سیاہ آسمان — اکرام اللہ

 اندھیری سیڑھیاں پاؤں سے ٹٹول ٹٹول کر چڑھتے چڑھتے دم پھول گیا تو سانس بحال کرنے کے لیے دیوار کا سہار الے کر رک گیا۔ اور ہاتھ یونہی غیرارادی طور پر سر کے ارد گرد کسے لوہے کے کڑے کو چھونے لگا۔ میں اس بلڈنگ میں باقس کے فلیٹ پر پہلے ہزار مرتبہ آچکاہوں مگر پہلے نہ تو سیڑھیاں کبھی اتنی اندھیری پائیں اور نہ اس قدر لق و دق خالی۔ یوں ہوا کرتا تھا کہ یہی کوئی بیس پچیس سیڑھیاں چڑھے، ایک گیلری سی میں سے گزرے اورسامنے اس کے فلیٹ کاروشن دروازہ کھلا ہوتا تھا آج اب تک اغلباً کوئی دوسو سیڑھیاں تو چڑھ چکاہوں گا۔ مگر نہ وہ گیلری آئی نہ کہیں کوئی روشن دروازہ نظرپڑا۔اس بلڈنگ میں اتنے بہت سے آباد فلیٹ ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ آج نہ کوئی اوپرجارہا ہے اورنہ نیچے آرہا ہے۔ کیا یہ وہی بلڈنگ ہے؟ بلڈنگ تو بہرحال وہی ہے۔ توپھر اس کے باسی نقل مکانی کرکے کہیں چلے گئے ہوں گے۔ باقی باسی تو خیر فانی انسان ہیں کسی خطرے کی بو سونگھ کربھاگ لیے ہوں گے۔ مگر باقس توایک دیوتا ہے، امر، ازلی، ابدی اسے ان خطروں سے کیا خوف۔ وہ جب چاہے ایک خطے میں سورگ نکل جائے اورجب چاہے اس لوک میں لوٹ آئے۔ عجیب اتفاق ہے کہ اس کے فلیٹ تک جانے والی سیڑھیاں آج یک دم یوں لمبی کھنچ گئی ہیں۔ جیسے ربڑ کا غبارہ پہلے تو محض ایک ذرا سا چھچھڑا ہوتا ہے۔جب کوئی بچہ اس میں ہوا بھرنا شروع کرتاہے تو حیران کن حد تک لمبا ہوتا چلاجاتا ہے۔ 

ان سیڑھیوں پہ ضرور کسی نے ایسا ہی کوئی عمل کیاہے۔ اب وہ طفل نادان معمول کے مطابق دوہرا ہوہو کرزور لگاتاہوا اس میں اپنی گندی سانس ٹھونستا جائے گا حتیٰ کے غبارہ بھک سے اڑ جائے گا اور یہ سیڑھیاں ہمیشہ کے لیے غائب ہوجائیں گی اس کے بعد انسان کبھی اوپر نہ جا سکیں گے اور وہ طفل نادان اداس چہرہ لیے گھر چل دے گا۔میں اس اندھیرے اور تنہائی میں یوں کھڑا تھا جیسے لحد میں پڑا مردہ اورحیرانی کی بات ہے کہ میں اس کی طرح اپنی تنہائی سے بے خبر بھی تھا۔ وہ اپنے کفن میں مگن ہوتا ہے۔ میں اپنے اندھیرے میں مگن تھا۔ سانس قدرے درست ہوا تو پھر بازو پھیلا کردونوں دیواروں کا سہارا لیتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ کہاں گئی وہ منزل جہاں باقس رہتا تھا۔ روتی ہوئی وائلنوں اور آہیں بھرتی ہوئی گٹاروں کی آوازدور بہت دور اوپرکہیں سے آرہی تھی۔ ان کی لے سے ہٹ کر ایک بہت بے ہنگم، بے تال دھم دھم کی آواز بھی آرہی تھی۔ یہ آوازیں سن کر مجھے ایک یقین توہو گیا کہ وہ کھلنڈرا ہمیں مدعو کرنا بسرا کر خود سورگ نہیں نکل گیا۔ اسے دعوت دینا یاد رہا ہے۔ اور وہ اسی بلڈنگ میں اپنے فلیٹ میں موجود ہمارا منتظر ہے۔ یہ اتنی بے ہنگم دھم دھم کی آواز کیا ہے؟ ڈرم ہوگا۔نہیں اتنا بے تالا نہیں ہو سکتا کیا باقس سرشام اتنامدہوش ہوگیا کہ ناچنے بھی لگا؟ کیا اس نے مہمانوں کا انتظار کئے بغیر پینا شروع کر دیا ہوگا؟ خیر! پیتا تو وہ ہر وقت ہی رہتاہے۔ لیکن کیا وہ باقس جس کے ناچ کے اثر سے بے سرے ساز خود بخود سرہوجاتے ہیں ناچ کے نام پر بے ہنگم طور پر کود رہا ہوگا؟ ہرگز نہیں، یہ کوئی اور ہی آواز ہے، جو یقیناًکسی اور جگہ سے آرہی ہے۔ اس کا فلیٹ قطعاً ایسی غلیظ، ننگی اور فحش آواز کا منبع نہیں ہو سکتا۔ ممکن ہے میرے سوا باقی سب جمع ہوں اور انہوں نے سوچا ہو کہ کیا پتہ وہ پہنچ بھی پاتا ہے یا نہیں اورزندگی نے اصرار کیاہو کہ دیر مناسب نہیں رسومات شروع کردو اور انہوں نے شروع کر دی ہوں۔ زندگی تو اپنی بے وفائی میں ویسے بھی ضرب المثل ہے۔ 

دونوں طرف دیواریں میرے ساتھ ساتھ بلند سے بلند تر ہوتی جارہی تھیں اور درمیان میں پڑی پیچ در پیچ سیڑھیاں اوپر ہی اوپر چلی جارہی تھیں کہیں کسی رخ ان سے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی تھی۔ٹھنڈی ہوا تو چل ہی رہی تھی۔ مگر دفعتاً ایک تیز جھکڑ اندھیری سیڑھیوں میں شاں شاں کاشور کرتا یوں گذرنے لگا کہ میرے قدم اکھڑ سے گئے اور بڑے کوٹ کے دونوں پٹ کسی اڑتے ہوئے بڑے پرندے کے پروں کی طرح ہوا میں تن گئے۔ ان سیڑھیوں میں کوئی اڑ تھوڑاہی سکتاہے یہ جعلی طور پر تنے ہیں اس لیے میں نے انہیں زورسے کھینچ کر اپنے کپکپاتے بدن کے اردگرد لپیٹتے ہوئے جلدی سے بٹن بند کرلیے۔ سردی جو پچھلے کئی مہینوں سے بڑھتی جارہی تھی۔ اب بہت بڑھ گئی تھی۔ مگر اس جھکڑ نے چل کر توگویا کرہ زمہریر میں پہنچا دیا۔ میں نے اپنے سر کے ارد گرد کسے لوہے کے کڑے کوہاتھ لگا کے دیکھا وہ اب بھی اتنا تنگ اور سرد تھا کہ میرے سر اور ماتھے کی کھال کے اندر گھسا جارہا تھا۔ دھاتیں سردی سے سکڑ جاتی ہیں نا۔ اسی لیے شایداور تنگ ہو گیا تھا۔ اس شہر میں جب سے یہ ان دیکھی اور ان جانی سردی پڑنی شروع ہوئی تھی۔ ہر زن و مرد کے سر کے اردگرد خدا معلوم کیوں اور کیسے لوہے کے کڑے خودبخود کسے گئے جو روز بروز تنگ سے تنگ تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بچوں کے سروں پر تو لوہے کے پورے پورے خود کس گئے ہیں اور نومولود توخیر اب پیداہی خودوں سمیت ہوتے ہیں اگرچہ ابھی تک ان کڑوں کے سبب کوئی انسانی موت واقع نہیں ہوئی تاہم اطلاعات ملی ہیں کہ کئی لوگوں کے کڑے اس قدر تنگ ہوگئے ہیں کہ انہیں ہسپتالوں میں داخل کرنا پڑاہے اور ان میں سے چند ایک کے کڑے اس قدر تنگ ہوتے ہوتے اس قدر تنگ ہوگئے ہیں کہ اندیشہ ہے کہ کسی لمحے ان کی کھوپڑیاں تڑخ جائیں اور بھیجے باہر ابل پڑیں۔ کوئی ڈاکٹر یا سائنس دان اس آفت کے اسباب و علاج ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کررہاکیونکہ انکاخیال ہے کہ جو لوگ کڑوں کے تنگ سے تنگ ہونے کی شکایت کرتے ہیں دراصل ان کی کھوپڑیاں بڑھتی جارہی ہیں اور وہ ایک لاعلاج مرض ہے البتہ اس کے سدباب کے طور پر فطرت نے خود راہ تلاش کرلی ہے اور بچوں کے سروں پرمکمل خود چڑھ گئے ہیں۔ آئندہ پندرہ بیس سال بعد انشااللہ کسی کو لوہے کے کڑوں کی تنگی کی شکایت نہ رہے گی۔ کیونکہ اس وقت تک ہر شکایت کرنے والے کابھیجا تڑخی ہوئی کھوپڑی میں سے ابل کر خارج ہوچکاہوگا یہ تو حکماء کی رائے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک مخلوق خدا اذیت میں مبتلا ہے۔ 

میں سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے جب دوبارہ بے حال ہوگیا تو یہ جاننے کے لیے کہ میں ابھی فلیٹ سے کتنی دور ہوں میں نے پوری توجہ سے کان لگا کر وائلوں اور گٹاروں کی آواز سننے کی کوشش کی، آوازیں اتنی ہی مدھم تھیں جتنی پہلے، مگر اب خلاف توقع نیچے سے آتی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔ اوروہ دھم دھم کی بے ہنگم بے ہودہ آواز بھی ابھی تک آرہی تھی۔ اور وہ بھی نیچے سے ہی آتی محسوس ہو رہی تھی تو میں بہت اوپر نکل آیا، سیڑھیاں اترنے سے پہلے دم لینے کے لیے وہیں بیٹھ گیا۔میں ان سیلی اندھی سیڑھیوں میں بہت دیر تک بیٹھا کپکپاتا سانس درست کرتارہا۔ مجھے رنج آرہا تھا کہ اس بلڈنگ میں اتنے بہت سے فلیٹ ہیں اوران میں اتنی بڑی تعداد لوگوں کی رہتی ہے۔ اگر یہ لوگ سیڑھیوں میں تھوڑی سی روشنی کا انتظام کرلیں تو کیا ہرج کی بات ہے مگر وہاں توکسی کھڑکی، روشن دان، دروازے کی دراڑ میں سے بھی روشنی نہیں آرہی تھی۔ 

’’تمہیں پتہ نہیں جب سے کڑے کسے گئے ہیں۔ روشنیاں بند کر دی گئی ہیں۔ تم نے کسی سڑک، گلی کوچے میں روشنی دیکھی ہے؟ کسی مکان، دوکان میں روشنی دیکھی؟‘‘ 

غیر متوقع طور پر اپنے قریب یہ آواز سن کے میں گھبرا کے بولا’’تم کون ہو؟‘‘ 

’’میرا نام مسعود تھا۔ اب میرا نام نامسعودہے‘‘۔ 

’’تم یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘ 

’’جو تم کرر ہے ہو‘‘۔ 

’’میں تو پچھلے کئی گھنٹوں سے باقس کے فلیٹ کی تلاش میں سیڑھیاں چڑھ رہا ہوں۔ اس نے آج شام کے لیے مجھے بلایا تھا‘‘۔ 

’’میں بھی اس کے فلیٹ کی تلاش میں ہوں، مجھے بھی اس نے بلایا تھا شاید جسے ہم سیڑھیاں چڑھنا سمجھتے رہے ہیں وہ اصل میں سیڑھیاں اترنا تھا ہم نیچے کہیں تحت الثریٰ کے نزدیک ہیں۔۔۔ غور سے سنو! سازوں کی آہ و بکا کی آواز جو صرف باقس کے فلیٹ سے ہی آسکتی ہے۔ کتنی بلندی سے آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور ساتھ ہی ایک گندی دھمک کی آواز بھی چلی آرہی ہے‘‘۔ 

’’روشنی‘‘ یہ کہتے ہوئے نامسعود ہنسا پھر کہا ہم نے باہر سے بہت سا کالا پینٹ منگوایا ہے۔ اتنا بہت ساکہ اس کے اوپر پھیلے ہوئے پورے آسمان پر ہم اس کو تھوپ دیں گے پھرنہ دن کوسورج نکلا کرے گا، نہ راتوں میں چاند چمکے گا۔ نہ ستارے دمکیں گے۔ دن رات یہ شہر ان سیڑھیوں کی طرح اندھیرے میں ڈوبا رہے گا۔ 

’’نامسعود جو وقت ابھی نہیں آیا تو اس کے خیال سے مجھے کیوں ہراساں کرتاہے‘‘۔ 

’’وقت ابھی نہیں آیا؟ کیا بکتا ہے۔ پینٹ پہنچ چکا ہے ٹھیکہ دے دیاگیا ہے کام شروع ہو۔۔۔۔‘‘ 

’’اچھا یہ سب ٹھیک ہے۔ مگر لمحے کی بھی تو کوئی قیمت ہوتی ہے۔ اس کو سمجھو اب جب کہ وہ آخری رہ گیا ہے تواور بھی قیمتی ہو گیا ہے دل نہ مسوس، بس جلدی کر، باقس اگر ابھی زندہ ہے اور اس کا فلیٹ ڈھے نہیں گیاتو ہم آج اسکی تلاش کرکے رہیں گے‘‘۔ 

اس کے بعد پتہ نہیں کتنی مرتبہ ہم دونوں ان سیڑھیوں کی لامتناہی لمبائیوں میں اترتے چڑھتے رہے اس کے فلیٹ تو کیا ملنا تھا سیڑھیوں کا زمین پرپہنچنے والا سرا بھی غائب تھا، ہم نے پوری طاقت سے دیواروں کو دھکے دئیے اوروہ اتنی ہی طاقت سے ہمیں پیچھے اچھال دیتیں ہم نے لوہے کے کڑوں میں کسے اپنے سروں کو ان سے پٹخا نہ تو کوئی دیوار پھٹی اور نہ ہی سیڑھیوں نے ہمیں کوئی راہ دیا ہمیں یقین ساہو گیا کہ ہم دوچوہوں کی طرح دیواروں کے پنجرے میں دوڑتے دوڑتے تھک کے سیڑھیوں پرگرجائیں گے۔ اور مر جائیں گے۔ مگر بدستور بھاگم بھاگ سیڑھیاں چڑھ رہے تھے، اتررہے تھے اور ہمارے دم سینوں میں سما نہیں رہے تھے۔ میں نے تیزی سے سیڑھیاں اترتے نامسعود کا بازو پکڑ کرکہا ’’ذرا رکو، آؤ ایک آخری کوشش کے طور پر دونوں مل کر پورے زور سے باقس کو پکارتے ہیں اگر اس نے ہماری آواز سن لی تو وہ آکر راہ سجھاتے ہوئے ہمیں اپنے فلیٹ میں لے جائے گا‘‘۔ 

میں نے ایک دو تین کہا اور تین پرہم دونوں نے اپنی پوری جانیں مجتمع کرکے آواز لگائی۔ 

’’با اقس س س‘‘ تیز ہوا کی شاں شاں میں ہماری آواز غتربود ہو گئی۔ وقفے وقفے سے ہم نے دو تین بار اور پکارا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ ہم پرمایوسی چھا گئی۔ اتنے میں چپ راست کی پر ہیبت تحکمانہ آواز پر بہت بھاری بھرکم بوٹوں کی ایک تال میں رچی دھمک سے سیڑھیاں لرزنے لگیں۔ یا الہٰی یہ کیا ماجرا ہے؟ہم خوف سے دبک کر دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے جب وہ مارچ کرتے ہوئے ایک ایک کرکے ہمارے پاس سے گذر کر آگے بڑھ گئے تو ہم دبے پاؤں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے ایک جگہ جا کر ’’ہالٹ‘‘ کی آواز پروہ سب رک گئے۔ حکم دینے والے شخص نے آگے بڑھ کر دروازہ یوں پیٹا کہ ہم سمجھے کہ دروازہ تیلی تیلی ہو کر بکھر جائے گا۔ وہ چنگاڑا: 

’’باقس دروازہ کھولو‘‘۔ 

اندر سے باقس کی آواز آئی ’’تم کون ہو؟‘‘ 

’’ ہم کوئی روشنی نہیں۔۔۔ تمہیں کسی نے غلط بتایا ہے‘‘۔ 

’’تم نے اندر زندگی چھپائی ہوئی ہے‘‘۔ 

’’یہاں کوئی زندگی نہیں‘‘۔ 

’’تمہیں بخوبی علم ہے کہ موسیقی کبھی کی مرچکی‘‘۔ 

’’تم دروازہ کھولو ہم تمہارے گھرکی تلاشی لینا چاہتے ہیں‘‘۔ 

’’ تمہیں میرے گھر کی تلاشی لینے کاکوئی حق نہیں یہ میری چاردیواری ہے اور اس میں کسی اجنبی کو داخل ہونے کا اختیار نہیں‘‘۔ 

’’ہرخانہ خانہ ما است کہ خانہ خدائے مااست‘‘ ہمیں تلاشی لینے کا پورا پوراحق اور اختیار ہے دروازہ کھول دو نہیں توہم اسے توڑ کر اندرداخل ہوجائیں گے‘‘۔ 

’’اگر تم دروازہ توڑو گے تو میں بندوق سے اس کی حفاظت کروں گا‘‘ پھر انہیں سناتے ہوئے بلند آواز سے اپنے ملازم کو آواز دی ’’مشرقی! اپنی بندوق لانا جو تو شرق میں چلایا کرتا تھا، اس کے بغیر یہ باز نہیں آئیں گے‘‘۔ 

مشرقی نے اس طرح بلند آواز میں جوا ب دیا ’’یہ لیجئے بندوق‘‘۔ 

اس پر میں نے اور نا مسعودنے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کیونکہ ہمیں پتہ تھا کہ مشرقی اور باقس، دونوں کے پاس کوئی بندوق نہیں اگر انہوں نے دم نہ کھایا تو باقس مارا گیا۔ 

حکم دینے والے شخص نے کہا ’’باقس تو اچھا نہیں کررہا تجھے پچھتانا پڑے گا کل ہم ڈائنا میٹ لے کرآئیں گے اور تیرے فلیٹ کو اڑا دیں گے پھر تجھے پتہ چلے گا‘‘۔ 

ٹھیک ہے لے آنا تب بات کریں گے۔ 

وہ شخص اپنے دستے کو اسی طرح پریڈ کراتا ہوا واپس لے گیا۔ 

میں نے پوچھا ’’نامسعود کیا باقس کی اس جرات پر تیرا کڑا بھی کچھ ڈھیلا پڑا‘‘ کہنے لگا ’’ہاں کوئی ہوا بھر فراخی محسوس تو ہوتی ہے‘‘۔ 

ہم نے جا کر آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹایا، باقس نے پردہ ہٹاکر ہمارے چہرے دیکھے اور دروازہ کھول دیا اندر واقعی روشنی تھی جو زندگی کی روتی ہوئی آنکھوں سے نکل نکل کرکمرے میں اجالا کررہی تھی اور کمرے کے وسط میں گھٹنوں تک کٹی اگلی ٹانگوں والی بھینس نے ناچ کے نام پر کود کود کر ایک اودھم مچارکھا تھا۔ اچھا تو وہ غلیظ اور مکروہ دھمک کی آواز اس کے ناچنے کی تھی، اس کی اگلی ٹانگیں کہاں گئیں؟ اوہ یاد آیا نیچے جہاں سیڑھیاں شروع ہوتی ہیں وہاں قصاب کی دوکان کی دیوار کی اوٹ میں ابلتے پانی کے ایک کنستر میں جو بھینس کی دو گھٹنوں تک کٹی ٹانگیں پڑی تھیں وہ اس کی تھیں اور انہیں وہاں اس لیے چھوڑ آئی تاکہ اس سردی میں ناچتے ناچتے کہیں شل نہ ہو جائیں اب یہاں سے فارغ ہوکرجب جائے گی تو نیچے پہنچ کر اپنی گرم گرم ٹانگیں اور پاؤں پہنے گی اور چل دے گی مے سے بھرا خم کونے میں پڑا تھا۔فقیر صحرا صوفی سیاہ پوش، ستارہ گل مستانہ زہرا اور حتیٰ کہ باقس بھی ہاتھوں میں خالی جام پکڑے دیواروں کے ساتھ لگے کھڑے کٹی ٹانگوں والی بے تحاشا کودتی بھینس کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اسے روکنے سے قطعی قاصر تھے۔ ہم بھی خالی جام ہاتھوں میں پکڑ کر انہیں کی طرح دیوار کے ساتھ لگ کر اسے دیکھنے لگے۔ زندگی ایک کونے میں سب سے الگ تھلگ بیٹھی اپنی آنسو بہاتی آنکھوں سے صرف چھت کو تکے جارہی تھی۔ زندگی کو یوں زارو قطار روتے دیکھ کر میں سناٹے میں آگیا زندگی میں تجھ سے شرمندہ ہوں۔ میرے بلانے پہ تو آج شام یہاں آئی اور تیری تذلیل ہوئی‘‘ اس نے کوئی جواب نہ دیا اسی طرح آنسو بہاتی رہی اور بھینس اسی طرح اودھم مچاتی رہی۔ 

نامسعود کہنے لگا ’’دوستو! اس بھینس کو تو کمرے سے نکالنے کی کوئی تدبیر کی ہوتی‘‘۔ 

باقس نے جواب دیا ’’ہم سب تو اپنی سی کر چکے مگر یہ نہیں نکلتی، پہلے ڈنڈے مارے پھر آہیں بھرتی ہوئی موسیقی کو بندکیا اس کے بعد دروازے میں کھڑے ہو کر چارہ دکھایا لیکن یہ کسی طور مانتی ہی نہیں، بس اسی طرح کودے جاتی ہے اب تم آئے ہو کوئی چارہ کرکے دیکھو‘‘۔ 

’’باقس! تمہاری دیوتائی شکتی بھلا کسی کام کی جو ایک اپاہج بھینس کو باہر نہیں نکال سکتی‘‘۔ 

اس نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے اقرار کیا ’’ہاں! میں تو صرف مے اور رقص کا دیوتاہوں بھینس میرے بس میں نہیں‘‘۔ 

’’مجھے ایک تدبیر سوجھی ہے اسے کتاب دکھا کر دیکھتے ہیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے نامسعود دوسرے کمرے میں دوڑتا ہوا گیا اور بہت سی کتابیں بازوؤں میں بھر کے لے آیا اس نے کچھ ورق پھاڑ کر اس کے سامنے کیے تو وہ کودنا بھول کر نہایت رغبت سے انہیں کھانے لگی وہ اسی طرح ورق پھاڑ پھاڑ کے کھلاتا ہوا اسے کمرے سے باہر لے گیا پھر گھر کی ایک ایک کتاب لے جاکر ورق ورق کر کے سیڑھیوں میں نیچے تک پھیلادی۔ وہ تیزی سے ادھر ادھر منہ مارتی ورق ورق چرتی نیچے اتر گئی۔ آں دفتر راگاؤ خورد و گاؤ راقصاب برد، حالانکہ اس قصے میں قصاب گاؤ سے پہلے نپٹ چکا تھا ہم نامسعود کے بہت ممنون و مشکورتھے اس پہ واہ واہ کے ڈونگرے برسائے گئے کہ آخر اس کی تدبیر کی بدولت سب کی اس بے ہودہ بھینس سے گلو خلاصی ہوئی۔ 

باقس نے خم کی طرف نظر بھر کے دیکھا اور آن واحد میں تمام خالی جام مے سے چھلک اٹھے۔ افسردہ اورمایوس چہروں پہ مسکراہٹ کھل اٹھی اس نے جام بلندکرتے ہوئے زندگی کی طرف دیکھ کر جوش سے کہا ’’بنام زندگی‘‘ وہ کونہ جہاں بھرپور جوان زندگی چھت کو تکتی ہوئی آنکھوں سے آنسو بہارہی تھی۔ اب بھائیں بھائیں کرتا خالی پڑاتھا، ہم سب نے چاروں طرف نظردوڑائی مگرزندگی کاکہیں کوئی سراغ نہ تھا۔ اگر نور جاموں سے منعکس نہ ہو رہا ہوتا تو پوراکمرہ تاریکی میں ڈوب چکا ہوتا۔ باقس کا اٹھا ہوا ہاتھ نیچا ہوگیا اوروہ اس شدید صدمے سے سنبھلنے کے لیے دیوار سے کمر لگا کر خاموش گردن نیچی کیے کھڑا اپنے غم میں ڈوب گیا سب پرایک سکتہ سا طاری ہوگیا۔ ’’تدبیر کند بدہ تقدیر کند خندہ‘‘ کچھ دیر کے بعد باقس سنبھلا اورکہا’’جس کی خاطر یہ سب کیادھرا تھا وہ تو چلی گئی۔ اب بولو دوستو‘‘۔ 

فقیر صحرا نے کہا ’’باقس یوں لگتاہے جیسے میری آتما کا انت مونٹ ایورسٹ کی چوٹی پہ جاکر برف کا تودہ بن گیا ہو وہاں سے نہ کبھی برف پگھل سکتی ہے اور نہ کبھی میری آتما کا اتت واپس لوٹ سکتا ہے تم جانتے ہو میں تو فانی ہوں۔ سورج کے سوا نیزے پہ آنے کا کہاں تک انتظار کر سکتا ہوں‘‘۔ 

صوفی سیاہ پوش نے کہا ’’ہر انسان کے اندر ایک چھوٹا سا بچہ ہوتاہے جواس کے اندرمرتے دم تک زندہ رہتاہے اور یوں اس کے خمیر میں معصومیت اورحیرت کے عنصر کو قائم رکھتاہے ۔ میرے اندر وہ ننھا بچہ اب مرگیا ہے اوراس کا زہر اتنا پھیل گیا ہے کہ آہستہ آہستہ میری روح کے اندر سرایت کرتامحسوس ہو رہا ہے‘‘۔ 

مستانہ زہرہ بولنے لگا تواس کی آواز اس انداز میں نکل رہی تھی جیسے کوئی عالم نزع میں بولنے کی کوشش کررہا ہو ’’میں تو سانس بھی کانوں کے راستے لیتاتھا۔ اب ان میں سیسہ بھردیا گیا‘‘۔ ستارہ گل نے کہا ’’سینکڑوں صدیوں کے صرف سے میں نے جو مسکرانے کافن سیکھا تھا۔ وہ میرے ذہن سے اب قطعی ماؤف ہو گیا ہے۔ میں محض پتھرکا ایک ٹکڑا رہ گیا ہوں جو نہ روتاہے نہ ہنستا ہے۔ گلنار علم میرے ہاتھ سے گرکر کہیں صحراؤں کی ریت تلے دب گیا ہے اگر زندگی ہمیں سینکڑوں صدیاں پیچھے پھینک گئی ہے توہمیں واپس آنے میں چند صدیاں تو ضرورلگیں گی۔ اگر میں نہیں ہوں گا تو کیا ہوا جب زندگی مہربان ہوگی تو کوئی اور آئے گا اور ریت میں سے میرا گلنار علم نکال کر پھر کندھے پر رکھ کر آگے بڑھے گا‘‘۔ 

باقس نے کہا ’’دوستو! اپنے اپنے جام بنام زندگی خالی کرو اور پھر بھرو اور لنڈھاتے چلو۔ میں زندگی کو پہلے بھی کئی بار اپنے پرستاروں سے مایوس ہوکر روٹھ کر جاتے دیکھ چکا ہوں۔ ثابت قدم رہو، وہ واپس آئے گی اور ہم اس کی شان میں بہت بڑا جشن کریں گے۔ مجھے پتہ ہے آسمان پہ تھوپے جانے والا سیاہ پینٹ آخر پگھل کر گر جائے گا روشنی کے آگے بند بانندھنے کی یہ اولین کوشش تو نہیں پہلے بھی بہت لوگ کرچکے ہیں نور کے سیلاب کے آگے ہر رکاوٹ پر کاہ کی مثل بہہ جاتی ہے۔ تمہارے سروں کے گرد کسے ہوئے آہنی کڑے کوئی ہمیشہ قائم تو نہیں رکھ سکتا؟‘‘ 

ہم سب یک زبان ہو کر پکارے ’’تب تک کیا کریں؟‘‘ 

’’بتایا جو ہے۔ جام روشن رکھو‘‘۔ اس نے نہایت متانت سے جواب دیا۔ پتا نہیں وہ باقس تھا کہ میوز تھی کہ دونوں تھے۔ 

کوئی تبصرے نہیں: