ہزار پایہ — خالدہ حسین

 میں نے دروازہ کھولا۔ اندر کے ٹھنڈے اندھیرے کے بعد، باہر کی چکاچوند اور تپش پر میں حیران رہ گیا۔ دروازہ جس کا رنگ سلیٹی اور جالی مٹیالی تھی، اسپرنگوں کی ہلکی سی آواز سے بند ہوگیا۔ اس بند دروازے کے اندر ٹنکچر آیوڈین اور اسپرٹ کی بو تھی اور چمڑے منڈھے لمبے پنجوں اور پالش اتری کرسیوں پر لوگ بیٹھے اخبار اور رسالوں کے ورق بے دلی سے الٹتے تھے۔ مرد نوائے وقت، پاکستان ٹائمز اور کمرے سے باہر چبوترے پر میں کھڑا تھا۔ میں ابھی چند لمحے پہلے اندر تھا اور اب باہر۔ اس چبوترے سے آگے، جہاں میں اس وقت کھڑا تھا ایک چھوٹا سا لان تھا اور اس کے گرداگرد کھٹے کی گھنٹی باڑ۔ یہاں سے سامنے کی صرف ایک آدھ کیاری نظر آرہی تھی۔ جس میں بے حد سرخ، لہو ایسے گلاب کھلے تھے اور چھوٹے چھوٹے کٹورے کی مانند کچھ زرد پھول جن کا نام میں نہیں جانتا۔ اور اس لان کے ساتھ ساتھ کچا راستہ جو لکڑی کے سفید پھاٹک پر ختم ہوجاتا تھا۔ میں چبوترے کی پانچ سیڑھیاں اتر کر کھٹے کے باڑ کے ساتھ ساتھ چلتا گیٹ تک آیا۔ اسے کھولا۔ اس کی چولیں بھی ہولے سے چرچرائیں۔ پھر اس گیٹ کے باہر ایک گنجان سڑک پھیلی تھی۔ 

باہر نکلتے ہی میں نے پل بھر کو آنکھیں بند کیں۔ صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ میں نے کیا دیکھا ۔ سرخ اندھیرا ہولے سے سبز اندھیرا بنا۔ پھر زرد زرد روشنی کے دھبے کبھی سیاہی مائل نیلے کبھی سفید ہونے لگے۔ کچھ چیزوں کے خطوط جلتے بجھتے رہے۔ ان جلتے بجھتے اندھیروں کے ساتھ پھر میرے گلے میں وہ پھندا آن پڑا۔ اور ہولے ہولے میرے جبڑے سست پڑنے لگے۔ منہ خود ہی کھل گیا۔ میں نے دانتوں کو باہم بھینچنے کی کوشش کی اور میری مٹھیاں اس کوشش میں دکھنے لگیں۔ مگر اوپر تلے کے دانت ایک دوسرے سے جدا ہی رہے۔ آخر میں نے جیب سے وہ شیشی نکالی اور ایک گولی منہ میں رکھی۔ مجھے معلوم تھا کہ میرے اندر ایک ہزار پایہ پل رہا ہے۔ لمبے لمبے پنجوں والا کیڑا جو رفتہ رفتہ اپنی بے شمار شاخیں پھیلا رہا ہے۔ میری رگوں میں گاڑ رھا ہے۔ مگر معلوم ہونے کے باوجود مجھے یقین نہیں تھا۔ ابھی اس کمرے کے اندر ڈاکٹر نےمجھے یہی بتایا تھا۔ مگر میں سوچتا ہوں میرے اندر کیڑا کیوں کر پل سکتا ہے۔ یہ مجھے قطعی ناممکن لگتا ہے۔ 

گولی میرے منہ میں گھل گئی اور میرے جبڑے دھیرے دھیرے باہم ملنے لگے۔ میں نے اپنے سامنے پھیلی گنجان سڑک کو پھر دیکھا۔ انسانوں رکشاؤں، ٹیکسیوں، سائیکلوں اور سکوٹروں کا ایک دریا بہتا تھا۔ سامنے حمید جنرل مرچنٹس کی دکان میں ایک آدمی موٹی سی سیاہ فریم والی عینک لگائے اخبار دیکھ رہا تھا اور ایک ہاتھ سے اپنے بال سہلائے جاتا تھا۔ اس کے برابر چوڑی چپٹی ناک اور بے حد گھنے سیاہ بالوں اور جھکے کندھوں والا ایک لڑکا، ایک برقعہ پوش عورت کے سامنے، کاؤنٹر پر کریموں کی رنگین ڈھکنوں اور لیبلوں والی بوتلیں رکھے جا رہا تھا اور دکان کے شیشوں میں بے شمار چمکتے رنگ برنگ ڈبے سجے تھے۔ 

’حمید جنرل مرچنٹس۔‘ مجھے حیرت ہوئی کہ بیسیوں مرتبہ یہاں سے گزرنے کے باوجود میں اس دکان کو آج پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں۔ اس دکان کے بعد سلمان شوز، امین ڈرگ سٹور اور کنگز ہیئر کٹنگ سیلون تھا۔ ایک نوجوان حجامت والا ایپرن پہنے، سر میں چمپی کروا رہا تھا اور چمپی کرنے والے کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا، کنپٹیوں کی نیلی بھری بھری رگیں پھول گئی تھیں۔ ریڈیو پر زاہدہ پروین گا رہی تھی۔ زاہدہ پروین کی، اور بہت سے گانے والوں کی آواز میں بڑے بڑے ہنگاموں میں، بہت دور کھڑا پہچان لیتا ہوں اور مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ کچھ لوگ مثلاً میرے دوست ہی آوازوں کے درمیان تمیز نہیں کر سکتے۔ 

سلمان شوز سے ایک دبلا پتلا آدمی چھوٹے سے بچے کی انگلی تھامے باہر نکلا۔ بچے کے ہاتھ میں ڈوری سے بندھا جوتے کا ڈبہ تھا اور اس کی آنکھیں چمکتی تھیں۔ اس پر مجھے اچانک خیال آیا کہ میں گھر سے مخالف سمت پر نکل آیا ہوں۔ اس لیے میں گھوم کر رکشا اسٹینڈ پر پہنچا۔ تین رکشا ساتھ ساتھ کھڑے تھے۔ دو خالی۔ ایک میں ڈرائیور اطمینان سے بیٹھا سگریٹ پیتا تھا۔ آج میں نے پہلی بار دیکھا کہ رکشا عجیب جاندار شکل رکھتا ہے۔ اور یوں مجھے لگا گویا میں رکشا کو نہیں کسی اور جاندار چیز کو دیکھتا ہوں اور یہ چیز چلتے چلتے منہ موڑ کر مجھے دیکھے گی اور کراہے گی۔ جس طرح کبھی میرے اندر پلنے والا ہزار پایہ منہ موڑ کر مجھے دیکھے گا اور کراہے گا۔ ڈرائیور نے ایک بار لمبا کش لے کر میری طرف دیکھا، ’’کہاں جاؤگے میاں جی۔‘‘ اس نے بے دلی سے پوچھا۔ 

’’سمنا باد۔‘‘ 

’’آجائیے۔ روکے زمانہ چاہے روکے خدائی۔‘‘ اس نے میٹر چلا کر رکشا اسٹارٹ کیا۔ اس رکشا کی سیٹوں پر نیا نیا سرخ اور سبز پھول دار پلاسٹک چڑھا تھا۔ اور سامنے ڈرائیور کی پشت پر ایک چھوٹے سے جنگلے میں آئینہ جڑا تھا اور دائیں بائی دروازوں کے ساتھ رنگ برنگے ریشمی پھندنوں کی ڈوریاں جھولتی تھیں۔ ہوا بہت گرم تھی اور اس میں پٹرول اور مٹی کی مہک گھلی تھی۔ اس ملی جلی مہک پر مجھے ایک دم اس بات پر حیرت ہوئی کہ میں سمنا باد جارہا ہوں۔ سمنا باد کیا ہے؟ سمن آباد میں نے دل میں تلفظ کوصحیح کیا۔ اور تب مجھے پہلی بار علم ہوا کہ میں چیزوں کے نام بھولتا جا رہا ہوں اور چیزوں کے نام کھو جائیں تو چیزیں مرجاتی ہیں۔ اور میں یہ نام گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے راستے کے ہر بورڈ کو پڑھنے کی کوشش کی۔ گہوارۂ ادب شیخ عطاء اللہ ایڈوکیٹ۔ تتلی مارکہ لنگی۔ شبنم گرم مصالحہ۔ تعویذ محبت۔ سنگدل محبوب کھنچا چلا آئے۔ مگر بہت سے بورڈ اور دیواروں کے اشتہار تیزی میں گزرتے گئے، جنہیں میں پڑھ نہ سکا۔ اس لیے میں نے اپنے قریب کی چیزوں کے نام یاد کرنا شروع کیے۔ 

رکشا میں بہت سی چیزیں تھیں اور میرے پاس، میرے اندر، میرے ساتھ بہت سی چیزیں تھیں۔ قمیص، ٹائی، ٹائی پن، قلم، بٹوا، پیسے۔ مگر معلوم نہیں کیوں چیزیں اپنے ناموں سے الگ ہوچکی تھیں اور میں ان کے ناموں کو محفوظ کرنے کے درپے تھا۔ تب سے میں ہرچیز کا نام دل میں لیتا ہوں۔ دراصل اب لفظوں میں چیزیں دیکھنا چاہتا ہوں اس لیے اکثر میرے ذہن میں اسموں کی ایک لمبی فہرست مرتب ہوتی ہے۔ جیسے یہ فہرست مجھے جاکر کہیں سنانی ہو۔ 

ناموں کی یہ لگن روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ کبھی مجھے اپنے اردگرد کے لوگوں سے حسد ہونے لگتا ہے۔ پھر یہ حسد نفرت بن جاتا ہے اور نفرت ایک سیاہ جنون کی طرح مجھے گھیر لیتی ہے۔ میرے اردگرد پھیلے ان لوگوں کے پاس بہت سے ایسے نام ہیں جو میرے پاس نہیں۔ جو کبھی میری یاد داشت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ بہت سے نام چھپا چھپا کر اپنے اندر محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ اس پر مجھے ان انسانوں سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ یہ ناموں کی خواہش عجب ہے کہ اب مجھے یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ گویا میں کچھ لکھوں گا۔ 

دراصل اب سے پندرہ بیس برس پہلے مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ میں لکھنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے کاغذوں کا ایک دستہ خریدا اور اپنے میز پر لکھنے کا سامان سجایا۔ مگر جب میں نےقلم اٹھایا تو مجھے لگا کہ شاید میں لکھنا نہیں پڑھنا چاہتا ہوں۔ ابھی لکھنے کا وقت نہیں آیا۔ کبھی آئے گا۔ اس لیے میں نے پڑھنا شروع کیا۔ مگر چند سطریں پڑھ کرمجھے لگتا کہ اب میں لکھوں گا۔ میں قلم اٹھاتا مگر لکھ نہ پاتا۔ دراصل مجھے کوئی ایسی چیز لکھنی تھی جس کے لیے لفظ نہیں تھے۔ اس لیے میں قلم پھر رکھ دیتا اور پڑھنے لگتا۔ پھر کچھ عرصہ بعد ہی میں نے جانا کہ میں پڑھنا نہیں چاہتا۔ اس لیے میں نے پڑھنا بند کر دیا۔ پندرہ برس کے بعد اب عجیب بات ہے کہ اب یکدم مجھے یوں لگا کہ میں لکھنا چاہتا ہوں اور لکھ سکتا ہوں۔ اس لیے میں نے کاغذوں کا دستہ خریدا، اور لکھنے کا سامان اپنے میز پر سجایا۔ پھر میں نے قلم اٹھایا اور بہت سے گھنٹوں تک لکھتا رہا۔ یہاں تک کہ میری پیشانی پسینے سے بھیگ گئی، قلم تپنے لگا اور انگلیوں میں جلن ہونے لگی۔ مگر لکھ چکنے پر میں نے دیکھا کہ کاغذ پر صرف چیزوں کے نام ہیں۔ 

تو دراصل میں یہ لکھنا چاہتا تھا محض چیزوں کے نام۔ وہ تمام چیزیں جنھیں میں جانتا ہوں۔ جنہیں میں نے دیکھا ہے۔ جنہیں میں دیکھتا ہوں۔ اور اگر میں ان تمام چیزوں کے نام لکھ سکوں تو یقیناً سیکڑوں صفحے بھر جائیں گے۔ مجھے اپنے اس کام کے لیے فراغت کہاں ملتی ہے۔ دن بھر کوئی نہ کوئی میرے پاس موجود رہتا ہے۔ میری دیکھ بھال کو۔ مجھے دوا کھلانے کے لیے۔ حالانکہ میں نے سب سے کہہ دیا کہ میں دوا خود کھاؤں گا۔ میرے پاس گھڑی ہے جس میں سیکنڈوں کی سوئی بھی لگی ہے۔ پھر بھی یہ لوگ ہر دم میرے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں اور میں اپنی اس تصنیف کا راز کسی پر کھولنا نہیں چالتا۔ اس کی بھی ایک خاص وجہ ہے۔ میں نے اپنے ایک لکھنے والے دوست کو بس ذرا سا اشارہ ہی دیا تھا کہ مسلسل عبارت کوئی چیز نہیں۔ لکھنے والے کو صرف اسم جمع کرنا چاہئیں۔ ہر انسان کو الگ اسم ڈھونڈ کر یکجا کردینے چاہئیں۔ اور بس اس پر میرا وہ دوست ہنس دیا، ’’پھر تو ڈکشنریاں دنیا کا عظیم ترین ادب ہیں۔‘‘ 

اور اس کی نافہمی پرمجھے سخت مایوسی ہوئی تھی۔ ڈکشنری میں تو محض لفظ ہوتے ہیں۔ نام نہیں۔ نام دراصل چیزیں ہیں جو انسان کے ساتھ ہیں۔ اس کے اندر ہیں۔ اور خوف یہی ہے کہ مبادا انسان اپنے حصے کی ان چیزوں کے نام فراموش کرے۔ اس لیے ہر انسان کو اپنی چیزیں محفوظ کر لینی چاہئیں۔ مگر یہ سب کچھ میرا دوست نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے میں خاموش رہا۔ اور اب میں راتوں کو چوری چھپے اپنی تصنیف پر کام کرتا ہوں۔ مگر جوں جوں یہ نام کاغذ پرمحفوظ ہوتے جا رہے ہیں، میں انہیں بھولتا جا رہا ہوں۔ جیسے کوئی چیز میرے اندر سے نکل کر باہر آتی ہے۔ اور باہر آکر ختم ہوتی ہے۔ تو کیا میں چیزوں کو ختم کر رہا ہوں۔ اپنی جلد، اپنے لہو، اپنی ہڈیوں سے نوچ نوچ کر پھینک رہا ہوں؟ تو پھر چیزوں کو محفوظ کرنے، علم کو پانے، زندہ رکھنے کا اور کیا راستہ ہوگا؟ کہ ہم چیزوں کو پاکر انہیں مار ڈالتے ہیں۔ 

اسی لیے راتوں کو اکثر سوتے سوتے میں شعوری طور پر کچھ شکلیں اپنے سامنے لاتا ہوں اور پھر ان کے نام چسپاں کرتا ہوں۔ مگر بنا ناموں کے چیزوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور مجھے آدھی آدھی رات کو اپنی تصنیف کے ورق الٹنے پڑتے ہیں۔ اور ایسا کرنے میں مجھے اپنے گرد بسنے والے انسانوں سے سخت پر خاش ہوتی ہے۔ یہ لوگ نام اپنے سینے میں دبائے ہیں اور ناموں کی اس امانت کے بوجھ کا علم نہیں رکھتے اور اس لیے ان کے سینے سانسوں کے درمیان کشادگی اور فراغت کے ساتھ پھیلتے سکڑتے ہیں۔ 

کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے اپنی تصنیف سے میرا جی اکتا گیا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب مجھے اپنے اندر لمبے لمبے پنجوں اور سرسراتی شاخوں کی حرکت محسوس ہوتی ہے۔ اور میری شہ رگ میں پھنداسا لگ جاتا ہے۔ میرے جبڑے ڈھیلے پڑجاتے ہیں اور گندا لعاب منہ میں بھر آتا ہے، جو نہ ہی اندر جاتا ہے نہ ہی باہر اور اس کے ساتھ ہی میرا ذہن کچھ ایک جانب کو ڈھیلا پڑنے لگتا ہے۔ اس وقت مجھے اپنی تصنیف بے کار محسوس ہونے لگتی ہے۔ نہ صرف یہ تصنیف بلکہ ہر چیز کو۔ پنجے پھیلاتے اس ہزار پائے سے بڑھ کر کوئی نام کوئی چیز زندہ نہیں۔ یہ تمام ناموں، تمام لفظوں کا بڑھنا، پھیلنا۔ کاٹنا، نگلنا سچ ہے۔ یہ خود مفہوم ہے۔ مگر میری بیوی فوراً شیشی کھولتی ہے اور گولی نکالتی ہے، ’’لو جلدی کرو۔۔۔ دیکھو آدھ گھنٹہ اوپر ہوگیا۔‘‘ 

میں چاہتا ہوں کہ گولی نہ کھاؤں۔ مگر بولتے بولتے میری آواز بدل جاتی ہے اور کبھی کبھی تو میری آواز بھی مرجاتی ہے۔ ایسے میں مجھے ڈاکٹر جیکل اور مسٹر ہائیڈ کی کہانی یاد آجاتی ہے اور میں اپنے آپ کو اس بدلتے لمحے میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ مگر میں اکثر آئینے سے دور رہتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے کمرے میں کوئی آئینہ ہے ہی نہیں۔ اب ایک عرصے سے حجام میری شیو بناتا ہے اور جب غسل کے بعد میں آئینے کے سامنے بالوں میں کنگھی کرتاہوں ،اس وقت یہ بدلتا لمحہ موجود نہیں ہوتا۔ آخر ایک رات میں نے آئینہ اپنے پاس رکھا اور پھر اپنی تصنیف میں مصروف ہوگیا۔ مجھے لگتا ہے اب میرے تمام نام ختم ہوگئے ہیں۔ اب میں روز کے تین چار نام بھی نہیں لکھ سکتا اور قلم لے کر دیر تک بیٹھا رہتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک طرح سے ناموں کا خاتمہ ہو چکا ہے کیونکہ میں انہیں اپنے سے باہر لے آیا ہوں اور باہر آکر یہ لفظ بن گئے ہیں۔ اسی لیے میں اپنے آپ کو بالکل خالی محسوس کرتا ہوں۔ 

سوائے ان چند لمحوں کے جب میرے اندر جان بھری شاخیں پھیلتی، رگوں کو چوستی، کلبلاتی ہیں۔ تو اس رات میں قلم لے کر بیٹھا رہا۔ گھڑی کی سوئی ڈیڑھ پر پہنچنے والی تھی اور اس وقت الارم کو بجنا تھا۔ میری بیوی رات کو دو دو گھنٹے کا الارم لگا کر سوتی ہے اور مجھے دوا کھلاتی ہے۔ مگر آج میں نے ہاتھ بڑھا کر الارم کا بٹن بند کر دیا۔ پھر رفتہ رفتہ میرے جبڑے کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی اور اس کے ساتھ ہی میری آنکھوں کے پپوٹے نیچے گرنے لگے۔ میں نے مٹھیاں بھینچ کر اپنے دانت ملانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں پسینے سے تر ہوگیا۔ پھر میرے گلے اور سینے میں کسی چیز نے کروٹ لی۔ یہ وہی کیڑا ہے جو میرے اندر پل رہا ہے۔ اس کیڑے نے اپنے لمبے لمبے پنجے میری شہ رگ میں گاڑ دیے۔ مفہوم محض کا سیال اندھیرا سامنے امڈا۔ عین وقت پر میرے ہاتھ نے بڑھ کر آئینہ اٹھایا۔ اور اس آئینہ کو دیکھ کر مجھے ناموں کے بے فائدہ ہونے کا یقین آیا۔ 

میں خود اپنے ساتھ برسوں سے زندہ تھا اور اب تک محض نام سے اپنے آپ کو پہچانتا تھا۔ مگر یہ پہچان اوپری تھی۔ اس اوپری پہچان کے اندر ایک اور پہچان تھی۔ سخت چھلکے کے اندر بیج کا گودا اور اس گودے کی کوئی شکل نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ مگر پھر بھی اس کی ایک پہچان ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور بھک سے کچھ میری کنپٹیوں میں جل اٹھا۔ 

’’ارے، دو بج گئے۔‘‘ میری بیوی ہڑبڑا کر جاگ اٹھی۔ اور پانی کا گلاس میری میز پر لے آئی، ’’لو جلدی کرو، اتنی رات تک جاگ رہے ہو۔‘‘ 

’’ہاں۔‘‘ میں نےمرتی آوازمیں کہا، ’’دیکھو میرا جبڑا ٹیڑھا ہو رہا ہے۔‘‘ میں نے اپنی بیوی سے کہا اور میری بیوی نے تیزی سے منہ پھیر لیا۔ پھر دوپٹے سے چہرے کا پسینہ پونچھنے لگی مگر مجھے معلوم تھا وہ رو رہی ہے۔ 

’’نہیں۔ دوا کو دیر ہوگئی ہے اور کوئی بات نہیں۔‘‘ 

مگر اس روز کے بعد اپنی تصنیف سےمیرا دل بالکل اچاٹ ہوگیا۔ ہر چیز کے اوپر ایک خول چڑھا تھا اور خول کے اندر ایک گرم دھڑکتا گودا ایک ہزار پایہ تھا۔ ہر چیز شاخیں پھیلائے، رگیں مسلتے ہزار پاپے چھپائے تھی۔ نام کے بے جان خول کے اندر۔ اس لیے اب اکثر چیزوں کے نام میری یادداشت نے ٹکرا دیے۔ اب میں کم سےکم ناموں کے ساتھ رو رہا تھا۔ کبھی کبھی تو بہت ضروری چیزوں کے نام بھی میری زبان پر نہ آتے اور میرے بچے منہ پھیر کر آنسو پونچھتے اور پھر میرے سامنے مسکراتے اورخوش دلی سے باتیں کرتے۔ 

لہٰذا اب مجھے ناموں کا نہیں ٹھوس چیزوں کا خیال رہنے لگا۔ اصل وجود چیزوں کا اپنا تھا۔ ٹھوس چیزیں۔ اور ان چیزوں کو بِنا ناموں کے اپنی یادداشت میں لانا ضروری تھا۔ اس لیے میں نے گھر کی مختلف چیزوں کا جائزہ لینا شروع کیا۔ کبھی بیٹھے بٹھائے مجھے اپنا پرانا تمباکو پینے کا پائپ یاد آیا۔ میں سوتے سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اب ضروری تھا کہ میں اپنی اس چیز کو دیکھتا، چھوتا اور معلوم نہیں وہ برسوں سے کہاں رکھی تھی۔ میں نے اپنی بیوی کو جگایا اور اسے یاد دلایا کہ آج سے چھ سات برس پہلے جو پائپ میں پیتا تھا وہ کہاں ہے۔ میری بیوی نے آنسو بھری آواز میں کہا۔ سو جاؤ۔ سوجاؤ۔ مگر میں اصرار کرتا رہا اور اس بات پر حیران ہوتا رہا کہ میری بیوی کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرتے ہیں۔ میں اٹھ کر سارے گھر میں پائپ ڈھونڈتا رہا۔ صندوق، الماریاں، دراز۔ اور آخر وہ مجھے ردی کے کاغذوں کے بکس میں پڑا مل گیا۔ میں نے اسے دیکھا اور پھر وہیں ڈال دیا۔ اب مجھے معلوم تھا کہ وہ موجود ہے۔ اگر وہ نہ ہوتا تو پھر؟ یہ خیال ہی میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔ 

مگر رفتہ رفتہ مجھے خاص چیزوں کا خیال آنا بند ہوگیا۔ اب میں کسی چیز کی نہیں یونہی چیزوں کی تلاش میں رہنے لگا۔ چیزیں۔ بے شمار چیزیں۔ ایک روز میز کے دراز میں بہت سے کاغذوں، پنسلوں اور چھوٹے چھوٹے پرزوں تلے زرد زرد کاغذ میرے ہاتھ آئے۔ زرد کاغذ جن کے اندر سرمئی چکتے ایکس رے تھے، مجھے یاد آیا۔ کچھ مہینے پہلے میں نے یہ ایکسرے کروائے تھے۔ میں نے ان چکنے سرمئی کاغذوں کو روشنی کے سامنے رکھ دیا۔ گول گول پسلیوں کا خول۔ جس کے بیچوں بیچ کن کھجورے کی سی شاخ چلی جاتی تھی۔ اور ان پسلیوں کے اندر اندھیرا بھرا تھا۔ اور خالی پن۔ پھر خطرے کا نشان یاد دلاتی کھوپڑی۔ جس کے ساتھ وہی کن کھجورے کی سی شاخ چلی جاتی تھی اور چوکور جبڑے ماتھے میں کھدے گڑھے اور ان گڑھوں کے اندر اندھیرا بھرا تھا اور خالی پن۔ ان دونوں کاغذوں پر نیچے کونے میں ایک نام لکھا تھا جو میرا نام تھا۔ تب میں نے جلد میں ڈھکی اپنی پسلیوں اور بالوں میں ڈھکے اپنے سر کو دیکھا، محسوس کیا، پھر اس گول گول پسلیوں کے خول کو۔ اور وہ ہزار پایہ میرے اندر اپنے پاؤں پھیلا کر رینگنے لگا۔ میری رگوں کو مسلتا۔ اور مجھے یوں لگاوہ ہزار پایہ میری طرف منہ موڑ کر دیکھے گا اور کراہے گا۔ اور یہ مفہوم محض کا سیال اندھیرا ہوگا اٹل، پھیلنے والا، زندہ رہنے والا۔ ہر چیز کا اولین اور آخریں، واحد مفہوم۔ 

’’دیکھو، دراصل میں یہ ہوں۔‘‘ میں نے اپنی بیوی سے کہا اور سرمئی کاغذ اس کے سامنے پھیلا دیے۔ مگر وہ کچھ نہ سمجھ سکی۔ 

’’ہاں! اب تو یہ ایکس رے کام کے نہیں، کہیں ڈال دیجیے۔‘‘ اس وقت میں نے یہ جانا کہ یہ صرف میں نہیں۔ میری بیوی ہے اور بچے دوست آشنا اور سڑکوں، بستیوں اجاڑوں میں گھومنے والے سب انسان۔ اور تمام کا تمام وجود آخر میں اس کی کوئی پہچان نہیں۔ سوائے کونوں میں لکھے اس نام کے۔ اور نام جب آدمی سے باہر آجائے تو ختم ہوجاتا ہے۔ مگر نام کے ختم ہونے پر بھی ہر ایک کا الگ خالی پن ہے۔ یہ بہت سے خالی پن ہیں اور اپنے اندر ہم اپنے خالی پن کو پہچانتے ہیں۔ گو بظاہر ہماری نظر ہمیں اطمینان دلائے کہ ہماری کوئی پہچان نہیں۔ 

اس لیے اس کے بعد میری تمام تر توجہ اپنے اندر پلنے والے اس ہزار پایہ پر مرکوز ہوئی۔ میں اسے جاننا دیکھنا چاہتا تھا۔ مگر ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ کسی ایکسرے میں نہیں آسکتا کہ وہ ایک جان ہے۔ پھیلتی جبڑوں بھری۔ سرسراتی جان۔ ایک روز میں کاغذوں کا ایک پلندہ سامنے رکھے بیٹھا تھا جس پر بے شمار لفظ لکھے تھے مگر میں ان میں سے ایک لفظ کو بھی نہیں پہچانتا تھا کہ اچانک اس کلبلاتی جان نےمیرے اندر یوں پھیلنا شروع کر دیا کہ میں نے جانا گویا پھٹ جاؤں گا۔ کچھ میرے اندر پھیل رہا تھا۔ ہر ایک کا لہو چوستا۔ میں نے سانس سنبھالنے کی کوشش کی۔ اورمیری پیشانی سے ٹپ ٹپ پسینہ بہنے لگا۔ میری بیوی نے جلدی سے میرا منھ کھول کر دوا اندر رکھی۔ مگر میرے منہ میں زبان کی جگہ بے شمار سوئیاں بھری تھیں۔ دوا بھی ایک سوئی تھی کہ سب سوئیوں میں مل گئی۔ 

کوئی چیز میرے اندر بڑھ رہی تھی۔ پھیل رہی تھی۔ میری جلد پھٹنے کے قریب تھی۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ اب اس کراہ کا وقت آن پہنچا ہے۔ جو پہلا اور آخری لفظ، پہلی اور آخری آواز ہے۔ مگر میں نے ڈاکٹر کو کہتے سنا، ’’اس ہزار پائے کو ختم کر دو۔ اسے ہلاک کر دو۔‘‘ 

نہیں نہیں! میں نے کہنا چاہا۔ یہ زہریلا دھڑکتا گودا، یہ جڑوں بھرامیرے اندر، ہر مقام پر، میرے ہر مسام پر اور دنیا کے ہر لفظ پر حاوی ہے۔ میں نے کہنا چاہا۔ مگر مجھے یاد نہیں میں نے کیا کہا۔ کچھ کہا بھی یا نہیں کہ آواز مرچکی تھی۔ اور یہ اب مجھے لے جا رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں یہ مجھے لے جا رہے ہیں۔ کہیں باہر۔ ویرانے میں اندھیرے اور گھنے سناٹے میں۔ یہاں میرے ہزار پائے اس۔۔۔ پہلی اور آخری آواز، پہلے اور آخری لفظ کو ہلاک کردیا جائے گا۔ اندھیرے اور گھنے سناٹے میں۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں: