ابوجعفر شیرازی بیٹھا تھااور ایک طفل خوب رو اسے پنکھا کرتا تھا۔
تب میں نے چلا کر کہا، ’’اے ابوجعفر مٹی مٹی سے ممتاز ہوگئی۔‘‘ اورمیں جواب کاانتظار کئے بغیر مڑا اور وہا ں سےآگیا۔
راستہ میں میں نے دیکھا کہ سید رضی ریشمی پوشاک میں ملبوس، غلامو ں کے جلو میں بصد تمکنت سامنے سے چلا آتا ہے۔ دامن صبر میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ میں نے بڑھ کر اس کی عبا کے بھاری دامن کو اٹھایا اور کہا کہ اے بزرگ خاندان کی یادگار، اے سیدالسادات تونے ٹاٹ چھوڑ کر ریشم اوڑھ لیا۔ اس پر وہ محجوب ہوااور میں وہاں سے روتا ہوا اپنے حجرے کی سمت چلا۔ میں حجرہ میں آکر تا دیر رویا اور کہا کہ خدا کی قسم میں اکیلا رہ گیا ہوں۔
دوسرے دن میں نے شیخ کے مزار شریف پر حاضری دی۔ وہاں میں نے حبیب بن یحییٰ ترمذی کو گلیم پوش اور بوریا نشیں پایا۔ میں اس کے پاس بیٹھا اور کہاکہ اے حبیب۔۔۔ تو نے دیکھا کہ دنیا کس طرح بدلی ہے اور رفقاءنے شیخ کی تعلیمات کو کیا فراموش کیا ہے اور کس طرح اپنے مسلک سے پھرے ہیں۔
وہ یہ سن کر افسوس کے آثار چہرے پر لایا اور آہ سرد بھر کر بولا کہ بے شک دنیا بدل گئی اور رفقاءنے شیخ کی تعلیمات کو فراموش کر دیا اور اپنے مسلک سے پھر گئے اور میں نے کہا کہ ہلاکت ہو بندۂ دینار کو اور ہلاکت ہو بندۂ درہم کو۔
اسی روز شام کو ابومسلم بغدادی کا قاصد مجھے بلانے آیا کہ چل تیرا پرانا رفیق بلاتا ہے۔ میں وہاں گیا تو میں نے حبیب بن یحییٰ ترمذی کو اس کی صحبت میں بیٹھا پایا۔ ابومسلم بغدادی نے پیشانی پہ شکن ڈال کے کہا کہ اے ابوقاسم خضری۔۔۔ تو ہمیں شیخ کی تعلیمات سے منحرف بتاتا ہے اور ہلاکت، ہلاکت کے نعرے لگاتا ہے۔ اس پر میں نے حبیب بن یحییٰ پر غصہ کی نظر ڈالی اور پھر ابومسلم بغدادی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا اے ابومسلم ! کیا تو مجھے وہ کہنے سے منع کرے گا جو رسول نے کہا اور جسے شیخ نے ورد کیااور پھر میں نے پوری حدیث پڑھی۔
’’ہلاکت ہو بندۂ دینار کو اور ہلاکت ہو بندۂ درہم کو اور ہلاکت ہو بندۂگلیمِ سیاہ کو اور پھٹے لباس کے بندے کو۔‘‘ اسی اثناءمیں دسترخوان بچھا اور اس پر انواع والوان کے کھانے چنے گئے۔ ابومسلم بغدادی نے کہا، ’’اے رفیق تناول کر۔‘‘ میں نے ٹھنڈا پانی پینے پر قناعت کی اور کہا، ’’اے ابومسلم بغدادی، دنیا دن ہے اور ہم اس میں روزہ دار ہیں۔‘‘
ابومسلم بغدادی یہ سن کر رویا اور بولا سچ کہا تو نے اے قاسم اور پھر کھانا تناول کیااور حبیب بن یحییٰ ترمذی بھی یہ سن کر رویا اور حبیب بن یحییٰ ترمذی نے بھی پیٹ بھر کر کھایا۔
جب دسترخوان تہہ ہوا تو کنیزوں کے جلو میں ایک رقاصہ آئی۔ میں اسے دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ابومسلم بغدادی نے اصرار کیا کہ اے رفیق ٹھہر۔ میں نے کہا اے ابومسلم بغدادی۔۔۔ دنیا دن ہے اور ہم روزہ دار ہیں۔
میں وہا ں سے چلا آیا اور اس چھنال کے پیروں کی دھمک اور گھنگروؤں کی جھنکار نے میرا تعاقب کیا۔ پھر میں نے کانوں میں انگلیاں لے لیں اور بڑھے چلا گیا۔
جب میں نے حجرے میں قدم رکھا تو دفعتاً ایک لجلجی شے تڑپ کر میرے حلق سے نکلی اور منہ سے باہر نکل آئی۔ میں نے چراغ روشن کیا اور حجرے کا کونہ دیکھا مگر کچھ نہ دیکھائی دیا اور میں نے کہا۔ بے شک یہ میرا وہم تھااور میں چٹائی پر پہنچ کرسورہا۔
دوسرے روز اٹھ کر میں پہلے حبیب بن یحییٰ ترمذی کی طرف گیا اور میں نے دیکھا کہ اس کے بوریا پر ایک زرد کتا سو رہا ہے۔ میں نے کہا، ’’اے یحییٰ کے بیٹے۔۔۔ تونے اپنے تئیں نفس کے حوالے کر دیا اور منافق ہو گیا۔‘‘ اس پر وہ رویا اور کہا کہ ’’خدا کی قسم میں تیرے ساتھیوں میں سے ہوں اور رفقاءکے پاس مسلک شیخ یاد دلانے جاتا ہوں۔‘‘
تب میں نے شیخ کی قبر پرکہ خدا اس کو نور سے بھر دے، عقیدت مندوں کو زرو سیم چڑھاتے دیکھا، اور میں نے کہا، ’’اے یحییٰ کے بیٹے۔۔۔ تیرا برا ہو تو نے شیخ کو وصال کے بعد اہل زر بنا دیا۔ اس زر و سیم کا تو کیا کرتاہے۔۔۔؟‘‘
حبیب بن ترمذی پھر رویا اور کہا کہ ’’خدا کی قسم یہ زر و سیم سید رضی، ابوجعفر شیرازی، ابو مسلم بغدادی، شیخ حمزہ اور میرے درمیان مساوی تقسیم ہوتا ہے اور اپنا حصہ مساکین میں تقسیم کر دیتا ہوں اور بوریا کو اپنی تقدیر جانتا ہوں۔‘‘
میں وہاں سے اُٹھ کے آگے چلا۔ میں نے سید رضی کے قصر کے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ اس کے پھاٹک میں ایک بڑا سا زرد کتا کھڑا ہے۔ اور میں نے زرد کتے کو شیخ حمزہ کی حویلی کے سامنے کھڑا پایا۔ اورابوجعفر شیرازی کی مسند پر محو ِخواب پایا۔ اور ابو مسلم بغدادی کے محل میں دم اٹھائے کھڑے دیکھا۔
میں نے کہا، ’’شیخ تیرے مرید زرد کتے کی پناہ میں چلے گئے۔‘‘
میں اس رات پھر ابومسلم بغدادی کی محل سرامیں گیا اور میں نے اپنے تئیں سوال کیا، ’’اے ابوقاسم۔۔۔ تو یہاں کیوں آیا ہے؟‘‘ ابوقاسم نے مجھ سے کہا، ’’ابو مسلم بغدادی کو مسلک شیخ کی دعوت دینے کے لئے۔‘‘
اس رات بھی میں نے حبیب بن یحییٰ ترمذی کو ابومسلم بغدادی کے دسترخوان پر موجود پایا۔ ابومسلم بغدادی نے مجھ سے کہا، ’’اے رفیق۔۔۔ کھانا تناول کر۔‘‘ میں نے ٹھنڈے پانی پر قناعت کی اور کہا کہ’’ اے ابومسلم دنیا دن ہے اور ہم اس میں روزہ دار ہیں۔‘‘ اس پر ابومسلم بغدادی رویااور بولا، ’’سچ کہا تو نے اے رفیق۔‘‘ اور پھر کھانا تناول کیا اور حبیب بن یحییٰ ترمذی بھی رویا اور حبیب بن یحییٰ ترمذی نے بھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ پھر جب زن رقاصہ آئی تب بھی میں نے یہی کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
اس زن رقاصہ کے پیروں کی تھاپ اور گھنگروؤں کی جھنکار نے کچھ دور تک میرا تعاقب کیا مگر پھر میں نے کانوں میں انگلیاں دے لیں اور آگے بڑھ گیا۔
تیسرے دن میں نے پھر شہر کا گشت کیااور جو منظر پچھلے دو دن سے دیکھتا آرہا تھا اس میں سرمو فرق نہ دیکھا اور شب کو میں نے پھر اپنے تئیں ابومسلم بغدادی کے در پر کھڑا پایا۔
مجھے معلوم تھا کہ میں ابومسلم بغدادی کو شیخ کی تعلیمات یاد دلانے آیا ہوں۔ سو میں نے اپنے تئیں کوئی سوال نہیں کیا اور اندر چلا گیا۔
آج پھر حبیب بن یحییٰ ترمذی دسترخوان پر موجود تھا۔ ابومسلم بغدادی نے کہا، ’’اے رفیق کھانا تناول کر۔‘‘ اور مجھے آج تیسرا فاقہ تھا اور دسترخوان پر منجملہ اور غذاؤں کے مزعفر بھی تھا جو ایک زمانہ میں مجھے بہت مرغوب تھا۔ میں نے ایک نوالہ مزعفر کا لے کر ہاتھ کھینچ لیااور ٹھنڈا پانی پیا اور کہا، ’’دنیا دن ہے اور ہم اس میں روزہ دار ہیں۔‘‘
آج یہ فقرہ سن کر ابومسلم بغدادی نے رونے کے بجائے اطمینان کا سانس لیا اور کہا، ’’اے رفیق تو نے سچ کہا۔‘‘
پھر زن رقاصہ آئی اور میں نے اسے ایک نظر دیکھا۔ چہرہ لال بھبھوکا آنکھیں مے کی پیالیاں، کچیں سخت اور رانیں بھری ہوئیں۔ پیٹ صندل کی تختی، ناف گول پیالہ ایسی اور لباس اس نے ایسا باریک پہنا تھا کہ صندل کی تختی اور گول پیالہ اور کولہے سیمیں ساقیں سب نمایاں تھیں۔ مجھے لگا میں نے مہکتے مزعفر کا ایک اور نوالہ لے لیا ہے اور میرے پوروں میں کن من ہونے لگی اور میرے ہاتھ میرے اختیار سے باہر ہونے لگے۔
تب مجھے ہاتھوں کے بارے میں شیخ کا ارشاد یاد آیا۔ میں گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا کہ آج ابومسلم بغدادی نے کھانے پر اصرار نہ کیا اور آج پیروں کی تھاپ اور گھنگروؤں کی جھنکار نے ایک شیریں کیفیت کے ساتھ میرا دور تک تعاقب کیا۔
جب میں گھر پہنچا اور حجرے میں قدم رکھا تو دیکھتا ہوں کہ میرے بوریے پر ایک زرد کتا سو رہا ہے۔ میں تو اسے دیکھ کر نقش کالحجر بن گیا اور مجھے ٹھنڈا ٹھنڈا پسینہ آنے لگا۔
میں نے اسے مارا پر وہ بھاگنے کی بجائے میرے دامن میں آکر گم ہو گیا۔ تب مجھے اندیشوں اور وسوسوں نے گھیرا۔ میری آنکھوں کی نیند غائب اور دل کا چین رخصت ہو گیا اور میں نے زاری کی، ’’اے میرے معبود مجھ پر رحم کر کہ میرا دل آلائشوں میں مبتلا ہوا اور زرد کتا میرے اندر سما گیا۔‘‘ میں نے زاری کی اور میں نے دعا کی۔ پر میرے جی کو قرارنہ آیا۔
یکبارگی مجھے ابوعلی رودباری یاد آئے کہ کچھ مدت وسوسہ کی بیماری میں مبتلا رہے تھے۔ ایک دن وہ صبح نور کے تڑکے دریا پر گئے اور سورج نکلنے تک وہاں رہے۔ اس عرصہ میں ان کا دل اندوہ گیں ہوا۔ انہوں نے عرض کیا، ’’ اے بار خدایا آرام دے۔‘‘ دریا میں سے ہاتف نے آواز دی کہ ’’آرام علم میں ہے۔‘‘
میں نے خود سے کہا اے ابوقاسم خضری یہاں سے چل کہ یہاں تیرے باہر اور اندر زرد کتے پیدا ہوگئے اور تیرا آرام چھن گیا۔
میں نے اپنے حجرے پر آخری نظر ڈالی اور منطق اور فقہ کی ان نادر کتب کو جو برسوں کی ریاضت سے جمع کی تھیں، وہیں چھوڑ، ملفوظات شیخ بغل میں دبا، شہر سےنکل گیا۔
شہر سے نکلتے نکلتے زمین نے میرے پیر پکڑ لئے اور مجھے شیخ کی خوشبو مجلسیں بے طرح یاد آگئیں اور اس زمین نے، جسے میں نے پاک اور مقدس جانا تھا، مجھے بہت پکڑا اور ان گلیوں نے جنہوں نے شیخ کے قدموں کو بوسہ دیا تھا، مجھے بہت پکارا اور میں ان کی پکار سن کررویا اور بکا کی کہ ’’یا شیخ۔۔۔؟ تیرا شہر چھتوں میں چھپ گیا اور آسمان دور ہو گیا اور تیرے رفیقان گریز پا تجھ سے پھر گئے۔ انہوں نے لاشریک چھت کے مقابل اپنی اپنی چھتیں پاٹ لیں اور مٹی اور مٹی میں فصل پیدا کر دیا اور زرد کتے نے عزت پائی اور اشرف الخلق مٹی بن گیا اور مجھ پر تیرا شہر تنگ ہو گیا۔ میں نے تیرا شہر چھوڑ دیا۔‘‘
یہ کہہ کر میں نے دل مضبوط کیا اور چل پڑا۔
میں چلتے چلتے دور نکل گیا۔ یہاں تک کہ میرا دم پھول گیا اور میرے پیروں میں چھالے پڑ گے، مگر پھر ایسا ہوا کہ اچانک میرے حلق سے کوئی چیز زور کر کے باہر آگئی اور پیروں پر گر گئی۔
میں نے اپنے پیروں پرنظر کی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک لومڑی کا بچہ میرے قدموں پر لوٹتا ہے۔ تب میں نے اسے پیروں سے کھوند کر کچل دینا چاہا لیکن لومڑی کا بچہ پھول کر موٹا ہو گیا۔ تب میں نے اسے پھر قدموں سے کھوندااور وہ موٹا ہو گیا اور موٹا ہوتے ہوتے زرد کتا بن گیا۔ تب میں نے پوری قوت سے زرد کتے کو ٹھوکر ماری اور اسے قدمو ں سے خوب روندا اور روندتا ہوا آگے نکل گیا اور میں نے کہا کہ ’’خدا کی قسم میں نے اپنے زرد کتے کو روند ڈالا۔‘‘ اور میں چلتا ہی گیا حتیٰ کہ میرے چھالے چھل کر پھوڑا بن گئے اور میرے پیروں کی انگلیاں پھٹ گئیں اور تلوے لہولہان ہوگئے، مگر پھر ایسا ہوا کہ زرد کتا، جسے میں روند کر آیا تھا۔ جانے کدھر سے پھر نکل آیا اور میرا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا۔
میں اس سے لڑا اور اسے راہ سے بہت ہٹایا۔ پر وہ راہ سے سر مونہ ہٹا، حتیٰ کہ میں تھک گیا اور میں تھک کر گھٹ گیا اور وہ زرد کتا پھول کر بڑا ہو گیا۔
تب میں نے بارگاہ رب العزت میں فریاد کی کہ ’’اے پالنے والے، آدمی گھٹ گیا اور زرد کتا بڑا ہو گیا اور میں نے اسے قدموں میں روندنا چاہاپر وہ میرے دامن میں لپٹ کر غائب ہو گیا۔‘‘
میں نے اپنی پھٹی ہوئی انگلیوں اور لہولہان تلوؤں اور پھوڑا چھالوں پر نظر کی، اپنے حال پر رویا اور کہا کہ کاش میں نے شیخ کے شہر سے ہجرت نہ کی ہوتی۔
تب میرا دھیان اور طرف گیا۔ میں نے مہکتے مزعفر کا خیال کیا اور صندل کی تختی اور گول پیالہ والی کا تصور باندھا اور شیخ کے مزار پر زر و سیم کی بارش پر قیاس دوڑایا۔
میں نے سوچا کہ بے شک شیخ کے مرید شیخ کی تعلیمات سے منحرف ہو گئے اور حبیب بن یحییٰ ترمذی نے منافقت کی راہ اختیار کی۔ اور بے شک شیخ کے ملفوظات میرے تصرف میں ہیں، مناسب ہو کہ میں شہرواپس چل کر ملفوظات پر نظر ثانی کروں اور انہیں مرغوبِ خلائق اور پسند خاطرِ احباب بنا کر ان کی اشاعت کی تدبیر کروں اور شیخ کا تذکرہ اس طرح لکھوں کہ رفقاءکو پسند آئے اور طبیعت پر کسی کی میل نہ آئے۔ پر مجھے اس آن اچانک شیخ کا ارشاد یاد آیا کہ ہاتھ آدمی کے دشمن ہیں۔
میں نے سوچا کہ میرے ہاتھ مجھ سے دشمنی کریں گے اور اسی رات جب میں نے سوچا کہ میرے ہاتھ مجھ سے دشمنی کریں گے، جب میں نے سونے کی نیت باندھی تو میں نے دیکھا کہ زرد کتا پھر نمودار ہوگیا ہے اور میری چٹائی پر سو رہا ہے۔ تب میں نے زرد کتے کو مارا اور اسے اپنی چٹائی سے اٹھانے کے لئے اس سے نبرد آزما ہوا۔
میں اور زرد کتا رات بھر لڑتے رہے۔ کبھی میں اسے قدموں میں روند ڈالتا اور وہ چھوٹا اور میں بڑا ہو جاتا، کبھی وہ اٹھ کھڑا ہوتا اور میں چھوٹا اور وہ بڑا ہو جاتا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور اس کا زور گھٹنے لگا اور وہ میرے دامن میں چھپ کر غائب ہو گیا۔
تب سے اب تک میری اور زرد کتے کی لڑائی چلی آتی ہے۔ اس مجاہدہ کی فرعین بہت اور باریکیاں بے شمار ہیں، جنہیں میں نظر انداز کرتا ہوں کہ رسالہ لمبا نہ ہوجائے۔ کبھی زرد کتا مجھ پر اور کبھی میں زرد کتے پر غالب آجاتا ہوں۔ کبھی میں بڑا ہوتا ہوں اور وہ میرے قدموں میں پس کر لومڑی کا بچہ ایسا رہ جاتا ہے۔ کبھی وہ بڑا ہوتا چلا جاتا ہے اور میں گھٹے چلا جاتا ہوں اور مجھے مہکتے ہوئے مزعفر اور صندل کی تختی اور گول پیالے کا خیال ستانے لگتا ہے۔ زرد کتا کہتا ہے کہ جب سب زرد کتے بن جائیں تو آدمی بنے رہنا کتے سے بد تر ہوتا ہے اور میں فریاد کرتا ہوں کہ ’’اے پالنے والے۔۔۔ میں کب تک درختوں کے سائے میں بنی آدم سے دور دور پھروں اور کچے پکے پھلوں اور موٹے ٹاٹ کی گدڑی پر گزارہ کروں۔۔۔‘‘
میرے قدم شہر کی طرف اٹھنے لگتے ہیں۔ پر مجھے شیخ کا ارشاد یاد آجاتا ہے کہ واپس ہوتے ہوئے قدم سالک کے دشمن ہیں اور میں پھر اپنے قدموں کو سزا دیتا ہوں اور شہر کی طرف پشت کر کے اتنا چلتا ہوں کہ میرے تلوے لہولہان ہوجاتے ہیں اور پھر ہاتھوں کو سزا دیتا ہوں کہ راستے کے پتھر کنکر چنتا ہوں۔
اے رب العزت۔۔۔ میں نے اپنے دشمنوں کو اتنی سزا دی کہ میرے تلوے لہولہان ہوگئے اور میرے پوروئے کنکر چنتے چنتے پھوڑا بن گئے اور میری چمڑی دھوپ میں کالی پڑ گئی اور میری ہڈیاں پگھلنےلگیں۔
اے رب العزت۔۔۔ میری نیندیں جل گئیں اور میرے دن ملیا میٹ ہو گئے۔ دنیا میرے لئے تپتا دن بن گئی اور میں روزہ دار ٹھہرا اور روزہ دن دن لمبا ہوتا جاتا ہے۔ اس روزہ سے میں لاغر ہو گیا مگر زرد کتا توانا ہے اور روز رات کو میری چٹائی پر آرام کرتا ہے۔ میرا آرام رخصت ہو گیا اور میری چٹائی غیر کے قبضہ میں چلی گئی اور زرد کتا بڑا اور آدمی حقیر ہو گیا۔
اس وقت میں نے ابوعلی رودباری کو پھر یاد کیا اور دریا کے کنارے دو زانوں بیٹھ گیا۔ میرا دل اندر سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے بکا کی کہ ’’بارالہا۔۔۔ آرام دے، آرام دے، آرام دے۔‘‘
میں نے رات بھر بکا کی اور دریا کی طرف دیکھا کیااور رات بھر غبار آلود تیز ہوا زرد رو پیڑوں کے درمیان چلا کی اور رات بھر درختوں سےپتے گرا کئے۔
میں نے دریا سے نظر ہٹا کر اپنے گرد میں اٹے جسم کو دیکھا، اپنے ارد گرد زرد پتوں کی ڈھیریاں دیکھیں۔ میں نے کہا کہ یہ میری خواہشیں اور ارمان ہیں۔ خدا کی قسم میں آلائشوں سے پاک ہوا اور پت جھڑ کا برہنہ درخت بن گیا۔
پر جب تڑکا ہوا تو مجھے اپنے پورؤں میں میٹھا میٹھا رس گھلتا محسوس ہوا، جیسے وہ صندل کی تختی سے چھو گئے ہیں۔ جیسے انہوں نے گول سنہری پیالے اور نرم نرم چاند سی ساقوں کو مس کیا ہے، جیسے انگلیاں سونے چاندی میں کھیل رہی ہیں اور ان کے درمیان درہم و دینار کھنک رہے ہیں۔
میں نے آنکھیں کھولیں اور دھندلے میں یہ دہشت بھرا منظر دیکھا کہ زرد کتا دم اٹھائے اس طور کھڑا ہے کہ اس کی پچھلی ٹانگیں شہر میں ہیں اور اگلی ٹانگیں میری چٹائی پر اور اس کے گیلے نتھنے میرے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو چھو رہے ہیں۔ میں نے اپنے دائیں ہاتھ کو یوں دیکھا جیسے وہ ابوسعید ؒ کے ہاتھوں کی مثال کٹا ہوا مجھ سے الگ پڑا ہے اور میں نے اسے خطاب کر کے کہا، ’’اے میرے ہاتھ، اے میرے رفیق۔ تو دشمن سے مل گیا۔۔۔ میں نے آنکھیں بند کر لیں اور گڑگڑا کر ایک بار پھر دعا کی۔ ’’بار الہا آرام دے، آرام دے، آرام دے۔‘‘
کوئی تبصرے نہیں: