میلہ گھومنی — علی عباس حسینی
کانوں کی سنی نہیں کہتا آنکھوں کی دیکھی کہتا ہوں۔ کسی بدیسی واقعے کا بیان نہیں اپنے ہی دیس کی داستان ہے۔ گاؤں گھر کی بات ہے۔ جھوٹ سچ کا الزام جس کے سر پر چاہے رکھیے۔ مجھے کہانی کہنا ہے اور آپ کو سننا۔
دو بھائی تھے چنو اور منو نام۔ کہلاتے تھے پٹھان۔ مگر نا نہال جولاہے ٹولی میں تھا اور دادیہال سید واڑے میں۔ ماں پرجا کی طرح میر صاحب کے ہاں کام کرنے آئی تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی صاحب نے اس سے کچھ اور کام بھی لئے اور نتیجے میں ہاتھ آئے چنو منو۔ وہ تو یاد گاریں چھوڑ کر جنت سدھارے اور خمیازہ بھگتا بڑے میر صاحب نے۔ انھوں نے بی جولاہن کو ایک کچا مکان عطا کیا اور چنو منو کی پرورش کے لئے کچھ روپے دیے۔ وہ دونوں پلے اور بڑے اچھے ہاتھ پاؤں نکالے۔ چنو ذرا سنجیدہ تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی میر صاحب کے کارندوں میں ملازم ہوا اور ہم سن میر صاحبان کا مصاحب بنا۔ منولاابالی تھا۔ اہیروں کے ساتھ اکھاڑوں میں کشتی لڑا کرتا اور نام کے لئے کھیتی باڑی کرنے لگا۔
لیکن دونوں جوان ہوتے ہی اعصاب کا شکار ہوئے۔ خون کی گرمیاں وراثت اور ماحول سے ملی تھیں۔ دونوں جنسیات کے میدان میں بڑے بڑے معرکے سر کرنے لگے۔ شدہ شدہ میر صاحب کے کانوں تک ان کے کارناموں کی داستانیں پہنچیں۔ انھوں نے چنو کو اسی طرح کی ایک لڑکی سے بیاہ کر کے باندھ دیا۔ مگر منو چھٹے سانڈ کی طرح مختلف کھیت چرتا رہا۔ اس کی ہنگامہ آرائیوں کا غلغلہ دور تک پہنچا۔ بالآخر میر صاحب کے پاس اہیر ٹولی، چمارٹولی، جولاہے ٹولی اور ہر سمت اور ہر محلے سے فریاد کی صدائیں پہنچنے لگیں۔ انھوں نے عاجز آ کر ایک دن اس کی ماں کو بلوا بھیجا۔ جب وہ گھونگھٹ لگائے لجاتی، سہمتی ، ان کی بیوی کے پلنگ کے پاس زمین پر آکر بیٹھی تو میر صاحب نے منو کی شکایت کی اور کہا، ’’ اس لڑکے کو روکو۔ ورنہ ہاتھ پاؤں ٹوٹیں گے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا، ’’تو میں کیا کر سکتی ہوں۔ آپ ہی چنو کی طرح اسے بھی کسی ناند سے لگا دیجئے۔‘‘
میر صاحب بڑی سوچ میں پڑ گئے۔ یہ نئی قسم کا قلمی پودا کسی مناسب ہی تھالے میں لگایا جا سکتا تھا۔ ہر زمین تو اس کو قبول نہیں کر سکتی اور وہاں اس کے کارناموں کی شہرت نے ہر جگہ شوریت پیدا کر دی تھی۔ وہ زنان خانے سے باہر سوچتے ہوئے باہر چلے آئے اور برابر سوچتے ہی رہے۔ اتفاق سے انھیں دنوں دوری کے میلے سے واپس ہونے والوں کے ساتھ ایک نا معلوم قبیلے کی عورت گاؤں میں آئی۔ اور ایک دن میر صاحب کے ہاں نوکری کی تلاش کے بہانے پہنچی۔ سیدانی بی نے صورت شکل دیکھتے ہی سمجھ لیا کہ وہ ان کے گھر میں ملازمہ کی حیثیت سے رہنے والی عورت نہیں۔ پوچھنے گچھنے سے یہ بھی معلوم کر لیا کہ وہ گاؤں کے درزی کے ساتھ میلے سے آئی ہے اور اس کے ہاں ٹکی بھی ہے۔ سیدانی بی اس درزی کی حرکات سن چکی تھیں۔ جب سے اس کی درزن سدھاری تھی اس نے میلے سے نئی نئی عورتوں کا لانا اور گاؤں کی نسوانی آبادی میں اضافہ کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا تھا۔ پھر بھی سیدانی بی کے سادہ مزاج نے صاف صاف انکار کی اجازت نہ دی۔ انھوں نے کہا، ’’اچھا گھر میں رہو اور کام کرو، دو چار دن میں تمہارے لئے کوئی بند و بست کروں گی۔‘‘
ادھر مردانے میں میر صاحب کو ان کے ہم جلیسوں نے نو وارد کی خبر دی۔ ایک صاحب نے جو ذرا ظریف طبیعت بھی تھے، اس کی تعریف یوں بیان کی، ’’راویان صادق کا قول ہے کہ اصل اس کی بنجارن ہے۔ وہ بنجارن سے ٹھکرائن بنی، ٹھکرائن سے پٹھاننی، پٹھاننی سے کبڑن، کبڑن سے درزن اور اب درزن سے سیدانی بننے کے ارادے رکھتی ہے۔‘‘ ایک صاحب نے پوچھا، ’’اور اس کے بعد؟‘‘ وہ دونوں ہاتھ پھیلا کر بولے، ’’خدا جانے! شاید اس کے بعد فرشتوں سے آنکھ لڑائے گی۔‘‘
میر صاحب جب گھر آئے تو بیوی نے ان محترمہ کی خبر دی۔ بہت جزبز ہوئے۔ اس سیرت کی عورت اور شرفاء کے گھر میں! وہ نیک قدم خود بھی کسی کام کے سلسلے میں سامنے آئیں۔ میر صاحب بل کھانے لگے۔ نوکری کرنے آئی تھی۔ اگر انکار کرتے اور گھر سے نکال دیتے ہیں تو اسے معصیت کی طرف ڈھکیل دیتے ہیں۔ پیٹ کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتے ہیں۔ اگر اپنے ہاں بار دیتے ہیں تو گھر میں ماشاء اللہ کئی چھوٹے میر صاحبان ہیں، کہیں چنو منو کی نسل اور نہ بڑھے۔ ان ناموں کی یاد سے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا اور وہ مسکرا کر بیوی سے سر گوشی کرنے لگے۔ پھر منو کی ماں کو بلوا کر انھوں نے اسے نادر شاہی حکم دیا، ’’ہم نے منو کی نسبت طے کر دی، اس سے کہہ دو کل اس کا عقد ہو گا۔‘‘
بیچاری جولاہن کو چوں و چرا کی مجال نہ تھی۔ وہ ’بہت اچھا‘ کہہ کے ہونے والی بہو پر ایک نظر ڈالنے چلی گئی۔ وہ بھی رشتے سے بالکل بے خبر تھی، اس لئے بہت کھل کے باتیں ہوئیں۔ جولاہن اس کے طور طریقے سے زیادہ مطمئن تو نہ ہوئی لیکن جانتی تھی میر صاحب کی خوشی اسی میں ہے، اختلاف کا یارا نہیں۔ رہنے کا ٹھکانا انھیں کا دیا ہوا ہے، چنو کی نوکری انھیں کی عطا کردہ ہے اور منو کی جوت میں کھیت بھی خود انھیں کے ہیں۔ پھر لالچ بھی تھا۔ اپنی خوشی سے شادی کریں گے تو سارا خرچ بھی خود ہی اٹھائیں گے۔ غرض گھر آئی اور رات ہی میں منو کو میر صاحب کا فیصلہ سنا دیا۔ وہ اسے درزی ہی کے گھر بھاوج کی حیثیت سے دیکھ کر پسند کر چکا تھا۔ جلدی سے راضی ہو گیا۔
دوسرے دن مولوی صاحب بلائے گئے۔ منو کو نئی دھوتی، نیا کرتا میر صاحب نے پہنوایا۔ دلہن کو شاہانہ جوڑا اور چند چاندی کے زیورات ان کی بیوی نے پہنائے اور عقد ہو گیا۔ پھر میر صاحب اور ان کی بیوی نے رونمائی کے نام سے دس روپے منو کی ماں کو دئے اور دلہن کو اس کے ہاں رخصت کر دیا۔
دن بیتتے گئے، دن بیتتے گئے۔ مہینے ہوئے، ایک سال ہونے کو آیا مگر منو اور اس کی دلہن کی کوئی شکایت سننے میں نہ آئی۔ میر صاحب کو اطمینان سا ہو چلا کہ نسخہ کار گر ہوا اور اعصاب کے دو بیمار ایک ہی چٹکلے میں اچھے ہو گئے، کہ دفعتاً ایک دن بی جولاہن روتی بسورتی پہنچیں۔ معلوم ہوا منو نے مارا ہے۔ پوچھ گچھ سے کھلا کہ چھ مہینے سے اسے نشے کا شوق ہوا، اور جس طرح وہ نشہ بیوی پر اتارتا ہے اسی طرح غصہ ماں پر۔ کل رات میں تو اس نے مارا ہی نہیں بلکہ اسے ایک کوٹھری میں بے آب و دانہ بند رکھا۔ اب چھوٹی ہے تو فریاد لے کر آئی ہے۔ میر صاحب کے اس سوال پر کہ پہلے ہی کیوں نہ بتایا کہ فوری تدارک سے شاید بری عادت نہ پڑنے پاتی۔ جولاہن سوائے ’’مامتا‘‘ کے اور کیا جواب دے سکتی تھی۔ انھوں نے حکم دیا، ’’آج سے یہیں رہو، گھر جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
مگر میر صاحب کو منو کی فکر ہو گئی۔ خون گندی نالی میں بہہ کر نہ تو بدل جاتا ہے اور نہ پھٹ کر سپید ہو جاتا ہے، اس لئے اسے بلا بھیجا اور حد سے زیادہ خفا ہوئے۔ اور یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگر پھر سنا کہ تو نے تاڑی پی تو درخت سے بندھوا کر اتنا پٹواؤں گا کہ چمڑا ادھڑ جائے گا!‘‘ ساتھ ہی پارسی کے پاس مخصوص کا رندہ بھیج کر کہلا بھیجا کہ اب اگر منو کو ایک قطرہ بھی پینے کو ملا تو تاڑی خانہ اٹھوا پھینکوں گا۔‘‘ غرض منو کی پورے طور پر بندش کر دی گئی اور تاڑی بند ہو گئی۔ نشے کا انجکشن ممنوع قرار دے دیا گیا۔
مگر جونک اپنا کام کرتی رہی اور تاڑی بند ہونے کے چھ ماہ بعد وہ آنکھیں مانگنے لگا۔ بالکل زرد، سوکھا آم بن گیا اور کھانسی بخار کا شکار ہوا۔ جب میر صاحب کو خبر ملی کہ عیادت کے بہانے یاروں کی نشستیں ہونے لگیں اور بہو نے نینوں کے بان چلانا شروع کر دئے تو انھوں نے بی جولاہن کو کچھ روپے دے کر گھر بھیجا اور بیٹے کے علاج اور بہو کی نگرانی کی تاکید کی۔ لیکن یہ نگرانی وہاں اسی طرح ناگوار گزری جس طرح چوروں کو پولیس کی نگرانی کھٹکتی ہے۔ دو چار ہی دن انگیز کرنے بعد زبان کی چھری تیز ہونے لگی۔ ساس بھلا کس سے کم تھیں۔ انھوں نے کلہ بہ کلہ جواب دینا شروع کر دیا۔ ایک دن تو ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی۔ جوانی اور بڑھاپے کا مقابلہ کیا تھا۔ بہو ساس کے سینے پر سوار ہوگئی۔ منو پلنگ سے جھپٹ کر اٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا ماں کو بچانے پہنچا۔ بیوی نے سینے پر وہ لات دی کہ ہائے کر کے وہیں ڈھیر ہو گیا۔ دونوں لڑنا بھول کر اس کی تیمارداری میں مشغول رہیں لیکن بلغم کے ساتھ تھوڑا تھوڑا خون بھی آنے لگا اور وہ ایک ہفتہ بعد گھر سے اٹھ کر قبر میں چلا گیا۔
اب رونا دھونا شروع ہوا۔ بین ہونے لگی اور ساس بہو میں اسی پر مقابلہ ٹھنا کہ دیکھیں سوگ کون زیادہ مناتا ہے۔ پانچ روز تو اسی طوفان میں طغیانی رہی کہ میر صاحب کو خود آ کر سمجھانا پڑا۔ لیکن آہستہ آہستہ سیلاب غم گھٹنا شروع ہوا، ساس بہو کو ایک دوسرے سے چھٹکارا پانے اور رشتہ قرابت ٹوٹ جانے کی غیر شعوری طور پر خوشی ہونے لگی کہ دفعتاً چنو کی بیوی قبل از وقت مرا ہوا بچہ جن کر دیور کے پاس چلی گئی۔ بی جولاہن کو چار چھوٹے چھوٹے پوتے پوتیوں کو سنبھالنا پڑا اور منو کی بیوہ کو عدت کے احکام بھول جانے کو مواقع ملنے لگے۔
ایسے ہی ایک موقع سے چنو غم بھلانے اور جی بہلانے دیورانی کے پاس آ بیٹھا۔ خاطر تواضع ہوئی اور باتوں کا سلسلہ چھڑ گیا۔ درد دل بیان ہوئے، تنہائیوں کا ذکر چھڑ گیا اور اس کے دور کرنے کے ذرائع پر غور ہوا۔ بالآخر ایک شب امتحان کی قرار پائی۔ جب اس کی صبح سرخروئی سے ہوئی تو چنو نے ماں سے اصرار کیا کہ اس رشتے کو عقد کے ذریعہ مستحکم بنادے۔ وہ بیٹے کو لے کر مولوی صاحب کے پاس پہنچی۔ وہ دیہات میں رہنے کی وجہ سے شرع کی کتابیں اب تک نہ بھولے تھے۔ انھوں نے امتحان اورا س کے نتائج سے واقف ہوتے ہی کان پر ہاتھ رکھا اور نکاح کے ممنوع ہونے کا فتویٰ فوراً صادر فرما دیا۔ بڑی بی دیر تک ایک وکیل کی طرح بحثتی رہیں۔ پر جب مولوی صاحب اپنے فیصلے سے نہ ٹلے تو جل کر بیٹے سے بولیں، ’’چل بے گھر چل! مانگ میں میرے سامنے سیندور بھر دینا۔ وہ اب تیری بیوی ہے، میں خوش میرا خدا خوش۔‘‘ چنو نے ماں کا کہنا کیا۔ مانگ میں سیندور کی چٹکی ڈال دیا اور اپنے چاروں بچوں سمیت اسی گھر میں منتقل ہو گیا۔
ایک مہینہ بیتا، دو بیتے، تین مہینے بیتے، مگر چوتھے مہینے چنو کی کمر اچک گئی۔ اکڑنا، بررنا، تن کے چلنا، سب چھوٹ گیا۔ وہ اب ذرا جھک کے چلنے لگا۔ ہم سن میر صاحبان میں سے ایک صاحب طبیب تھے، ان کو دکھایا۔ انھوں نے معجونیں اور گولیاں کھلانا شروع کیں۔ دواؤں کے زور پر کچھ دنوں اور چلا۔ بدقسمتی سے حکیم صاحب ایک ریاست میں ملازم ہو کر چلے گئے۔ بس چنو کی کمر کچی لکڑی کی طرح بوجھ پڑنے سے جھک گئی۔ ساتھیوں نے افیون کی صلاح دی۔ شروع میں تو کافی سرور آیا مگر افیون کی خشکی نے دبوچا۔ بی چنیا بیگم مانگتی ہیں دودھ، مکھن، گھی، ملائی اور یہ چیزیں چار روپے میں کہاں نصیب۔ وہ لگا کھیسے نکال کے ہاتھ پھیلانے اور پیسے مانگنے۔ مگر اس پر جو کچھ ملتا بھاویں نہ سماتا اور افیون کی لت پڑ ہی چکی تھی وہ چھوٹتی نہیں۔ اس نے آہستہ آہستہ دل و جگر کو چھلنی کیا اور چنو خاں کو اختلاج کے دورے پڑنے لگے اور سوکھی کھانسی آنے لگی۔
ایک دن جنوری کے مہینے میں جب بوندا باندی ہو رہی تھی اور اولے پڑنے والے تھے کہ چنو کو اختلاج شروع ہو گیا۔ ڈیوڑھی پر کسی کام کے سلسلے میں حاضر تھا۔ فوراً اٹھ کر گھر کی طرف بھاگا۔ راستے ہی میں کوندا لپکا اور جان پڑا اسی کے سر پر پڑا۔ اسی کے سر پر بجلی گری، منہ کے بل زمین پر آ رہا۔ سنبھل کر اٹھا مگر دل کا یہ حال تھا کہ منہ سے نکلا پڑتا تھا بے ساختہ ’’ارے ماں، ارے ماں‘‘ چیختا ہوا دوڑا۔ راستہ سجھائی نہ دیتا تھا۔ دم گھٹا جا رہا تھا مگر پاؤں پہئے کی طرح لڑھک رہے تھے۔ گھر کی دہلیز میں قدم رکھا ہی تھا دوسرا کڑکا ہوا۔ وہ ٹھوکر کھاتا، سنبھلتا، لڑ کھڑاتا دالان والے پلنگ پر جا کر بہری کے پنجے سے چھوٹے ہوئے کبوتر کی طرح بھد سے گر پڑا اور اسی طرح اس کا ہر عضو پھڑکنے لگا۔ بیوی ’’ارے کیا ہوگیا لوگو‘‘ کہتی ہوئی دوڑی۔ چنو نے بایاں پہلو دونوں ہاتھوں سے دباتے ہوئے کہا، ’’اب میرے بعد تم کو کون خوش رکھے گا؟‘‘ اور ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔
چنو کی فاتحہ کے تیسرے دن اس کی خوش نہ ہونے والی بیوہ، گاؤں کے ایک جوان کسان کے ساتھ کمبھ کا میلہ گھومنے الہ آباد چلی گئی۔