منزل منزل — اے۔ حمید

راجدہ نے کہا تھا میرے متعلق افسانہ مت لکھنا۔ میں بدنام ہوجاؤں گی۔ اس بات کو آج تیسرا سال ہے اور میں نے راجدہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا اور نہ ہی کبھی لکھوں گا۔ اگرچہ وہ زمانہ جو میں نے اس کی محبت میں بسر کیا، میری زندگی کا سنہری زمانہ تھا اور اس کا خیال مجھے ایک ایسے باغ کی یاد دلاتا ہے جہاں سدا بہار درختوں کی پرسکون چھاؤں میں سچے گلاب کے پھولوں کے جھاڑ مسکرا رہے ہوں اور جس کی کھلی اور آزاد روشوں پر خوشحال لوگ محو خرام ہوں۔ پھر بھی میں اس باغ کے متعلق کچھ نہیں کہوں گا۔ خواہ اس میں راجدہ کی بدنامی ہو یا نیک نامی۔ جب سے راجدہ جدا ہوئی ہے میں نے اس گلاب کے پھولوں اور کھلی روشوں والے باغ کے دروازے بند کردیے ہیں اور راجدہ کو مجھ سے جدا ہوئے آج تیسرا سال ہے۔ 

اس عرصہ میں راجدہ کو میں نے ایک پل کے لیے بھی نہیں دیکھا۔ اور شاید اس نے بھی مجھے نہ دیکھا ہو۔ ہم۔۔۔ جو ایک دوسرے کی پل بھر کی جدائی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ زندگی کے تین سال ایک دوسرے سے جدا رہ کر چپ چاپ بسر کر گیے ہیں۔ ان تین سالوں پر سے گزر کر پیچھے کی طرف جاتے ہوئے مجھے محسوس ہورہا ہے کہ میں جھڑے ہوئے پتوں والی ایک پژمردہ سڑک پر چل رہا ہوں جو قبرستان میں سے ہو کر گزرتی ہے۔ 

ان دنوں میں لاہور کے ایک اخبار کے دفتر میں ملازم تھا۔ گھر چونکہ امرتسر میں تھا لہٰذا شام کی گاڑی سے واپس اپنے گھر چلا جاتا تھا۔ اگرچہ لاہور میں بڑی آپا کا گھر تھا اور وہ لوگ میری اس ہر صبح سفر، ہر شام سفر ایسی زندگی پر مجھے اکثر ’’پالتو کلرک‘‘ کہا کرتے تھے۔ تاہم جو مزا اپنے گھر میں تھا وہ نہ بلخ میں تھا نہ بخارے میں۔۔۔علاوہ ازیں کہ میری عادت کہ میں امرتسری رنگریزوں کی طرح سال میں چھ مہینے کام کرتا ہوں۔ اور باقی چھ مہینے گھر بیٹھ کر ان دنوں کی کمائی کھاتا ہوں۔۔۔ ان اطوار کے پیش نظر اپنا گھر چھوڑنا عین حماقت تھی۔ 

لیکن راجدہ سے ملنے کے بعد میں نے امرتسر تقریبًا چھوڑ دیا۔ آج سے تین سال پہلے موسم گرما کی وہ ایک گرم اور چمکیلی شام تھی۔ میں ابھی ابھی گاڑی سے اترا تھا۔ مجھے حسب معمول بھوک لگ رہی تھی۔ تیز تیز قدم اٹھاتا، پرشور بازاروں اور دھندلی گلیوں میں سے گزرتا میں گھر کی سمت بڑھ رہا تھا۔ ابھی میں گھر کی سیڑھیوں میں ہی تھا کہ مجھے اوپر بھانجی کی آواز سنائی دی۔ بھانجی اور میں ہم عمر تھےاور ایک ساتھ کھیلے اور بڑھے ہوئے تھے۔ وہ کافی دنوں کے بعد اپنی نانی کے گھر آئی تھی اور میں اس سے بڑے آرام سے ملنا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں سیدھا اپنے کمرے میں گھس گیا۔ کپڑے اتارے، ٹھنڈے پانی سے غسل کیا اور کپڑے بدلنے لگا۔ بھانجی چھوٹے بھائی سے کسی نئی فلم کی ہیروئن کے بارے میں گرما گرم بحث کر رہی تھی۔ اس کے خیال میں ہیروئن ہیرو سے زیادہ خوبصورت تھی۔ مگر چھوٹا بھائی کہتا تھاکہ ہیروئن کی آنکھیں بھینگی ہونے کے علاوہ اس کے مونچھیں بھی تھیں۔ اس لیے وہ کسی طرح بھی خوب صورت نہیں کہلائی جاسکتی۔ 

کپڑے بدل کر میں صحن میں آگیا۔ بھانجی مجھے دیکھتے ہی اچھل پڑی۔ میں بھی تقریباً اچھل پڑا۔ سب قہقہے مار کر ہنسنے لگے۔ وہاں شور مچ گیا۔ جس میں میرے اور بھانجی کے قہقہوں کی آواز نمایاں تھی۔ یونہی میری نظر چق کے پیچھے، صحن کے دوسرے آدھے حصے پر پڑی، وہاں بھانجی کی نند عظمی بیٹھی ہمارے قہقہوں میں دلچسپی لے رہی تھی۔ 

’’تو گویا آپ بھی ہیں؟‘‘ 

اور میں چق اٹھا کر تیزی سے اس کے پاس پہنچ گیا۔ عظمی کے ساتھ ایک اور لڑکی بیٹھی تھی جسے میں نے بالکل نہ دیکھا اور جس نے مجھے دیکھ کر منہ جلدی سے دوسری طرف پھیر لیا۔ میں ذرا ٹھٹک گیا۔ اتنے میں بھانجی بھی آگئی اور اس لڑکی کو مجھ سے پردا کرتے دیکھ کر بول اٹھی، ’’حد ہوگئی۔بھلا ماموں سے کیا پردا؟‘‘ 

’’ہاں بھئی، بھلا یہ بھی کوئی پردے کا موقع ہے۔‘‘ عظمی نے اس لڑکی کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔ اس دوران میں وہ لڑکی شرم سے سکڑی جارہی تھی اور اس کے کانوں کی لویں سرخ ہو رہی تھیں۔ میں عظمی اور بھانجی سے باتیں کر رہا تھا۔ باتیں کرتے ہوئے میں نے دو تین بار نظریں بچا کر اس لڑکی کو دیکھا۔ باریک ہونٹ، ستواں ناک، جھالریں اور پلکیں اور ہلکا گلابی رنگ۔ چپ چاپ بے زبان جیسے موم بتی۔۔۔ یہ تھی راجدہ۔ 

اس سے پہلے میں نے راجدہ کو کہیں اور نہیں دیکھا تھا۔ بھانجی نے بتایا وہ عظمی کے سسرال سے ہے اور میں نے سوچا اگر وہ عظمی کے سسرال سے نہ ہوتی تو مجھے کہاں ملتی؟ ویسے راجدہ کا مجھ سے ملنا ناگزیر تھا۔ یہ میں اب سوچتا ہوں۔ شام کے کھانے کے بعد سیر کا پروگرام بن گیا اور ہم سب کمپنی باغ کی طرف چل پڑے۔ 

باغ ابھی فاصلے پر تھا کہ شام کے ٹھنڈے سائے ماند پڑگیے اور مرطوب ہوا کے نیم جھونکے ہمارے جسموں میں چھوتےباغ میں داخل ہوتے ہی ہم نے چنبیلی اور مولسری کے پھولوں اور ایسی مٹی کی خوشبو سونگھی جسے نہر کے پانی سے سیراب کیا گیا ہو اور جہاں سے سارا دن تیز دھوپ میں گرم بخارات اٹھتے رہے ہوں۔ شہرکی نسبت یہاں کی فضا آزاد اور مرطوب تھی۔ گرم ہوا بڑی نرمی سے چل رہی تھی اور گھنے درختوں کی گہری سبز شاخیں بے معلوم انداز میں ہل رہی تھیں۔۔۔سڑک پر چھڑکاؤ کیا ہوا تھا اور بجلی کے پرانے لیمپوں کی زرد روشنی میں وہاں سے نظر آنے والی بھاپ سی خارج ہو رہی تھی۔ پسینوں پر پسینے آرہے تھے اور عورتیں برقعوں سے پریشان ہو رہی تھیں۔ پردہ کلب کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے اپنے برقعے اس پھرتی سے اتارے جیسے ان میں خطرناک بیماریوں کے جراثیم پیدا ہوگیے ہوں اور لپک کر کلب میں داخل ہوگئیں۔ اندر چاروں طرف پردہ ہی پردہ تھا اور کلب کا کہیں نشان تک نہیں تھا۔ گھاس کے معمولی سے خطے کے عین وسط میں آم کا ایک درخت تھا۔ جس کے پاؤں میں ایک دو شکستہ بنچ پڑے تھے۔ اور دوسری طرف دو پینگیں لٹک رہی تھی۔ عورتوں کو یہاں صرف دو چیزیں کھینچ لاتی تھی۔ پہلی چیز کلب کی پینگیں اور دوسری برقعہ سے نجات۔ 

میں کلب کے باہربوڑھے پہریدار کے مصلے پر بیٹھ گیا اور اس سے وضو کے فوائد اور نماز کی برکتوں پر لکچر سنتا رہا۔ وہ تسبیح پھیرتے ہوئے باتیں کررہا تھا اور میں بڑی توجہ سے اسے تک رہا تھا۔ دراصل میں اسے نہیں بلکہ دوڑتے ہوئے سپید سپید پاؤں اور پھڑ پھڑاتی شلواروں کو تک رہا تھا۔ جو بوڑھے کی گردن کے پیچھے سے مجھے جھاڑیوں کے عقب میں صاف دکھائی دے رہی تھی۔ 

کافی دیر بعد بھانجی، عظمی، ساجدہ، ماں اور چھوٹی بہنیں اور بچے باہر نکلے۔ ان سب کی سانس پھولی ہوئی تھی اور ان کے جسموں سے گرم گرم پسینے کی تیزبو اٹھ رہی تھی۔ پردہ کلب سے ذرا آگے جاکر سپید گنبد والا ریڈیو اچانک شروع ہوگیا۔ اور نور جہاں کی تیز آواز ساری کمپنی باغ میں پھیل گئی۔ 

۔۔۔آ رات جا رہی ہے۔۔۔ 

ہم لوگ گنبد کے دائیں طرف والے نیے پلاٹ میں داخل ہوگیے۔ جہاں سرخ اینٹوں والی چمکیلی روشوں اور سرخ اور زرد گلاب کے پھولوں کی بیلیں سائے کئے ہوئے تھیں اور نیچے پلاٹ میں پانی دیا ہوا تھا۔ میں عظمی اور اماں ایک سنگین نشست پر بیٹھ گیے اور نور جہاں کا گانا سننے لگے۔ یہ جگہ ایک لمبے اور گنجان درخت کی اوٹ میں تھی اورقریب جھاڑیوں میں جگنو چمک رہے تھے۔ اماں بڑے غور سے گانا سن رہی تھیں۔ 

یہ بے بی نور جہاں ہے، اماں نے عظمی سے کہا۔ جس نے شاید ہی کوئی بدھوار کا زنانہ شو چھوڑا تھا۔ دوسرے لوگ پلاٹ کی روشوں پر آزادی اور مسرت کے ساتھ دوڑ رہے تھے۔ ان کی ایک دوسرے کوپکارنے کی آوازیں باغ کی گرم اور کھلی فضا میں گونج رہی تھیں۔ راجدہ دیکھ کر چلنا کہیں کانٹا نہ چبھ جائے۔ یہ آواز بھانجی کی تھی۔ میں نے پہلو بچا کر دیکھا۔ راجدہ دونوں ہاتھوں سے ساٹن کی سفید شلوار کے پائنچے اٹھائے پلاٹ کے پانی میں چل رہی تھی۔ 

’’اوئی پانی بڑا ٹھنڈا ہے۔ تم بھی آجاؤ، میں بھی آجاؤں؟ مگر کیسے؟‘‘ لیکن راجدہ نے بھانجی کو بلایا تھا۔ جو تھوڑی دیر بعد پانی میں اتر گئی اور بچوں نے بھی بڑوں کا ساتھ دیا۔ پانی گدلا تھا اور اس کی سطح پر زرد زرد گھاس اور سوکھی ٹہنیوں کے ٹکڑے تیر رہے تھے اور جو بچوں کے گھٹنے تک آتا تھا۔ بچے ہاتھوں سے پانی کے چھینٹے اڑاتے، شور مچاتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے—ان میں میری چھوٹی بہنیں بھی تھیں اور چھوٹے بھائی بھی۔ بھانجی راجدہ کو چھونے کی کوشش کر رہی تھی اور راجدہ ایک تتلی کی مانند پھرتی سے بھاگتی ہوئی کبھی ایک پودے کا چکر لگاتی اور کبھی لپک کر دوسری طرف نکل جاتی۔ میرا دل بھی پانی میں اترنے کو چاہا۔ مگر امی کو دیکھتے ہوئے ہمت نہ پڑی۔ آخر میں عظمی سے کہا،’’بھابی بھلا تم کیوں بیٹھی ہو۔ چلو پانی میں۔‘‘ 

’’نا بابا میرے پائنچوں کی کلف اتر جائے گی اور میں ایک ہی شلوار ساتھ لائی ہوئی۔‘‘ 

جب یہ لوگ تھک گیے تو شلواریں قمیص جھاڑتے پانی سے باہر نکل آئے۔ بچوں نے تو سارے کپڑے پانی میں بھگوڈالے تھے۔ راجدہ کے بال کھل گیے تھے۔ جنہیں وہ لاپرواہی سے پیچھے ڈالے ہوئی تھی اور اس کی پیشانی اور مونچھوں والی جگہ پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے سڑک والے لیمپ کی روشنی میں جھلملا رہے تھے۔ اتفاق سے میں راجدہ کے قریب کھڑا تھا اور راجدہ نے کئی بار مجھے ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے اسے گلہ ہو کہ میں عظمی کے پاس کیوں بیٹھا رہا اور پانی میں کیوں نہیں اترا۔ جب وہ سینڈل کے تسمے باندھنے کے لیے جھکی تو ساکت فضا میں نرم ہوا کی لہریں سی پیدا ہوئیں اور میں نے راجدہ کے پسینے میں ملی ہوئی حنا کی گرم اور خوشگوار خوشبو سونگھی۔ جب ہم باغ سے نکلے تو ہوا بڑے پیارے انداز میں چلنے لگی۔ 

سڑک کے کنارے والے درختوں کی خاموش گپھاؤں میں بے معلوم سرگوشیاں سی ہونے لگیں۔ گرمیوں کی رات کے گہرے نیلے آسمان پر ستاروں کے چمکیلے پھول جابجا کھلے ہوئے تھے اور کمپنی باغ جہاں سے ریڈیو کی آواز ابھی تک آرہی تھی، ہمارے پیچھے رہ گیا تھا۔ عظمی اور اماں آگے آگے تھیں۔ راجدہ اور بھانجی ان کے پیچھے اور میں ذرا پرے ہٹ کر بچوں کو لیے چل رہا تھا۔ راجدہ قدرے اونچی آواز میں بھانجی سے ہمکلام تھی، ’’سچ میں تو ایسی راتیں باغوں ہی میں گزارنا چاہتی ہوں۔ بس پائیچے اٹھائے پانی میں گھومتی پھرتی رہوں اور جب تھک جاؤں تو گلاب کی پھولوں بھری بیلوں کے سایہ میں ٹھنڈے بنچ پر سوجاؤں۔ خدا کی قسم گرمیوں میں گھروں اور گلیوں میں میرا دل گھبراتا ہے۔‘‘ 

وہ بڑی بے باکی سے اپنی خواہشات کا اظہار کر رہی تھی اور میں اس سو چ میں تھا کہ یہ وہی راجدہ ہے جو عظمی کے ساتھ چق کی اوٹ میں بیٹھی تھی اور جس نے مجھے دیکھ کر پردہ کر لیا تھا۔ 

دوسرے دن شام کے وقت پھر سیر کی تیاری ہونے لگی۔ اس روز میرا پروگرام راجدہ کو کرسٹل میں آئس کریم کھلانے کا تھا۔ چنانچہ صبح ہی کو میں نے اپنی ایک ڈکشنری بیچ ڈالی تھی، جس کے عوض مجھے چھ روپے بارہ آنے ملے تھے۔ یہ رقم چھ سات لوگوں کو آئس کریم کھلانے کے لئے کافی تھی۔ سیر کے بعد میں ان سبھوں کوکرسٹل لے آیا۔ کرسٹل کے ایک کیبن میں سوائے میرے اور ایک چھوٹے بھائی کے باقی سب لوگ بیٹھ گیے۔ ہم کرسٹل کے ہال کمرے میں بیٹھ گئے۔ جہاں میں بیٹھا تھا وہاں سے مجھے راجدہ کی شکل اچھی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ وہی باریک ہونٹ، خوب صورت، ستواں ناک، لمبی پلکوں کے پرسکون سایوں والی آنکھیں جو بڑی نرمی اور محبت سے ایک منظر سے دوسرے منظر کی طرف گھومنے کی عادی تھیں۔ ماتھے کے اوپر سر کے سیاہ بالوں کی ابھری ہوئی دو پہاڑیاں اور ان کے درمیان میں بہتی ہوئی مانگ کی دودھیا نہر۔۔۔ کرسٹل کے لیڈیز کیبن کے شیشوں میں سے راجدہ نے پہلی مرتبہ مجھے ہمدردی اور محبت کی پاک اور بے لوث نظروں سے دیکھا اور میرے دل میں اس کی عزت اور توقیر اور بڑھ گئی۔ جیسے اس نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہو۔ راجدہ کی نظریں طلوع ہوتے ہوئے سورج کی اولیں نرم اور پاکیزہ کرنیں تھیں، جو نیند میں شرابور پھولوں کے لیے پیغام بیداری لے کر آتی ہیں۔ 

کرسٹل سے نکل کر ہم لوگ گھر کی طرف جارہےتھے۔ ایک جگہ بازار میں اندھیرا سا تھا اور لوگ نسبتاً کم آجارہے تھے۔ راجدہ نے نقاب اٹھا کر پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا۔ سیاہ نقاب میں اس کا صندلی خوبصورت چہرہ۔۔۔ جیسے رات کی تاریکی میں کسی خانقاہ کا کھلا اور روشن طاق۔ جہاں موم بتیاں جل رہی ہوں۔ (دراصل راجدہ کو پہلی بار دیکھنے پر جو خیال سب سے پہلے میرے ذہن میں آیا تھا وہ محض ایک موم بتی کا خیال تھا۔۔۔ موم بتی۔ خاموش اور بے زبان) میرے ساتھ چونکہ بچے بھی تھے۔ چنانچہ لازمی طور پر سب سے پیچھے تھا۔ راجدہ بھی ہولے ہولےپیچھے آتی گئی۔ قریب پہنچ کر اس نے بچوں کو تیز چلنے کو کہا اور مجھے دیکھ کر بولی،’’آپ بھی بچے ہیں کیا؟‘‘ اور اتنا کہہ کر جلدی سے آگے نکل گئی۔ میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ 

اس رات خواب میں راجدہ کو میں تمام کمپنی باغ کی سیر کرواتا رہا اور کرسٹل میں آئس کریم کھلاتا رہا۔ دوسرے دن دوپہر کے کھانے کے بعد کیرم بورڈ کھیلتے ہوئے سنیما کا پروگرام بن گیا۔ فلم تھی ’’من کی جیت‘‘ جو مجھے بیحد پسند تھی اور میں چاہتا تھا کہ راجدہ بھی اسے دیکھے۔ دعوت بھی میں نے دے ڈالی اور پھر اس سوچ میں پڑ گیا کہ ٹکٹوں کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ الف لیلیٰ، قصہ حاتم طائی کی با تصویر اور محبت بھرے خطوط، بہشتی زیور اور جنت کی کنجی بیچنے گیا۔ مگر کسی دوکان دار نے یہ کتابیں نہ خریدیں۔۔۔ اسی سے کچھ روپیہ ادھار مانگے لیکن اس نے صاف انکار کردیا۔ کیونکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ تنخواہ ملنے کے بعد میں دو تین دن تک امرتسر نہیں آیا کرتا۔ نہ معلوم راجدہ میری اس ذہنی پریشانی کو کس طرح بھانپ گئی۔ چنانچہ اس نے اعلان کردیا کہ فلم ہم سبھی دیکھیں گے۔ مگر اس شرط پر کی ٹکٹیں اپنی اپنی لینی پڑیں گی۔ اس پر میں نے بڑی مخالفت کی۔ دل میں ڈرتے ہوئے کہ کہیں میری مخالفت کامیاب ہوگئی تو پھر کیا ہوگا مگر خیریت گزری کہ راجدہ کی اسکیم باتفاق رائے پاس ہوگئی اور سنیما کی تیاریاں ہونے لگیں۔ 

نہایا گیا۔ کپڑے بدلے گیے۔ جوتے پالش ہوئے۔ امی نے پان کے ٹکڑوں سے ڈبیا بھرلی۔ بھانجی نے حنا کی ساری شیشی اپنے کپڑوں پر انڈیل لی اور اس کی تیز خوشبو سے دماغ چکرانے لگا۔ ایک طرف راجدہ بال بنا رہی تھی۔ عظمی نے استری گرم کر رکھی تھی اور تین چار رومال آگے ڈالے انہیں نم کر رہی تھی۔ میں نے کہا، ’’بھابی تم نے اچھا کیا جو تین چار رومال رکھ لیے۔ فلم میں کئی بار آنسو نکل آتے ہیں۔‘‘ عظمی بھابی مسکرانے لگی۔ اور راجدہ نے بھانجی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا، 

’’ہمیں رونا نہیں آتا۔‘‘ اور میں بے اختیار کہہ اٹھا، ’’خدا نہ کرے کہ رونا آئے۔‘‘ اور عظمی نے زیر لب ہنس کر پوچھا، ’’راجدہ کا بڑا خیال ہے۔‘‘ راجدہ شرم سے ڈوب سی گئی۔ میں خود بات کر کے پشیمان ہو رہا تھا۔ بھانجی نے پلٹ کر عظمی کی طرف دیکھا جو رومال استری کر رہی تھی اور جس کے ہونٹوں پر اس کے ناک سے زیادہ پتلی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اور ہنس کر بدستور سوٹ کیس میں سے کچھ نکالنے لگی۔ 

سنیما ہال میں انٹرول کے وقت میں نے عظمی سے فلم کے بارے میں اس کی رائےپوچھی جس پر وہ شرما سی گئی۔ شاید اسے ستارہ ٹوٹنے والے استعارےکا خیال آگیا تھا۔ جس کے فوراً ہی بعد انٹرول ہوجاتا ہے۔ راجدہ اور بھانجی، امی کے دائیں بائیں بیٹھی تھیں اور ان سے پان لے کر کھا رہی تھیں۔ میں اٹھا اور پان خریدنے کے لیے باہر بازار میں آگیا۔ پان میں نے علیحدہ علیحدہ بندھوائے۔ اس طرح مجھے یقین تھا کہ راجدہ کو بھی میں خود پان پیش کرسکوں گا۔ پان لیے جب میں بکس میں داخل ہوا تو فلم شروع ہو چکی تھی۔ اندھیرے اور فلم کی ہلکی روشنی میں مجھے ان لوگوں کے صرف سر ہی دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے ایک ایک کر کے سب کو پان پیش کردیے اور جب راجدہ کی باری آئی تو میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔۔۔ اف توبہ۔۔۔ اس کا ہاتھ کس قدر سرد ہورہا تھا جیسے میں نے برف سے لدے ہوئے گلاب کے پھولوں پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔ اس کے ہاتھ میں اس کے حصے کا پان ویسا ہی پڑا تھا اور میں اس کے دل کی تیز دھڑکن اچھی طرح محسوس کررہا تھا۔ میں نے ہاتھ کھینچ لیا اور باقی وقت ہال میں بیٹھا راجدہ کے ہاتھ کی نرمی اور سردی کو اپنے جسم میں پھیلتے محسوس کرتا رہا۔ فلم ختم ہوگئی اور ہم گھر آگیے۔ رات بھر راجدہ کے ہاتھ کا سرد لمس مجھ پر دھندلے بادل کے ٹکڑے کی مانند سایہ فگن رہا اور میں نے اسی خیال میں رات گزار دی۔ 

صبح اتوار تھی۔دوپہر کے وقت بھانجی نے ڈھولک بجانے کا پروگرام پیش کردیا، جسے بچوں اور چھوٹی بہنوں نے ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔تھوڑے ہی وقفہ کے بعد کہیں سے کسی ہوئی تیز اور گھمک دار ڈھولک بھی آگئی اور بچے الٹے سیدھے ہاتھ مارنے اور بے سری الاپنے لگے۔ بالآخر بھانجی آگے بڑھی اور ڈھولک ایک جچی تلی تال پر دھمکنے لگی۔ دو تین منٹ تک لگاتار خالی ڈھولک ہی دھمکتی رہی اور کسی کے گانے کی آواز نہ آئی۔ بھانجی تھم گئی اور چمک کر بولی۔ ’’بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔۔ گاتی کیوں نہیں؟‘‘ راجدہ نے شرما کر منہ پھیر لیا اور بھابی عظمی ہنسنے لگی اور بھانجی کو غصہ آگیا۔ اس کا گول گول منہ لال ہوگیا اور بھویں سکڑ گئیں۔ اس نے ایک ہاتھ زور سے ڈھولک پر مارا اور گانا شروع کردیا۔ 

اساں گو بھی تڑکی اے۔ 

ادھی راتیں دیر آیا۔۔۔ گر گابی کھرکی اے۔ 

اس نے ڈھولک کی تھاپ کے درمیان ہی تیز آواز میں کہا، ’’بھئی یہ تو بڑی بری بات ہے گاؤنا سب ، آخر یہ منگوائی کس لیے ہے؟‘‘ چنانچہ بھابی عظمی نے منہ پکا بنا کر گلا صاف کیا اور بول اٹھالیے اس کی آواز نرم اور لوچدار تھی۔ 

پیا جھرمٹ بدلاں وا 

روداں رات دنے۔۔۔ اے وچھوڑ سجنا دا 

اب راجدہ کی باری آئی۔ اس نے گردن نیچی کر لی۔ عظمی اور بھانجی اور بچے ہنسنے لگے۔ اتنے میں ایک نرم اور نکھری ہوئی آواز ڈھولک کی تھاپ کے ساتھ اوپر اٹھی۔ شعلے کی طرح بے چین، مضطرب اور زخم خوردہ۔ 

دوپترا ناراں دے 

ساڈا دکھ سن سن کے ۔۔۔ روند پتھر پہاڑاں دے۔ 

اور میرے ذہن میں ایک تصویر کھنچ گئی۔ جیسے کوہ بندھیا چل کے گھنے اور تاریک جنگلات میں موسلا دھار بارش ہو رہی ہے اور تیز رفتار پہاڑی نالے نشیب کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ تصویر کچھ غلط تھی۔ پھر ایک اور تصویر سامنے آئی۔ سادہ مگر سوگوار سی۔ جیسے شام کا گیت۔ سنسان پہاڑیوں پر رم جھم رم جھم۔ مدھم بارش میں غمگین موسیقی اور ادھر ادھرپتھروں کو سیاہ اور چکنی سلوں پر سے رک رک کر، ٹھہر ٹھہر کر پھسلتے ہوئے بارش کے موتی۔۔۔ پتھروں کے آنسو۔ 

روندے پتھر پہاڑاں رے۔۔۔ 

ڈھولک تھم گئی۔ شعلہ بجھ گیا مگر سنسان اور گمنام پہاڑوں کے آنسو رک رک کر ٹھہر ٹھہر کر بدستور گر رہے تھے۔۔۔ اور میں ان سے پوچھنا چاہتا تھا تم کس کی یاد میں آنسو بہارہے ہو؟ میں راجدہ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ راجدہ تمہیں وہ کون دکھ ہے جسے سن کر پہاڑ بھی رونے لگے؟ 

میں راجدہ سے پوچھنے کے لیےآگے بڑھا اور راجدہ امرتسر کے اسٹیشن پر پلیٹ فارم نمبر 4 پر بھانجی اور عظمی کے ہمراہ لاہور جانے والی گاڑی میں سوار ہوگئی۔ اس کی آنکھیں سوگوار سی تھیں۔ گھنی پلکوں کی پرسکون چھاؤں میں کہیں کہیں مدھم اور اداس دھوپ کی چمک تھی۔ گاڑی چل پڑی۔ پلیٹ فارم پیچھے اور گاڑی آگے کھسکنے لگی۔ راجدہ نے آخری بار مجھے دیکھا۔ اس کی نگاہیں کہہ رہی تھیں۔ ہمارے گھر ضرور آنا۔گاڑی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی اور میں اسٹیشن پر ادھر ادھر پھرتا رہا۔ مجھے واپس گھر جاتے ہوئے ایک قسم کی جھجک سی محسوس ہو رہی تھی جیسے وہ میرا گھر نہ ہو۔ 

اسٹیشن سے نکل کر میں سیدھا کرسٹل چلا آیا اور کافی دیر وہیں بیٹھا رہا۔ جب شام ہوگئی تو میں اٹھا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ گلی اور بازار میں کافی رونق تھی۔ پر مجھے ہر شے اجنبی اور بے محل سی لگ رہی تھی۔ گھر پہنچ کر میں نے کسی سے بات نہ کی اور کھانا کھا کر خاموشی سے لیٹ گیا۔ صبح اٹھا اور نوکری پر لاہور چلا آیا۔ 

لاہور پہنچتے ہی مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں کئی سال سمندر پار بسر کرنے کے بعد پہلی مرتبہ اپنے وطن میں داخل ہو رہا ہوں۔ سڑکوں پر لوگوں کے چہرے مہربان اور مانوس معلوم ہو رہے تھے۔ جیسے ان کے دل میری دوستی اور ہمدردی سے لبریز ہوں۔ دفتر سے نکل کر میں نے کئی بار راجدہ کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ مگر یہ خیال کہ اتنی جلد ہی وہاں چلے جانا مناسب نہیں، ہر بار مجھے روک دیتا۔ 

ایک روز بڑی آپا کو لاہور اچانک کوئی کام پڑ گیا۔ وہ میرے ساتھ لاہور آئیں اور میں انھیں راجدہ کے گھر لے گیا۔ میں راجدہ کے گھر پہلی مرتبہ داخل ہو رہا تھا وہ گھر۔۔۔ جو بعد ازاں میرے دل پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔ عظمی اور راجدہ ہمیں مکان کی ڈیوڑھی ہی میں مل گئیں۔ وہ دونوں ایک بڑھیا سے جانے کیا خرید رہی تھیں اور مجھے اور آپا کو اپنے بالمقابل دیکھ کر وہ سب کچھ بھول گئیں اور حیرت اور خوشی سے ان کے چھوٹے سے لب کھلے کے کھلے رہ گیے۔ راجدہ کے بال کھلے تھے۔ شاید وہ نہانے کی تیاری میں تھی۔ وہ ہم دونوں کو جلدی سے اوپر لے گئی اور ہم درمیانی منزل میں پہنچ کر بیٹھ گیے۔ بھابی عظمی نے پنکھا چھوڑ دیا۔ 

یہ کمرہ ہر قسم کے گھریلو سامان سے بھرا ہوا تھا۔ ایک طرف شیشوں کی قد آدم الماریوں میں چینی کے برتن سجے تھے۔ دوسری طرف لمبے چوڑے خوب صورت پلنگ پر ریشمی تکیے اور سوتی کی سفید چادر پڑی تھی۔ نعمت خانے کے قریب میز پر ریڈیو رکھا ہوا تھا۔ آدھے فرش پر مٹیالے رنگ کا ایرانی قالین بچھا ہوا تھا۔ سنگھار میز کے گول آئینے پر جالی دار ریشمی پردہ لٹک رہا تھا۔ ایک طرف کوئی اور پاونڈز اور پیرس کی شام کی مختلف سائز کی شیشیاں پڑی تھیں۔ کارنس پر دونوں طرف پتلی اور لمبی گردن والے پھول دانوں میں گلاب کے پھول مسکرا رہے تھے۔ قریب ہی ایک چمکیلا سگریٹ کیس اور ماچس اور کچھ کتابیں پڑی تھیں۔ کارنس کے اوپر خوب صورت فریم میں سجی ہوئی ایک رنگین تصویر لٹک رہی تھی۔ 

یہ قدیم ایرانی تمدن کا ایک منظر تھا۔ شہر کا محراب دارپرانا دروازہ۔۔۔ اس میں سے نکلتے اور داخل ہوتے لمبے چغوں اور عمامے والے لوگ۔۔۔دروازے کے بائیں سمت جالی دار جھروکوں والے مکان کے پیچھے اوپر کو اٹھتےہوئے مسجد کے دودھیا مینار اور ان کے عقب میں نیلے آسمان پر سفید کبوتروں کی ٹولیاں۔مجھے یہ تصویر بے حد اچھی لگی۔ راجدہ اندر داخل ہوئی۔ اس نے جلدی سے ایک تپائی ہمارے آگے رکھی اور باہر نکل گئی۔ 

پھرعظمی آئی اور اس کے چھوٹے چھوٹے خوب صورت ہاتھوں میں اخروٹ کی لکڑی کا ایک ٹرے تھا۔ جس میں جھاگ دار و مٹو سے لبالب بھرے ہوئے دو گلاس رکھے ہوئے تھے۔ آپا نے کہا۔ آخر اس تکلف کی کیا ضرورت تھی۔ مگر میں خاموشی سے و مٹو پینے لگا۔ کیونکہ مجھے سخت پیاس لگ رہی تھی۔ 

تھوڑی دیر بعد راجدہ کی ادھیڑ عمر پتلی دبلی بے زبان سی ماں اور دوسری بھابی اختر بھی آ گئیں۔ وہ ہم سے خندہ پیشانی سے ملیں اور آپا کے پاس بیٹھی باتیں کرنے لگیں۔ ان کی باتیں لاہور کی گرمی، پیراشوٹ کی کلیوں، ریل کی دقتوں اور قمیصوں کے نت نئے نمونوں کے متعلق تھیں جن سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ پھر بھی ان کی آوازیں مجھے بہت خوش گوار محسوس ہو رہی تھیں۔ راجدہ بھی ایک طرف بیٹھی گفتگو میں شامل تھی۔ اس وقت گھر کی ہر چیز دیا سلائی کی ڈبی سے لے کر راجدہ کے کھلے بالوں تک، مجھے اپنی محسوس ہو رہی تھی جیسے یہ گھر میرا ہو۔ اس گھر میں میں نے پہلی مرتبہ کھلے آسمان اور چمکیلی دھوپ کو دیکھا ہو۔ اور اسی ایرانی قالین پر میں نے لڑھک لڑھک کر چلنا سیکھا ہو۔ اور اسی گھر کے باہر نیم روشن ٹھنڈی گلیوں میں، چالاک بچوں کی منڈلیوں میں میں نے اپنا بچپنا گزارہ ہو۔ یہ اجنبی اور مہربان خیال مجھے راجدہ کے اور قریب لے گیا۔ 

پھر راجدہ کے دونوں بھائی آگیے۔ ہنس مکھ اور دوست نواز۔ میں ان سے اٹھ کر ملا اور ہم دیوان خانے میں چلے آئے۔ یہ لمبا اور کھلا کمرہ اوپر کی نسبت زیادہ سرد اور پرسکون تھا۔ یہاں سوائے ایک بڑی الماری، زمین پر بچھی ہوئی دری اور میز کے علاوہ تین چار آرام کرسیوں اور آتش دان کی کارنس پر رکھی ہوئی قائد اعظم کی رنگین تصویر کے اور کچھ نہ تھا۔ مجھے اس کمرے کی سادگی اور خنکی بے حد تسکین بخش محسوس ہوئی۔ ہم کچھ دیر تک وہاں بیٹھے۔ نئی فلموں کے گانوں، تاش کے کھیلوں اور لیگ پارٹی کی خدمات پر باتیں کرتے اور سگریٹ پیتے رہے۔ اس دوران میں مجھے اوپر سے راجدہ کی تیز اور بے ساختہ قہقہوں کی صحت مند آواز کئی بار سنائی دی۔ ساڑھے بارہ بجے دوپہر کی مجلس کا گجربجا تو ہم اوپر چلے گیے۔ راجدہ خود ریڈیو لگا رہی تھی۔ پہلا ریکارڈ شروع ہوا۔ 

من کا ہے گھبرائے۔۔۔ 

اور راجدہ نے کنکھیوں سے پل بھر کے لیے مجھے دیکھا اور مجھے سنیما ہال والی وہ رات یاد آگئی۔ جب پان پیش کرتے وقت میں نے اس کا نرم اور سرد ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ گانے کی دھیمی اور دلنواز سریں کمرے کی پرسکون اور خوشبوؤں بھری فضا میں تیر رہی تھیں۔ اور راجدہ سب کی نظریں بچا کر میری طرف دیکھ لیتی تھی۔ اس کی نگاہوں میں چاندنی کی نرم خنکی اور بہار کی اولین صبح کا اجلاپن تھا۔ اس کمرے میں بیٹھے بیٹھے مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے میں اکھڑ اجڈ لوگوں سے بھری ہوئی کسی پرشور ریل گاڑی سے نکل کرنرم دل گارڈ کے ڈبے میں آن بیٹھا ہوں اور میں شام تک گارڈ کے ڈبے میں بیٹھا رہا اور اگر آپا چلنے کو تیار نہ ہوتیں تو شاید میں تمام عمر اس ڈبے میں بیٹھا سفر کرتا رہتا۔ اسٹیشن پر اسٹیشن گزرتے جاتے۔ منزلوں پر منزلیں آتیں۔ اور میرا اسٹیشن کبھی نہ آتا۔ میری منزل کبھی نہ آتی۔آپا برقعہ پہننے لگیں۔ مجھے بھی کوٹ پہننا پڑا۔ جب ہم چلنے لگے تو راجدہ نے پوچھا،’’ پھر کب آئیں گے آپ؟‘‘ 

اور آپا نے کہا، اب آپ لوگوں کو آنا چاہیے۔ لیکن ان لوگوں میں سے کوئی نہ آیا اور تیسرے دن میں خود راجدہ کے گھر چلا گیا۔وہ شام نہایت خوش گوار تھی۔ بارش ابھی رکی تھی اور آسمان ابھی تک ابر آلود تھا۔ مکانات اور سڑکیں دھلی ہوئی تھیں اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے بازاروں اور گلیوں میں لہرا رہے تھے۔ ٹھیک یاد نہیں غالباً ستمبر کا آخر تھا۔ 

راجدہ کا بھائی گلی کے موڑ پر ہی مل گیا۔ گھر پہنچ کر ہم دیوان خانے میں بیٹھ گیے۔ اختر اورعظمی بھی وہاں آگئیں اور تھوڑی ہی دیر بعد راجدہ بھی نیچے آکر ہمارے قریب بڑی الماری میں سے کچھ ڈھونڈنے لگی۔ پھر چائے آگئی۔ چائے کی سبز پھولدار پیالیاں ہاتھوں میں تھامے ہم لوگ گرم جوشی سے باتیں کر رہے تھے کہ باہر ڈیوڑھی میں سائیکل کھڑی کرنے کی آواز آئی۔ سب ایک دم چپ ہوگیے۔ راجدہ کا بھائی زیر لب مسکراتے ہوئے بولا، ’’چچا آرہے ہیں۔‘‘ 

پھر دروازہ کھلا اور ایک چچا نمودار ہوا۔ جس نے نیکر پہنی تھی اور جس کے گندمی چہرے کی کھال کرخت اور کھچی ہوئی سی تھی۔ ایک ہاتھ سے مہندی لگا سر جھاڑتا ہوا ہمارے قریب آکر رک گیا۔ میرا تعارف کروایا گیا۔ مگر اس نے میری طرف سرسری انداز میں دیکھا۔ اور بڑی بے نیازی کے ساتھ میری کرسی کے عقب سے ہو کر ایک خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔ جیب سے پاسنگ شو کا سگریٹ نکال کر اس نے سلگایا اور منہ سے دھوئیں کا غبار سا چھوڑتے ہوئے بولا، ’’آج کیند ےآدم کی تقریر ہو رہی ہے۔‘‘ 

پہلے تو میں قائد اعظم پر بالکل حیران نہ ہوا۔ کیونکہ اس روز واقعی منٹو پارک میں کند آدم کی تقریر ہو رہی تھی۔ لیکن جب بعد میں چچا صاحب کی کاریگری کا احساس ہوا تو میں بمشکل اپنی ہنسی روک سکا۔ 

’’ہاں ہو رہی ہے۔ تم بھی چلو گےچچا۔‘‘ راجدہ کے بھائی نے کہا۔ پہلے تو چچا آنکھیں ملتا اور جھپکاتا رہا۔ پھر پاسنگ شو کا لمباکش لگا کربولا، ’’بھئی چلیں گے ضرور مگر شطرنج بھی ہمارے ساتھ جائے گی۔‘‘ 

’’حد ہوگئی۔۔۔ چچا وہاں شطرنج کا کیا کام؟‘‘ اور چچا پاسنگ شو کی راکھ جھاڑ کر بولا، ’’میاں جب تقریر سنتے سنتے تھک جائیں گے تو پھر کیا کریں گے۔ اتنے بھرے مجمع میں سے اٹھ کر چل پڑنا بھی تو مناسب نہ ہوگا۔ اور اگر شطرنج بھی پاس ہی ہوگی تو کیا کہنے ہیں پھر۔۔۔ قائد آدم، خواہ ساری رات تقریر کرتا رہے۔‘‘ اس کے بعد وہ اٹھا اور سرجھاڑتا ہوا باہر نکل گیا۔ 

راجدہ کے بھائی نے مجھے بتایا کہ چچا کو شطرنج سے حقیقی عشق ہے اور وہ اکثر یاروں کی ٹولی میں گلی کے کونے پر بیٹھا، کمیٹی کے لیمپ کی روشنی میں رات رات بھرشطرنج کھیلتا رہتا ہے۔ اور کچھ دیر تک میں راجدہ کے گھر میں بیٹھا، راجدہ کے خیال سے بےخبر اس کے چچا کی دل چسپ شخصیت کے متعلق سوچتا رہا اور جب میں راجدہ کے گھر سے نکل کر گلی میں سے نکل رہا تھا تو مجھے اس کا چچا ایک خالی دوکان میں دکھائی دیا۔ اس کے آگے شطرنج کی بساط پر مہرے بکھرے ہوئے تھے اور ایک ہاتھ سے ٹھوڑی پکڑے اور دوسرا ہاتھ صدری کے جیب میں ٹھائے مہروں پر جھکا ہوا تھا۔ جیسے وہ خیال ہی خیال میں کسی غیبی آدمی سے بازی لگائے ہوئے ہو۔ 

دو تین ہفتے گزر گیے اور میں راجدہ کے ہاں نہ جاسکا۔ ایک دن دوپہر کے وقت میں اپنے دیوان خانے میں بیٹھا چند نئی تصاویر کو البم میں لگا رہا تھا کہ ڈاکیے نے راجدہ کا خط چق اٹھا کر اندر پھینکا۔ یہ خط بڑی آپا کو لکھا گیا تھا۔ لیکن اس میں ایک علیحدہ رقعہ میرے نام بھی تھا۔ راجدہ کی طرف سے میرے نام اس کا یہ پہلا خط تھا۔ جسے میں نے کئی بار پڑھا۔ اور جس کے مختصر اور پر محبت الفاظ بہت جلد مجھے ازبر ہوگیے۔ راجدہ نے جواب کے لیے اپنی کسی سہیلی کا پتہ لکھا تھا میں نے اسی وقت کاغذات اور قلم لیے اور ایک لمبا چوڑا خط راجدہ کو لکھ ڈالا۔ تیسرے ہی روز میرے خط کا جواب بھی آگیا۔ میں نے اسی وقت ایک اور خط لکھ ڈالا۔ جس کا جواب بھی مجھے تیسرے روز مل گیا۔ میرے لیے یہ کام راجدہ کو ملنے سے بھی زیادہ دل چسپ اور رومانی تھا۔ چنانچہ میں نے قصداً راجدہ کے ہاں جانا بند کردیا۔ اب اس کے خطوط میں خطرناک حد تک پہنچی ہوئی بے قراری اور بے چینی کا اظہار ہوتا تھا۔ ایک خط میں لکھا آیا، ’’میں بیمار ہوں۔‘‘ 

اب میرے لیے مزید رکنا محال تھا۔ دوسرے ہی روز میں راجدہ کے ہاں نچلے کمرے میں بیٹھا اختر اور عظمی سے باتیں کر رہا تھا۔ دراصل راجدہ بیمار نہیں تھی۔ یہ محض مجھے بلانے کے لیے ایک چال چلی گئی تھی جس میں اختر بھی شامل تھی۔ بطور احتجاج میں راجدہ سے بالکل نہ بولا۔ پہلے پہل وہ میری اس ناراضی کو عارضی سمجھتے ہوئے مجھے بات بات پر چھیڑتی اور مذاق کرتی رہی۔ لیکن جب میری خاموشی لمحہ بہ لمحہ گہری ہوتی گئی تو وہ پریشان سی نظر آنے لگی۔ باہر گلی میں عورتوں کے درمیان کچھ جھگڑا سا ہوگیا۔ اور عظمی اور اختر جلدی سے کھڑکیوں کی طرف بھاگ اٹھیں۔ کیونکہ ایک عورت نے دوسری کو بڑی لچھے دار گالی دے ڈالی تھی۔ راجدہ موقع پاکر میرے قریب آگئی۔ 

’’کیا ہوگیا ہے؟‘‘ 

میں خاموش رہا۔ 

’’کوئی غلطی ہوگئی ہو تو معافی مانگتی ہوں۔‘‘ 

’’کچھ بھی نہیں ہوا۔‘‘میں نے گرے گرانٹ کے انداز میں کہا۔ وہ فلم نٹوریس، میں انگرڈیزجمین کو اسی انداز میں کہتا ہے۔ یہ فلم میں نے اسی روز ریگل میں دیکھی تھی۔ راجدہ اگر انگرڈیزجمین ہوتی تو اپنے خاص انداز میں لمبی اور گداز باہیں میرے گلے میں ڈال دیتی اور گرے گرانٹ کی ساری خفگی رفو چکر ہو جاتی۔ مگر اس بچاری کو برجمین کے منانے کے انداز کی کیا خبر تھی۔ وہ کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے الٹا زیادہ پریشان ہوگئی۔ گلی والا جھگڑا ٹھنڈا پڑگیا تھا اور عظمی اور اختر اندر آرہی تھیں۔ 

’’بڑی بدمعاش ہے یہ۔‘‘اختر نے عظمی سے کہا اور اس نے ہاں میں ہاں ملادی۔ وہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئیں۔ راجدہ اٹھی اور اوپر چلی گئی۔ میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے وہاں اور بیٹھا رہا۔ لیکن راجدہ بالکل نیچے نہ اتری۔ عظمی آرام کرسی پر نیم دراز تقریباً سورہی تھی۔ اختر کروشیا کاڑھ رہی تھی۔ میں نے کہا راجدہ ناراض کیوں ہے؟ اس نے کہا خود ہی پوچھ لو۔ اوپر ہوگی اور مسکرانے لگی۔ میں ایک لفظ کہے بغیر اوپر چلا گیا۔ راجدہ درمیانی منزل میں پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس کا منہ دیوار کی طرف تھا۔ میں نے قریب جاکر اسے پکارا۔ کوئی جواب نہ آیا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ 

’’راجدہ، میں یہاں نہ آیا کروں؟‘‘ میں نے محسوس کیا راجدہ کا جسم ہولے ہولے ہل رہا تھا۔ 

’’اگر تم چاہتی ہو تو خدا کی قسم میں اپنا آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تم سے چھپالوں گا۔‘‘ راجدہ خاموش رہی۔ میں نے کندھے سے پکڑ کر اس کا منہ اپنی طرف کر لیا۔ راجدہ رو رہی تھی۔ کبھی پلکوں کی خنک چھاؤں میں بارش کی جھڑی لگ رہی تھی۔ رم جھم رم جھم۔۔۔ اور سیاہ پتھروں کی چکنی سلوں پر سے پانی کے شفاف قطرے رک رک کر پھسل رہے تھے۔ 

روندے پتھر پہاڑاں دے۔ 

چند لمحات کے لیے ہم خاموش نگاہوں سے ایک دوسرے کو تکتے رہے۔ بے زبان اور مسحور۔۔۔ جیسے ہمیں جادو کی چھڑی چھوگئی ہو۔ راجدہ کے آنسو نہیں تھمتے تھے۔ میں نے آہستہ آہستہ راجدہ کی گرم پیشانی پر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا راجدہ، زندگی کے ہر دور میں تمہارے ساتھ رہوں گا، وعدہ کرتا ہوں۔‘‘ اور جلدی سے اٹھ کر نیچے چلا آیا۔ نچلے کمرے میں عظمی بدستور چھوٹا سا منہ کھولے سو رہی تھی اوراختر کروشیا سےکاڑھ رہی تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ کر پوچھا۔ 

’’پوچھ آئے کیا؟‘‘ 

’’بچپنا بہت ہے بھابی۔‘‘ میں نے سگریٹ کیس جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔ 

’’چلے؟‘‘ اختر نے آنکھیں اٹھا کر پوچھا۔ 

’’اور کیا۔۔۔‘‘ گلی میں سے گزرتے ہوئے میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو راجدہ کھڑکی میں کھڑی مسکرارہی تھی۔ لیکن اس کی آنکھیں بدستور سوجی ہوئی تھیں۔ 

راجدہ کے گھر میں داخل ہوکر، ایرانی قالین پر نیم دراز۔۔۔ محبت اور تسکین سے پرلمحات کے درمیان کارنس کے اوپر ٹنگی ہوئی مشرقی تمدن کی تصویر کو گھورتے ہوئے میں نے کئی بار شیراز کے چھتے ہوئے نیم روشن بازاروں اور ہرے بھرے شاداب باغوں اور پر اسرار قہوہ خانوں کی سیر کی۔قہوہ خانے، جہاں ایران، مصر اور شام کی زہرہ جمال دوشیزائیں سوڈانی دف بجاتے ہوئے محو رقص تھیں اور ہرے بھرے باغات کا پرسکون سلسلہ جہاں نازک اور خوبصورت روشوں کے ادھر ادھر جابجا دل کش فوارے چاندی ایسا پانی اگل رہے تھے اور جہاں شیریں میوؤں سے لدے پھندے درخت تھے اور جن کے عقب میں نیلے افق پر شیراز کی مسجدوں اور خانقاہوں کے دودھیا گنبد۔ 

تنہائی اور خاموشی کے یہی وہ لمحات ہوا کرتے جب مجھے ہر اندھیرے کی تہہ میں سے روشنی کے ننھے منے انار سے چھوٹتے دکھائی دیتے اور مجھے کئی باریوں دکھائی پڑتا جیسے کوئی غیر مرئی شے روشنی کا دیا لیے تاریکی کے خوفناک سمندر کو چیرتی سربفلک لہروں میں کبھی ڈوبتی کبھی ابھرتی آہستہ آہستہ، قدم بہ قدم میری طرف بڑھ رہی ہو۔ 

تنہائی روشنی ہے۔۔۔ اور راجدہ کے تصور میں ڈوب کر میں اس روشنی سے کئی بار چندھیا کر رہ گیا۔ راجدہ کاخیال مجھ سب سے الگ ہوجانے پر مجبور کردیتا تھا اور سب سے الگ ہو کر میں کئی بار راجدہ کے خیال سے بھی آگے نکل گیا تھا۔ راجدہ کا تصور مثل ایک پل کے تھا جو خاموشی اور تنہائی کی اتھاہ خلیج پر پھیلا ہوا تھا اور جسے عبور کرنے پر میں اپنے تئیں ایک انوکھی، روشن اور ان دیکھی دنیا میں پاتا تھا جہاں سوائے چمکیلے افق، دودھیا گنبدوں اور ابھرابھر کر ڈوبتی ہوئی لمبی لمبی سوگوار تانوں کے اور کچھ بھی نہ تھا۔سلسلہ در سلسلہ وجدانی تاثرات میں ڈوبے ہوئے نورانی لمحات کے منور ٹکڑے تھے، جن کا راجدہ سے کوئی تعلق نہ تھا اور جنہیں میں راجدہ سے الگ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ 

نومبر ختم ہو رہا تھا۔ رات کو اچھی خنکی ہوگئی تھی اور دن کو لوگ دھوپ چھاؤں کے سنگم پر چلتے تھے۔ ایک شام دفتر سے گھر لوٹتے ہوئے دل غیر معمولی طور پر اداس تھا۔ ایک تو راجدہ کو دیکھے ہفتہ ہو چلا تھا اور دوسرے کچھ فضا کا بھی اثر تھا۔ اپنی گلی میں پہنچتے ہی مجھے یوں ہی خیال آیا، اگر گھر راجدہ بیٹھی ہوتو؟ تو پھر۔۔۔؟ لیکن میں نے جھک ماری تھی اور میں ہنسنے لگا۔ مگر گھر پہنچ کر جب راجدہ کو دیکھا تو میرا دل اچھل کر میرے منہ کے قریب آگیا۔ کیا یہ جھک ماری گئی تھی۔ یا خدا نے میری دعا قبول کی تھی۔ راجدہ کی محبت نے مجھے گلی میں ایسا سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ 

راجدہ باورچی خانے میں امی اور آپا کے درمیان بیٹھی تھی۔ اس کی پیشانی پر سونے کا چھوٹا سا جھومر لیمپ اور جلتی ہوئی آگ کی روشنی میں جھلمل جھلمل کر رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس کا چہرہ کھل سا گیا۔ جیسے دھندلے رنگ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اچانک سورج کے سامنے آگیا ہو۔ اس نے شرما کر سر جھکا لیا اور میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ گھر میں راجدہ کے ساتھ آیا ہوا کوئی، محافظ دکھائی نہ دیتا تھا۔ 

’’تم اکیلے کیسے آگئیں؟‘‘ 

’’اکیلی تو نہیں آئی۔‘‘ بڑی آپا نے کہا، ’’خالہ کے لڑکے کے ساتھ اپنی خالہ سے ملنے آئی تھی اور۔۔۔‘‘ راجدہ نے آپا کا جملہ کاٹتے ہوئے کہا، ’’۔۔۔اور میں نے سوچا آپا اور امی سے مل آؤں۔‘‘ کس قدر شیریں تھا اس کا لہجہ۔۔۔ جیسے میٹھے پھلوں سے لدی ہوئی ڈالیوں پر بارش کے پہلے قطرے گر رہے ہوں۔ 

گلی میں اس جگہ اس رات کوقوالی تھی۔ جس جگہ یہ محفل منعقد ہونے والی تھی، اس کے عین اوپر آپا کی ایک سہیلی کا مکان تھا۔ بچے اور چھوٹی بہن تو سرشام ہی اس مکان میں پہنچ چکی تھیں۔ امی اور آپا وغیرہ میرے کھانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ کھانے کے بعد میں نے سیر کی تجویز پیش کردی۔ آپا اور امی نے کہا، ’’بھئی ہم تو نہیں جائیں گے۔ تم دونوں ہو آؤ۔‘‘ راجدہ بخوشی تیار ہوگئی۔ جب ہم دونوں نیچے اترنے لگے تو امی بولیں، ’’بھئی جلدی پلٹنا، راجدہ کو قوالی بھی سنانی ہے۔‘‘ 

راجدہ اور میں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس پڑے۔ ’’فکر نہ کرو امی ہم ابھی آئے۔‘‘ 

نیم روشن گلیوں اور بارونق بازاروں کو خاموشی سے عبور کر لینے پر جب ہم کمپنی باغ والی کھلی سڑک پر آگیے تو میں نے راجدہ سے پوچھا، ’’یہ خالہ زاد بھائی کون ہے؟‘‘ 

’’بڑا اچھا لڑکا ہے سچ۔۔۔ اسے ہماری محبت کا علم ہے۔ اس کی بھی ابھی ابھی شادی ہوئی ہے۔ وہ دونوں ہماری طرح ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ دونوں نے شادی تک بڑے بڑے دکھ اٹھائے ہیں۔ اسی لیے تو وہ خود مجھے یہاں تک چھوڑنے آیا تھا۔ شاید پرسوں مجھے پھر لینے آئے اور اس کی بیوی تو اس سے بھی زیادہ پیاری اور درد مند ہے۔‘‘ 

’’راجدہ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ ہم اکیلے سیر کرنے جارہے ہیں۔ کاش کمپنی باغ کبھی نہ آئے۔‘‘ اور راجدہ ہنس پڑی۔ 

’’کمپنی باغ نہیں آئے گا۔ تو پھر ہم سیر کہاں کریں گے؟‘‘ 

اور کمپنی باغ آگیا۔ جب ہم اس پلاٹ کے قریب سے گزرے جہاں سرخ روشوں پر گلابی اور زرد رنگ کے گلاب کے پھولوں کی بیلیں اپنا پرسکون سایہ کیے تھیں۔ تو راجدہ بولی، ’’وہ شام یاد ہے نا!‘‘ 

’’ہاں راجدہ وہ شام مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ وہ ہماری محبت کی اولین شام تھی اور اس کا نقش بڑا گہرا اور دیرپا ہے۔ اسی شام ہماری محبت نے اس رنگ برنگے پھولوں اور پتوں کے درمیان اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ اس مرطوب سبزہ زار میں۔۔۔ اور اسی جگہ میں نے پہلی مرتبہ تمہارے گرم پسینہ کی خوش گوار خوشبو سونگھی تھی جس میں حنا کی خوشبو بھی شامل تھی۔‘‘ 

راجدہ نے منہ سکوڑ کر کہا، ’’کیسی باتیں کرتے ہو؟‘‘ 

’’تم نہیں جانتی راجدہ، یہ میری اپنی باتیں ہیں۔ تم محض سنتی جاؤ۔ تمہیں کیا خبر میری محبت بہ یک وقت کہاں کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں جاکر ختم ہوتی ہے۔ یہ بہار کے پھولوں کی مانند مجھے اپنے جسم کے ذرے ذرے سے پھوٹتی معلوم ہو رہی ہے اور میں نہیں جانتا ان پھولوں کا انجام کیا ہوگا؟‘‘ 

راجدہ خاموشی سے میری باتیں سنتی رہی۔ ہم ایک ایسی سڑک پر سے گزر رہے تھے جس کے دونوں طرف جامن کے سایہ دار درخت تھےاور بجلی کے لیمپ کافی جگہ چھوڑ کر لگائے ہوئے تھے۔ چلتے ہوئے کبھی ہم اندھیرے میں گھر جاتے اور کبھی روشنی میں نکل آتے۔ ہوا کے نرم جھونکے ہمارے قریب سے کبھی رات کی رانی اور کبھی چنبیلی اور گلاب کی خوشبو لیے گزر جاتے۔ اب فضا میں خنکی بڑھنے لگی تھی۔ 

’’راجدہ سردی تو نہیں لگ رہی؟‘‘ 

’’بالکل نہیں۔۔۔ آج تو میرے ہاتھ بھی گرم ہیں۔‘‘ 

’’یہ محبت کی گرمی ہے راجدہ!‘‘ میں نے اس کے نرم اور نیم گرم ہاتھ دبا کر کہا اور راجدہ مسکرانے لگی۔ ہم پھر اندھیرے کی غار میں سے گزر رہے تھے۔ مگر راجدہ کی سنہری جھومر کی چمک یہاں اور تیز ہوگئی تھی۔ میں نے سگریٹ سلگایا اور ایک کلب گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے ہمیں مردوں کے قہقہوں اور بلیرڈ کی چھڑی کے گیند سے ٹکرانے کی آوازیں سنائی دیں۔ 

گنبد والے ریڈیو پر اردو کے بعد انگریزی میں خبریں سنائی جارہی تھیں۔ اور پلاٹ کے بنچوں پر بیٹھے ہوئے لوگ اٹھنا شروع ہوگیے تھے۔ بہار کی چمکیلی رات کے گہرے نیلے آسمان پر ستاروں کے کافوری فانوس جابجا روشن تھے۔ ایک طرف سات ستاروں کی ٹولی سفیدے کے چھریرے درختوں پر سے جھانک رہی تھی۔ شبنم آلود گھاس پر سے گزر کر ہم اپنے پسندیدہ پلاٹ کے وسط میں آکر بیٹھ گیے۔ یہ جگہ پلاٹ کی عام سطح سے نیچی تھی اور حوض کے مانند بنی ہوئی تھی۔ ہمارے دائیں بائیں نصف دائرے کی شکل میں پھولوں بھرے پودوں کی کیاریاں تھیں، جن میں قرمزی، نیم گلابی گہرے زرد اور برف ایسے سفید اور کالسی رنگوں کے چھوٹے چھوٹے بے شمار پھول اوس میں بھیگے ہوئے تھے، کبھی کبھی نہر کی طرف سے کناروں پر اگی ہوئی بھنگ کی تیز اور مرطوب بو بھی آجاتی تھی۔ 

سامنے والے باغ میں آڑو اور آلوچے کے درخت قطار در قطار، سفید شگوفوں سے لدے ہوئے تھے۔ کلب گھروں کے روشن دانوں میں سے زرد زرد روشنی جھانک رہی تھی۔ دفعتاً نہر والے درختوں کے عقب میں مدھم روشنی کا غبار سا اٹھا جو لمحہ بہ لمحہ پھیلتا گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد درختوں کے اوپر زرد چاند کا پژمردہ چہرہ نمودار ہوگیا۔اس کی سوگوارچمک میں باغ کی ہر شے افسردہ اور ملول سی نظر آنے لگی۔ ادھر ادھر پھل دار باغات کے ذخیروں میں پرندوں کی پیاری پیاری آوازیں بلند ہونے لگیں۔ جیسے وہ چاند کے استقبال کا گیت گا رہے ہوں۔ راجدہ سیاہ برقعے میں اپنا آپ لپیٹے مرمریں بنچ پر لیٹی ہوئی تھی اور اس کا سر میرے زانو پر تھا اور میری انگلیاں اس کے سنہرے جھومر سے کھیل رہی تھیں جو دھندلی چاندنی میں شام کے ستارے کی مانند کبھی نیلی اور کبھی سرخ چمک دے رہا تھا۔ راجدہ نے میری طرف آنکھیں اٹھا کر کہا، ’’مجھے ڈر لگتا ہے۔‘‘ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔ 

’’مجھ سے۔‘‘ 

’’ہاں۔۔۔ کہیں تم مجھ سے محبت کرنا چھوڑ تو نہیں دو گے۔‘‘ 

’’کبھی نہیں راجدہ۔‘‘ 

’’سچ میں اس وقت مرجاؤں گی۔‘‘ 

’’او۔۔۔ کبھی نہیں، کبھی نہیں راجدہ۔۔۔۔‘‘ اور میں نے شام کے ستارے کو چوم لیا اور پھر راجدہ کے نرم بالوں سے کھیلتے کھیلتے، راجدہ سے بے خبر میں اپنی تنہائی اور خاموشیوں کے ڈونگے سمندروں کی نچلی تہوں میں اتر گیا اور وہاں میں نے سیدھا پتھروں کی درزوں میں ایسے انمول موتیوں کی ڈھیریاں دیکھیں جو دنیا کی کسی کان میں نہ تھے اور لچکیلی بیلوں پر جھومتے ہوئے ایسے پھول دیکھے جو دنیا کے کسی باغ میں نہ تھے۔ 

ہم پلاٹ سے نکل کر سڑک پر آئے تو ہال و دروازے والی گھڑی نے رات کے گیارہ کا گجر بجایا۔اب ٹھنڈی ہوا سارے باغ میں چل رہی تھی اور چاند کافی اوپر آگیا تھا۔ ہمارے سامنے سڑکوں پر دور تک درختوں کے جھومتے ہوئے سایوں کے سوا اور کچھ بھی نہ تھا۔ ہمارے کپڑے اوس میں نم آلود تھے۔ راجدہ کا سیاہ نقاب ہوا میں لہرا رہا تھا اور وہ خود یوں چل رہی تھی جیسے ابھی ابھی ہلکی شراب کا ایک پیگ لگا کر اٹھی ہو۔ 

جس وقت ہم اپنی گلی میں پہنچے تو قوالی ہو رہی تھی۔ راجدہ کو بڑی آپا اور امی کے پاس پہنچا نے کے بعد سگریٹ سلگایا۔ اور اپنے دوستوں کی ٹولی میں جا بیٹھا۔ ابھی میں پہلا ہی کش لگارہا تھا کہ خوبصورت قوال نے مجھے نیم وا نگاہوں سے دیکھ کر مصرعہ اٹھایا۔ 

سہانی رات تھی اور پرسکوں زمانہ تھا 

معاً مجھے محسوس ہوا کہ وہ میری اور راجدہ کی ملاقات کا حال بیان کرنے لگا ہے۔ جیسے وہ ابھی کہے گا۔ 

سہانی رات تھی اور پرسکوں زمانہ تھا۔۔۔ اور راجدہ اپنا سر اپنے محبوب کے زانو پر رکھے کمپنی باغ کے پلاٹ پر لیٹی ہوئی تھی ۔ وہ دونوں ابھی ابھی کمپنی باغ سے واپس آئے ہیں۔ راجدہ اوپر چلی گئی ہے اور اس کا محبوب وہ سامنے بیٹھا سگریٹ پی رہا ہے۔میں گھبرا سا گیامگر خیریت گزری کہ دوسرا مصرعہ کچھ اور تھا۔ 

صبح نہایت روشن اور شاندار تھی۔ نیلے اور پرنور آسمان پر سپید سپید کبوتروں کی ٹولیاں چکر لگارہی ہیں۔ راجدہ دیر تک سوتی رہی۔ اس دوران میں میں صبح کی سیر سے واپس آچکا تھا اور میرے ہاتھ میں اصلی گلاب کے شبنم آلود سرخ پھول تھے جن سے بڑی فرحت بخش شیریں خوشبو اٹھ رہی تھی۔ میں دبے پاؤں راجدہ کی طرف گیا۔ وہ گرم چادر میں منہ سر لپیٹے بے سدھ پڑی تھی۔ میں نے آہستہ سے چادر کھسکائی۔ اور پھول اس کے منہ پر ڈال دیے اور تیزی سے باہر آگیا۔تھوڑی دیر بعد وہ پھولوں کا گلدستہ پکڑے نیند میں شرابور نیم وا آنکھیں لیے رومال سے منہ پر پڑی شبنم پونچھتی باورچی خانے میں داخل ہوئی جیسے وہ بہار کی دیوی ہو اور اپنے عہد محبت کی نشانی لیے خیابانوں سے رخصت ہو رہی ہو۔ 

’’پھولوں کی شہزادی‘‘ چھوٹے بھائی نے کہا۔ وہ پچھلے روز اسی نام کی ایک کتاب اسکول سے لایا تھا۔ امی، بڑی آپا اور چھوٹی بہنیں ہنس پڑیں۔ اور چھوٹا بھائی اور راجدہ شرما گیے۔ باورچی خانہ چونکہ کافی کھلا اور روشن تھا اورموسم سرما کی بھی آمد آمد تھی۔ چنانچہ صبح کی چائے یہیں اڑا کرتی تھی۔ 

’’بھئ خواہ کچھ ہو، میں تو راجدہ کو اپنے پاس ہی لے آؤں گی۔‘‘ امی نے راجدہ کے پیالے میں ملائی ڈالتے ہوئے کہا۔ راجدہ نے سرجھکالیا۔ آپا بولیں،’’کیوں نہیں اور اس سے زیادہ اچھی بھابی ہمیں کہاں ملے گی۔‘‘ اور راجدہ نے شرما کر دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ لیا۔ اس کی خوب صورت مخروطی انگلیوں میں سنہری انگوٹھیوں کے سفید نگینے آگ کی روشنی میں دمک اٹھے اور پھر باورچی خانہ حجلۂ عروسی میں بدل گیا۔ اور ایک نیم روشن خوشبوؤں بھرے کمرے میں سیج پر چنبیلی اور موتیا کے بے شمار پھول بکھر گیے۔ دلہن کا عروسی جوڑا پہنے، سنہری جھومر پیشانی پر لگائے، سولہ سنگار سے آراستہ ہوکر سیج پر چھوئی موئی بنے بیٹھ گئی اور میں سیج کے قریب آیا۔ اور راجدہ نے جلدی سے اپنا چہرہ ہاتھوں سے ڈھانپ لیا اور اس کی حنائی بھگوئی مخروطی انگلیوں میں انگوٹھیوں کے نگینے ستاروں کی مانند دمکنے لگے اور امی نے کہا: 

’’پر یہ کہیں ٹک کر بھی کام کرے۔‘‘ امی کا یہ جملہ ساکن جھیل میں پھینکا ہوا پتھر تھا۔ جو میرے سنہری خواب کی لہروں کو مجھ سے دور لے گیا۔ اور میں خود باورچی خانے میں تھا۔ امی میری پیالی میں چائے ڈال رہی تھیں۔دوپہر کے کھانے کے بعد میں راجدہ اور بڑی آپا دیوان خانے میں بیٹھے تھے۔ آپا گلی والی چق کے قریب بیٹھی سوئٹر بن رہی تھیں اور راجدہ میری میز کے قریب آرام کرسی پر نیم دراز نغمۂ حرم پڑھ رہی تھی۔ میں سگریٹ سلگائے کبھی کچھ لکھ رہا تھا اور کبھی راجدہ کے چہرے کو تکنے لگتا تھا۔ جہاں اختر شیرانی کی نظموں کا مطالعہ ایک دل فریب حسن پیدا کر رہا تھا۔ بڑی آپا بولیں، ’’چلو راجدہ۔ فہمیدہ سے مل آئیں۔‘‘ 

فہمیدہ بڑی آپا کی گہری سہیلی تھی۔ ان کا مکان گلی ہی میں تھا اور اس نے راجدہ کو آکر مل جانےکا پیغام بھی بھیجا تھا۔ راجدہ تیار ہوگئی اور میں نے قلم میز پر رکھ دیا۔ 

’’جلدی لوٹ آؤں گی۔‘‘ راجدہ نے برقعہ پہنتے ہوئے کہا۔ میں نے دراز میں سے موم بتی نکالی اور اسے روشن کر کے میز پر لٹکا دیا۔ 

’’اسے بجھنے مت دینا۔‘‘ راجدہ ہنس پڑی۔ 

’’یہ تو آدھی بھی ختم نہ ہوگی کہ میں آجاؤں گی۔‘‘ اور وہ روشن موم بتی کو دیکھ کر جس تیزی سے آپا کے ہم راہ چق اٹھا باہر نکلی،مجھے یوں محسوس ہوا گویا وہ فہمیدہ کے مکان کو ہاتھ لگا کر واپس آجائے گی۔ اور مجھے اپنے بچپن کا زمانہ یاد آگیا۔ جب بڑی آپا مجھے بازار سے کوئی چیز خرید کر لانے کے لیے بھیجنے لگتیں تو وہ زمین پر تھوک کر کہتیں، ’’دیکھتی ہوں کہ یہ پہلے سوکھتی ہے کہ تم پہلے آتے ہو۔‘‘ اور میں لپک کر دوکان دار کے پاس پہنچتا۔ جلدی جلدی سودا خریدتا اور گھر میں داخل ہو کر سب سے پہلے تھوک کو دیکھتا کہ کہیں سوکھ تو نہیں گیا۔ حالانکہ بڑی آپا تھوک کر بھول گئی ہوتی تھیں۔ 

میز کے کنارے پر ٹکی ہوئی موم بتی لمحہ بہ لمحہ پگھل رہی تھی۔ گرم موم کے ننھے منے شفاف قطرے دلہن کے آنسوؤں کی مانند بہہ رہے تھے۔ سگریٹ سلگائے میں بڑے اشتیاق سے انھیں دیکھ رہا تھا۔ میرا سگریٹ بھی موم بتی کے ساتھ ہی سلگ رہا تھا۔ سگریٹ میں سے نیلے دھوئیں کی پتلی دبلی لکیر اٹھ رہی تھی اور موم بتی میں سے ننھا سا شعلہ۔ایک کے پاس دھواں اورراکھ تھی اور دوسرے کے پاس روشنی اور آنسو۔ موم بتی قریب الختم تھی۔ میں یوں مضطرب اور پریشان تھا جیسے اگر موم بتی بجھ گئی تو پھر راجدہ کبھی میرے پاس نہ آئے گی۔ اور میں اس کے رخساروں کے محرابی خم کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔ 

موم بتی کا زرد شعلہ بھڑکا اور ڈوب سا گیا۔ جس طرح میدان جنگ میں ڈھلتی دھوپ کی سرخی میں کسی سپاہی کے بلند ہوتے ہوئے نیزے کی انی ایک دفعہ چمک کر بجھ جائے اور موم بتی بجھ گئی اور راجدہ نہ آئی۔ میں نے سگریٹ کی گردن راکھ دان میں مسل کر پرانی موم بتی کی لاش پر نئی موم بتی روشن کی اور سگریٹ سلگا کر بیٹھا رہا۔ تھوڑی دیر بعد گلی والے دروازے کی چق اٹھی اور راجدہ جلدی سے اندر داخل ہوئی۔ اس کا سانس تیز تیز چل رہا تھا۔ جیسے وہ بھاگتی ہوئی آرہی ہو۔ 

’’ابھی نہیں بجھی؟ دیکھا میں کتنی جلدی آگئی۔‘‘ 

میں نے راجدہ کو ایک لمحہ کے لیے دیکھا اور چپکے سے سر جھکا لیا۔ وہ برقعے کے بٹن کھولتی ہوئی میری طرف بڑھی۔ 

’’چپ کیوں ہوگئے؟‘‘ 

’’کچھ نہیں۔۔۔ یہ دوسری موم بتی ہے۔ پہلی بجھ گئی تھی۔‘‘ 

’’تو اپنی موم بتی کے پیسے لے لو۔‘‘ 

یہ اس نے کچھ ایسے پیارے انداز میں کہا کہ ہم اپنی اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکے۔ 

’’سچ بڑے اچھے لوگ ہیں وہ۔۔۔مجھے اٹھنے ہی نہ دیتے تھے۔ بڑی مشکل سے بھاگ کر آئی ہوں۔‘‘ 

’’آپا کہنے لگیں۔ میں ذرا دیربعد آؤں گی۔ میں نے کہا بھئ میں تو چلتی ہوں۔‘‘ اس دوران میں راجدہ نقاب ایک طرف رکھ کر کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔ موم بتی کی نرم روشنی میں اس کے چہرے کے نقوش بڑی خوبصورتی سے اجاگر ہو رہے تھے۔ اس کا چہرہ سنہری جلد والی ایک کتاب تھا۔ جو محبت بھرے روشن اور مقدس اشعار سے لبریز ہو۔ موم بتی کی دھیمی روشنی میں ہم دیر تک باتیں کرتے رہے۔ ہماری آوازیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ تھیں۔ ان لہروں کی مانند جو پراسرار چاندنی میں بڑی خاموشی سے پرسکون ساحلوں کی طرف سمٹ رہی ہوں۔ ایک ہی چشمےسے نکلتی ہوئی دو ندیاں، جو پہاڑی کی مرطوب نچان میں جاکر آپس میں مل کر بہنے لگی ہوں۔ ایک ہی ڈالی کے دوشگوفے جو ایک ساتھ کھلیں اور جنہیں ایک ساتھ مرجھا کر جھڑجانا ہو۔ 

ہم الفاظ کی موسیقی سے کھیل رہے تھے۔ جس طرح موسم بہار میں کم سن بچے پھولوں سے کھیلتے ہیں۔ راجدہ کے چہرے کے گرد روشنی کا پرنور ہالہ تھا۔ اور مجھے یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے راجدہ آگ کا ایک زریں شعلہ ہے۔ جو شام کے وقت کسی کھلے میدان کے وسط میں روشن ہو۔ جب ہم خاموش ہوجاتے تو اس میں اپنے کہے سنے الفاظ دیوان خانے کی نیم روشن فضا میں جگنوؤں کی مانند رہ رہ کر چمکتے دکھائی دیتے پھر ہماری گفتگو خاموش اور بے زبان گفتگو میں بدل جاتی۔ ہم ایک دوسرے سے درختوں، پھولوں، ستاروں اور آبشاروں کی زبان میں باتیں کرتے۔ یہ گھنے جنگلات اور تاریک راتوں کی گفتگو تھی، جو دن نکلنے پر اپنے پیچھے روشنی اور شبنم کے آنسو چھوڑ جاتی ہے۔ پھر دن نکل آیا اور راجدہ لاہور چلی گئی۔ 

لاہور پہنچنے کے بعد راجدہ مجھے برابر خط لکھتی رہی۔ جنوری کا آخر تھا کہ راجدہ کا ایک خط آیا،’’میرے پردیسی۔۔۔ مجھے معاف کرنا کہ میں تمہارے خط کا جواب دیر سے لکھ رہی ہوں۔ میرا چچا زاد بھائی سعید برما سے اچانک واپس آگیا ہے اور گھر میں چونکہ رشتہ داروں کی آمدورفت رہی اس لیے اتنی فرصت نہ مل سکی کہ تمہیں اطمینان سے بیٹھ کر خط لکھتی۔ سچ مجھے بڑا افسوس ہے، پتہ نہیں تم کیا خیال کرتے ہوگے۔‘‘ 

راجدہ کا اندازہ درست تھا۔ سعید کے بارے میں مجھے طرح طرح کے غیر خوشگوار خیالات نے گھیر رکھا تھا۔ اگرچہ میں اس کے متعلق اتنا ہی جانتا تھا کہ وہ راجدہ کا چچا زاد بھائی ہے اور تین سال سے برما میں ہے۔ پھر بھی میرےاتنی بھنک ضرور پڑچکی تھی کہ سعید کی مرحوم ماں راجدہ کو اپنے بیٹے کے لیے مانگ چکی ہے۔ اب مجھے بار بار سعید کا خیال آتا اور ہر بار مجھے یہی محسوس ہوتا جیسے کوئی ان دیکھا ہاتھ بڑی خاموشی سے میرے دل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میں نے خیال ہی خیال میں کئی دفعہ راجدہ کو سعید کے پاس بیٹھے ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا۔ 

اور ایک ہفتہ بعد جب میں راجدہ کے ہاں گیا تو راجدہ تولیہ اور صابن دانی پکڑے سعید کا منہ دھلا رہی تھی۔ مجھے اچانک اپنے بالمقابل دیکھ کر راجدہ کا چہرہ ایک دفعہ زرد ہوکر جیسے ڈوب سا گیا۔ راجدہ کے بھائی وہیں بیٹھے تھے۔ بعد ازاں میرا تعارف کرایا گیا۔ سعید خندہ پیشانی سے مجھے ملا۔ راجدہ اوپر جاچکی تھی۔ سعید ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ راجدہ کے بھائی کیرم بورڈ کھیل رہے تھے اورمیں آرام کرسی میں دھنسا خاموشی سے سگریٹ پی رہا تھا۔ عظمی اور اختر وغیرہ باورچی خانے میں تھیں۔ کبھی کبھی عظمی کی دبی دبی ہنسی اور اختر کی گفتگو کی مدھم آواز آجاتی تھی۔راجدہ اوپر تھی اور میں کمرے میں خاموش اور اداس اداس بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ میں وہاں کتنی دیر بیٹھا رہا مگر راجدہ ایک بار بھی پھر میرے سامنے نہ آئی۔ 

اس گھر میں سالوں کی گرویدگی اور محبت کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے وہاں کی ہر شے بے رخی سے منہ پھیرتی محسوس ہو رہی تھی۔ جیسے میں اجنبی ہوں۔ اور ان کی منشا کے خلاف وہاں آن بیٹھا ہوں۔ مجھے اپنا جسم خود اپنے آپ پر ایک ناقابل برداشت بوجھ معلوم ہونے لگا۔ میں اٹھا اور چپکے سے راجدہ کے گھر سے باہر نکل آیا۔ باہر لوگ آرہے تھے اور جارہے تھے۔کئی ایک نے میری طرف حیرانگی اور دل چسپی سے دیکھا۔ جیسے میں کوئی بہروپیا ہوں اور بھیس بدل کر ان کے درمیان آگیا ہوں۔ جیسے وہ مجھے پہچان بھی چکے ہیں اور میرے بہروپ پر حیران ہو رہے ہیں۔ بازار میں چلتے چلتے کئی بار میرے قدم لڑکھڑائے اور میں گرتے گرتے سنبھلا۔ ایک ہوٹل کے قریب پہنچ کر میں اندر گھس گیا لیکن چائے کا آڈر دے کر بغیر چائے پیے باہر نکل آیا۔ میری حالت کسی ایسے گویے کی سی تھی جو بھری محفل میں گاتے ہوئے اچانک بے سراہوگیا ہو۔ 

میں امرتسر چلا آیا۔ اپنے دیوان خانے میں پہنچ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں بیچ بازار میں ننگا ہوگیا تھا اور میرے اوپر کسی نے چادر ڈال دی ہے۔میز پر پڑی ہوئی کتابوں کے پاس پھول دان میں گلاب کے پھول مرجھا رہے تھے۔ کونے میں میرے چھوٹے بھائی کے ہاتھ سے بنی ہوئی آئل پینٹ تصویر پر گرد سی جم رہی تھی۔ اس تصویر میں سوکھے ہوئے درختوں کی بے برگ ٹہنیوں کے عقب میں بھورے رنگ کے جل تھل کرنے والے بادل دکھائے گیے تھے۔ اور نیچے لکھا تھا، ’’ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا۔‘‘ 

میں نے اس تصویر کو لے کر رومال سے اس پر جمی ہوئی گرد صاف کی اور میرا دل بھر آیا اور میری آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنےلگے۔۔۔ ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا۔۔۔ اور میں نے تصویر کو سینے سے لگا لیا۔ کتنی ہی دیر تک راجدہ کا غم آنسو بن کر میری آنکھوں سے بہتا رہا اور جب میں نے تصویر کو دوبارہ میز پر رکھا اور مجھےاپنا آپ اس بچے کی مانند مسرور اور ہلکا ہلکا محسوس ہو رہا تھا، جسے اسکول کے دروازے پرپہنچ کر خبر ملے کہ آج چھٹی ہے۔ 

دوسرے مہینے کے وسط میں راجدہ کا خط آیا کہ اس کے والدین اس کی شادی سعید سے کرنا چاہتے ہیں اور اس نے زہر منگوا کر اپنے پاس رکھ لیاہے۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ راجدہ کا ایک اور خط آیا، ’’خدا کے لیے مجھے بتاؤ میں مرجاؤں گی پردیسی۔‘‘ 

میں کیا کرتا۔۔۔ میں نوکری چھوڑ بیٹھا تھا۔ کس برتے پر راجدہ کو بچاتا۔ میں نے امی سے بات کی کہ اگر راجدہ مجھےمل جائے تو میں نوکری بھی کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ وہ مان گئیں۔ مگر ابا نے کہا کہ وہ لڑکی والوں سے صاف صاف کہہ دے گا کہ لڑکا نکما ہے۔راجدہ مجھے برابر لکھتی کہ نوکری کر لو۔ پھر ہم شادی کرلیں گے۔ پھر ہمیں دنیا کی کوئی طاقت جدا نہ کرسکے گی۔میں نے سر توڑ کوشش کی کچھ ہاتھ نہ آیا۔ جب راجدہ کے بچھڑ جانے کے بعد مجھے ایک کالج کی لائبریری میں پچاس روپیوں کی جگہ مل گئی، اس رات میں خوشی سے بالکل نہ سوسکا۔ تمام رات بستر میں لیٹا بیداری کے خواب دیکھتا رہا۔ راجدہ بھاری کا مدار ریشمی لباس میں ملبوس پھولوں میں بسی دلہن بنی میرے ساتھ سمٹی ہوئی بیٹھی ہے۔ باریک ریشمی گھونگھٹ میں سے مجھے اس کے ریشمی رخسار دمکتے ہوئے معلوم ہو رہے ہیں۔ ہمیں راجدہ کی شریر اور چنچل سہیلیوں نے گھیر رکھا ہے۔ کوئی پان پیش کر رہی ہے اور کوئی دودھ کا گلاس پلانے پر تلی کھڑی ہے مگر میں انکار کر رہا ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ پان میں سپاریوں کی جگہ روڑے اور دودھ میں چینی کی جگہ نمک کاڈبہ انڈیل دیا گیا ہے۔ 

پھر میں نیچے جانے کے لیے اٹھا ہوں اور میرے ساتھ تکیہ بھی اٹھ آیا ہےکیونکہ اسے میرے کوٹ کے ساتھ چپکے سے چمٹا دیا گیا ہے۔ میرا مذاق اڑایا جارہا ہےاور میں شرمندہ ہو رہا ہوں۔ میں جوتا ڈھونڈرہا ہوں اور جوتا نہیں مل رہا۔۔۔ پھر جیسے کمپنی باغ میں پھولوں بھری بیلوں اور گنجان درختوں کی پرسکون چھاؤں میں راجدہ میرے قریب بیٹھی اون اور سلائیاں لیے کچھ بن رہی ہے۔ میں گھاس پر نیم دراز ہوں۔ ہمارے پاس ہی ایک بڑی ہی پیاری بچی پھولوں اور گھاس پر گرے پڑے پتوں سے کھیل رہی ہے۔ میں کبھی راجدہ اور کبھی بچی کو دیکھ رہا ہوں اور آسمان پر موسم بہار کی شام کی سنہری چمک پھیل رہی ہے۔ 

اور پھر دن نکل آیا۔ اور اسی دن میں امیدوں اور ارادوں سے بھر پور دل لیے راجدہ سے ملنے گیا۔ ایک بازار کا موڑ گھومتے ہی مجھے سامنے راجدہ کا بھائی آتا نظر آیا۔ مجھے یوں معلوم ہوا جیسے راجدہ خود چلی آرہی ہے۔ میرا جی چاہا کہ میں اسے گلے سے لگا لوں۔ قریب پہنچ کر وہ ٹھہر گیا۔ 

’’بھئی کل شام دفتر سے نکل کر گھر ضرور پہنچ جانا۔‘‘ 

’’کوئی محفل سرگرم ہو رہی ہے کیا؟‘‘ میں نے اپنے جسم میں مسرتوں کے غبار ے سے ابھرتے محسوس کیے۔ 

’’یہی سمجھ لو۔‘‘ اس نے حسب عادت مسکراتے ہوئے کہا، ’’سعید کا نکاح ہو رہا ہے۔‘‘ 

’’کہاں؟‘‘ میرے منہ سے خودبخود نکل گیا۔ لیکن مجھے اب تک یاد نہیں کہ میں نے ایسا کہا ہو۔ 

’’گھر ہی میں۔۔۔ ویسے تم ضرور پہنچ جانا۔‘‘ 

’’ضرور‘‘ اور وہ چلا گیا اور مسرتوں کے غبارے یکے بعد دیگرے پھٹتےچلے گیے اور میں نہ راجدہ کے گھر کی سمت بڑھ سکا اور نہ وہاں کھڑا ہوسکا۔ 

بازار میں ہر شے سے بے خبر میں سرجھکائے، ہاتھ لٹکائے یوں چلا جارہا تھا۔ جیسے اپنے جوان بھائی کو قبرستان میں دفنا کر آرہا ہوں۔ 

راجدہ سعید سے بیاہی جارہی تھی۔ وحشی اور ظالم لوگوں سے بھری ہوئی ریل گاڑی سے نکل کر میں نے نرم دل گارڈ کے ڈبے میں پناہ لی تھی اور نرم گارڈ نے مجھے بڑی محبت سے سگریٹ پیش کرنے کے بعد ڈبے سے باہر نکال دیا تھا اور میں پھر انہی لوگوں کے اژدحام میں تھا۔ تنہا اور بے یارومددگار۔ 

گھر پہنچ کر میں تمام رات سگریٹ پیتا اور بڑے تحمل سے راجدہ کے بغیر بسر ہونے والی اپنی زندگی کے نشیب و فراز گنتا رہا۔ راجدہ کے بغیر میں اپنی زندگی کاکوئی آخری نقشہ قائم کرنے سے بالکل قاصر تھا۔کسی وقت مجھے محسوس ہوتا کہ میں کسی اجنبی اور ناواقف شہر کے ان دیکھے بازاروں میں یوں ہی آوارہ اور بے مقصد گھوم رہا ہوں اور لوگ اپنی اپنی دوکانیں اور کاروبار بند کرکے گھروں کو جارہے ہیں۔ اور کبھی مجھے اپنی دونوں طرف ویران اور اجاڑ کھنڈرات کا مہیب سلسلہ حد نگاہ تک پھیلا معلوم ہوتا۔ اور میں چلا جارہا ہوں۔۔۔کہاں؟ کدھر؟ کوئی خبر نہیں۔۔۔ 

راجدہ میرے لیے روشنی کا مینار تھی جسے دیکھ کر بھولے بھٹکے جہاز ران رستے کی درست سمت اور خطرے سے آگاہ ہوتے ہیں۔ مگر اب اس مینار کی روشنی دھند کے دبیز غلاف میں لپٹی ہوئی تھی ۔ اور مجھے ہر قدم پر خطرے اور گمر ہی کا احساس ہو رہا تھا۔ راجدہ کو اپنے قریب پاکر مجھے اپنے تئیں ایسے پہاڑ کا احساس ہوتا جس کی چوٹی پر سورج طلوع ہو رہا ہو۔ لیکن اب یہ سورج غروب ہورہا تھا اور میرے دامن کی بستیوں میں شام کے تاریک سایے پھیل رہے تھے۔ 

راجدہ کا خیال مجھے ہر شے سے الگ تھلگ ہونے پر اکساتا تھا اور سب سے الگ ہو کر میں کئی بار۔۔۔ راجدہ کے خیال سے بھی آگے نکل گیا تھا۔ مگر آج ناامیدی اور خاموشی کے اس پل پر میں اکیلا کھڑا اپنے نیچے بہنے والی تنہائی اور درد کی تاریک خلیج کو تک رہا تھا۔ جہاں راجدہ کی کانپتی ہوئی مدھم سی شبیہ سرمئی دھندلکوں میں آہستہ آہستہ تحلیل ہو رہی تھی۔ 

شام کے وقت میں گھر سے نکلا اور کمپنی باغ کی طرف چل پڑا۔ باغ میں دھوپ ماند پڑرہی تھی۔ کہیں کہیں ڈھلتے سورج کی سرخی درختوں کے تنوں پر چمک رہی تھی۔ ہلکی سرد ہوا میں درختوں پر سے سوکھے پتے جھڑجھڑ کر گر رہے تھے۔ سڑک پر گرتے ہی وہ کچھ دور تک لڑھکتے اور پھر جیسے بے جان سے ہو کر رہ جاتے۔ 

پردہ کلب کے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے راجدہ، عظمی اور بھانجی اور بچوں کی آوازیں سنائی دیں۔ جیسے وہ اندر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہوں۔ میں نے اندر جھانک کر دیکھا وہاں کوئی نہ تھا۔ پلاٹ کے وسط والا آم کا گنجان درخت خاموش محافظ کی مانند کھڑا تھا۔ اور زرد زرد گھاس پر خالی ڈبیاں اور چوسی ہوئی گنڈیر یوں کےچھلکے بکھرے ہوئے تھے۔ سڑک پر گرے ہوئے سوکھے پتوں کو روندتا میں اس پلاٹ میں داخل ہوا جہاں ہماری محبت نےپہلی بار رنگ برنگ پھولوں اور پتوں میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں۔ یہاں مرجھائے ہوئے پودوں کی قطاریں سرجھکائے تھیں۔ چھت والے گلاب کی بیلیں سوکھ رہی تھیں۔ 

’’راجدہ دیکھ کر چلنا کہیں کانٹا نہ چبھ جائے۔‘‘ یہ بھانجی کی آواز تھی۔ 

’’اوئی پانی بڑا ٹھنڈا ہے تم بھی آجاؤ۔۔۔‘‘ یہ راجدہ کی آواز تھی۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں سے ساٹن کی شلوار کے پائنچے اٹھائے پلاٹ کے پانی میں چل رہی تھی۔ اب وہ میرے قریب کھڑی سینڈل کے تسمے باندھ رہی تھی اور فضا میں اس کے خوشگوار پسینے اور حنا کی خوشبو پھیل رہی ہے اور وہ بھانجی سے کہہ رہی ہے،’’ سچ میں تو ایسی راتیں باغوں میں گزارنا چاہتی ہوں۔ بس پائنچے اٹھائے پانی میں گھومتی پھرتی رہوں۔ اور جب تھک جاؤں تو۔۔۔‘‘ 

ہم کرسٹل میں آگیے ہیں اور راجدہ کیبن کے شیشوں میں سے مجھے پہلی بار محبت کی پاک اور بے لوث نظروں سے تک رہی ہے۔۔۔ اور راجدہ نے نقاب اٹھا لیا ہے۔۔۔ کالے نقاب میں اس کا سپید چہرہ۔۔۔جیسے تاریک رات میں کسی خانقاہ کا کھلا ہوا روشن طاق۔۔۔ راجدہ کہہ رہی ہے، ’’میں ڈرتی ہوں کہیں تم مجھ سے محبت کرنا چھوڑ تو نہ دو گے؟ سچ میں مرجاؤں گی۔‘‘ 

’’او۔۔۔ کبھی نہیں، کبھی نہیں راجدہ۔‘‘ 

اور میں غم سے نڈھال ہوکر سنگین بنچ پر بیٹھ گیا۔ میرے اوپر گلاب کی پژمردہ بیل کے جھاڑ تھے۔ میں نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا اور راجدہ۔۔۔ کبھی نہیں کبھی نہیں اور پھر رم جھم رم جھم۔۔۔ مدھم بارش کی غمگین موسیقی اور سیاہ پتھروں پر سے رک رک کر ٹھہر ٹھہر کر پھسلتے ہوئے پتھروں کے آنسو۔۔۔ 

ع روندے پتھر پہاڑاں دے 

میں پلاٹ سے باہر نکلا تو سرد اور نیلے آسمان پر تارے ٹمٹمارہے تھے۔ ہوا تھم گئی تھی اور باغ کے گنجان درخت یوں خاموش اور متفکر کھڑے تھے جیسے وہ بے زبان فرشتے ہوں اورراہ میں کھڑے کسی بزرگ کے جنازے کا انتظار کر رہے ہوں۔ 

وقت کا نہ رکنے والا چکر گھومتا گیا۔ میں نے راجدہ کے ہاں آنا جانا چھوڑ دیا۔ کچھ عرصے تک راجدہ کے دکھ بھرے خط مجھے ملتے رہے لیکن میری طرف سے کوئی جواب نہ ملنے پر اس نے بھی خط لکھنے بند کردیے۔ میرا زیادہ وقت لائبریری میں گزرتا تھا۔ دنیا کے بہترین مصنفوں کی کتابوں نے میرے دل و دماغ کو روشنی اور سکون عطا کیا۔ 

قسم قسم کی تصانیف سے بھری ہوئی لمبی لمبی الماریوں کے پاس فاؤسٹ جین ایر، سلامیو اور پیام مشرق پڑھتے پڑھتے جب کبھی مجھے راجدہ کا خیال آتا تو میں آپ سے شرمسار سا ہوجاتا۔ جیسے وہ کوئی لڑائی، مارکٹائی والی فلم ہو، جسے میں نے کبھی بڑے شوق سے دیکھا ہو۔۔۔پھر بھی کسی وقت جب بارش موسلادھار ہو رہی ہوتی تو میں لائبریری کی بالکونی میں کھڑا نیچے کالج کے پلاٹ میں ننگے بنچوں، سرسبز گھاس اور عشق پیچاں کے کالسی پھولوں کو دیکھتے دیکھتے محسوس کرتا جیسے راجدہ مجھ سے جدا نہیں ہوئی۔ وہ اب بھی میرے قریب اس بالکونی میں کھڑی گرتی بارش میں پلاٹ کا نظارہ کر رہی ہے اور پھر میرا دل راجدہ کی محبت کی غیرفانی جذبات سے مالامال ہوجاتا۔ 

انہی لمحات میں مجھے اپنے اردگرد ننھی اور کم سن پریوں کے نازک پروں کی نرم پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی اور میرے دل کے بھی جیسے پر نکل آتے، اور وہ بھی ان معصوم آسمانی روحوں کے جھرمٹ میں مل کر مصروف پرواز ہوجاتا۔ جنوری کی ایک ابر آلود شام کو۔۔۔جب کہ سردی اپنے جوبن پر تھی، میں لائبریری سے باہر نکل رہا تھا کہ راجدہ کا بھائی مل گیا۔ گرم سوٹ میں ملبوس سگریٹ سلگائے، اس نےگرم جوشی سے میری طرف محبت کا ہاتھ بڑھایا۔ 

’’کہاں رہتے ہیں آپ؟ کبھی ملتے ہی نہیں بھئی کوئی غلطی ہو۔۔۔۔‘‘ 

میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ اس کے قہقہے کا اندازراجدہ سے کس قدر ملتا تھا۔۔۔ ایک پل کے لیے میں کائنات کی ہر شے سے الگ ہو کر راجدہ کے خیال میں کھوگیا۔ 

ہم ایک قریبی چائے خانے میں داخل ہوگیے۔ یہاں کی فضا ہم قسم کے لوگوں اور سگرٹوں کے دھوئیں سے بھری ہوئی تھی۔ ہم نے چائے منگوائی اور کافی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ جب ہم ہوٹل سے باہر نکلے تو مدھم لیمپوں کی بھیگی ہوئی روشنی میں گیلی سڑک پر جابجا پانی کے گڑھے چمک رہے تھے۔ اور لوگ لمبےکوٹوں اور گرم چادروں میں منہ چھپائے جلدی جلدی گزر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ بارش ایک دفعہ ہو کر ہٹی ہے۔ ہم خاموشی سے چلے جارہے تھے۔ ابھی بمشکل ایک بازار ہی طے کیا ہوگا کہ پھر بونداباندی شروع ہوگئی اور جب راجدہ کے گھر والی گلی قریب آئی تو بارش یک لخت تیز ہوگئی۔ 

ہم لپک کر گلی میں گھسے اور ایک مکان کی ڈیوڑھی میں کھڑے ہوگیے۔ بارش کی چھیڑ چھاڑ شروع ہوگئی تھی۔ ہم رومالوں سے اپنے اپنے کوٹوں سے بارش کا پانی پونچھ رہے تھے اور ادھر ادھر بارش کے پرنالوں میں سے بارش کا پانی ایک مسلسل شور کے ساتھ گر رہا تھا۔ ہوا سرد ہوگئی تھی۔ گلی کے لیمپوں کی روشنی گرتی بارش کے دھندلے نقاب میں ماند سی پڑگئی تھی، اور گلی میں اس سرے سے دوسرے سرے تک دھواں سا اٹھنے لگا تھا۔ راجدہ کا مکان یہاں سے تیسرا یا چوتھا تھا۔ اس کے بھائی نے کوٹ کے کالر اٹھاکر کہا،’’میرا خیال ہےگھر چلتے ہیں۔ یہاں کتنی دیر تک کھڑے رہیں گے۔‘‘ 

اس ابر آلود رات کو بارش کی لگاتار گونج میں کافی مدت کے بعد راجدہ کو پہلی بار دیکھنے کا خیال مجھے بڑا تسکین دہ محسوس ہوا۔ چنانچہ تیزی سے بھاگ کر ہم راجدہ کے گھر میں داخل ہوگیے۔ دیوان خانے کی بتی روشن تھی۔ اس نے مجھے نیچے بیٹھنے کو کہا اور خود کپڑے بدلنے اوپر چلا گیا۔ میں نے دیوان خانے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔ 

کمرے کی فضا گرم اور بیحد مہربان تھی اور وہاں سگریٹ کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ کرسیاں آتش دان کے قریب کھسکی ہوئی تھیں اور آتش دان میں لکڑیوں کے جل جانے پر دہکتے ہوئے کوئلوں کی سرخ لو جگمگا رہی تھی۔ تپائی پر ریڈیو خاموش پڑا تھا۔ قریب ہی راکھ دان میں تازہ بجھے ہوئے سگریٹ میں سے دھوئیں کی پتلی لکیر اٹھ رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا ابھی ابھی کوئی وہاں سے اٹھ کر گیا ہے۔ کمرے کا حلیہ آج سے کچھ عرصہ پہلے کی نسبت بالکل تبدیل ہو چکا تھا۔ فرش پر دری کے بجائے کافی بڑا ایرانی قالین بچھا ہوا تھا۔ ایک طرف پلنگ کے قریب نئی طرز کا سنگھار میز پر پڑا تھا جس پر ہر قسم کا سنگھار کا سامان چمک رہا تھا۔ سنگھار میز کے کونے میں سعید کی تصویر چاندی کے فریم میں مسکرا رہی تھی۔ پلنگ کے پاس ہی سرہانے کی طرف ایک چھوٹی سی میز پر کچھ کتابیں، پیڈ اور قلم دوات اور ٹیبل لیمپ رکھا ہوا تھا۔ کارنس کی پٹی ہلکے سبز رنگ کی ریشمی چادر سے ڈھکی ہوئی تھی اور دونوں کناروں پر گلدانوں میں کاغذی رنگین پھول اصلی پھولوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ کارنس کے اوپر وہی شیراز کے پرانے دروازوں، لمبے لمبے پر اسرار جالی دار جھروکوں اور مسجد کے دودھیا میناروں والی تصویر لٹک رہی تھی۔ یہ تصویر اور ریڈیو پہلے اوپر ہوا کرتے تھے۔ 

مجھے یہ سوچنے میں بالکل دیر نہ لگی کہ یہ کمرہ راجدہ بیگم کا تھا۔ میں نے راکھ دان میں سگریٹ مسلا اور ریڈیو کی بتی روشن کردی ۔ لاہور، دہلی۔۔۔ بمبئی۔۔۔ ریڈیو کی سوئی ڈائیل کا نصف سے زیادہ حصہ طے کر چکی تھی۔ معاً ایک جگہ میرا ہاتھ خودبخود رک گیا۔ یہ قاہرہ تھا اور وہاں سے عربی موسیقی کا پروگرام شروع تھا۔ دف بج رہی تھی۔ اور لڑکے اور لڑکیاں مل کر گارہے تھے۔ گیت کے بول میری سمجھ سے باہر تھے۔ مگر ان کی گہری لمبی سوگوار کانپتی ہوئی تانیں دل پر برابر اثر انداز ہو رہی تھی۔ یہ تانیں لرز لرز کر دل کی گہرائیوں سے اٹھتیں اور شعلے کی مانند لپک کر پھیل جاتی تھیں۔ ان میں سادگی، سچائی اور تڑپ تھی۔ 

جب لڑکوں یا لڑکیوں کی ٹولی اپنے بول ختم کرتی تو دیر تک دف بجتی رہتی جیسے کوئی بدوی کھجور کے درخت کو ہلا رہا ہو۔ اور پکی ہوئی موٹی موٹی کھجوریں زمین پر گر رہی ہوں۔ پھر لڑکیوں کی باریک آوازیں تنی ہوئی کمانوں سے نکلےہوئے سہر ی تیروں کی مانند اوپر کو اٹھتیں۔ یہ عرب کی صحرا زادیوں کے گیت تھے۔ جنہیں وہ خاص خاص موقعوں پر گاتی ہیں۔ کبھی چاندنی رات میں کھجوروں تلے ٹھنڈی ریت پر محفلیں جما کر، کبھی میدان جنگ سے لوٹتے ہوئے اپنے خاوندوں اور بھائیوں کی آمد پر، کبھی قاہرہ ریڈیو اسٹیشن پر آکر۔۔۔ 

دروازہ کھلا اور راجدہ کا بھائی اور سعید اندر داخل ہوئے۔ میں نے ریڈیو بند کردیا۔ سعید بھورے اوور کوٹ میں ملبوس تھا اور راجدہ کا بھائی گرم چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ 

’’بڑے دنوں بعد نظر آئے۔ کہیں گیے ہوئے تھے؟‘‘ سعید نے میری طرف ہاتھ بڑھا کر پوچھا۔ 

’’جی نہیں۔ یہیں تھا۔ دراصل کام کی زیادتی کے باعث۔۔۔‘‘ 

’’بہت خوب۔۔۔ آدمی کام کرتا ہی اچھا لگتا ہے،‘‘ سعید نے بوڑھوں کی مانند مجھے نصیحت کی۔ راجدہ کا بھائی سنگھارمیز کی دراز دیکھ کر بولا، ’’بھئی سگریٹ ختم ہوگیے میاں!‘‘ 

اور میں نے جیب سے دو ماریٹر کا ڈبہ نکال کر میز پر رکھ دیا اور وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا اور مجھے راجدہ کا خیال آگیا۔۔۔ راجدہ کہاں ہے؟ شاید اوپر سو رہی ہوگی۔ اس نے تو کہا تھا میں زہر کھالوں گی۔ کیا اسے میرے آنے کی خبر نہیں ہوئی۔۔۔؟ 

دروازہ پھر کھلا اور عظمی اور اختر اندر داخل ہوئیں۔ اختر اپنی بچی اٹھائے ہوئے تھی اور عظمی کے ہاتھ میں سلائیاں اور نصف بنے ہوئے موزے تھے۔ 

’’کہیں باہر گئے ہوئے تھے کیا؟‘‘ عظمی نے کرسی آتش دان کے قریب لاتےہوئے پوچھا۔ 

’’جی نہیں۔۔۔ یہیں تھا۔‘‘ 

’’اچھا۔‘‘ 

یہ ذرا سی، اچھا کہہ کر وہ بڑے اطمینان سے موزے بننے لگی۔ جس طرح کوئی بچہ قلم چھڑک کر لکھنے میں مشغول ہوجائے۔ یہ ’اچھا‘ سیاہی کا ایک دھبہ تھا جو میرے کپڑوں پر چھڑکا گیا تھا۔ اختر اور سعید تیز تیز باتیں کر رہے تھے۔ راجدہ کا بھائی اختر کی بچی سے کھیل رہا تھا۔ گلی میں روشن دان کے چھجوں پر گرتی بارش کا شور اندر سنائی دے رہا تھا۔ آتش دان میں آگ تیز کردی گئی۔ عظمی خاموشی سے اپنے کام میں لگی ہوئی تھی اور میں کرسی میں دھنسا خاموشی سے سگریٹ پیتے ہوئے اس کے سنہری بالوں اور سپید چہرہ کے باریک خطوط کو آگ کی روشنی میں چمکتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ 

دفعتاً کالے کمبل میں منہ سر لپیٹے کوئی دروازے میں نمودار ہوا۔ کمبل پر بارش کے قطرے جابجا چمک رہے تھے۔ سب پلٹ کر اسے دیکھنے لگے۔ اس آدمی نے کمبل سے ایک ہاتھ نکال کر اسے منہ پر سے کھسکایا اور یہ ’’چچا‘‘ صاحب تھے۔ چچا اپنی کرنجی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھ کر بولا، ’’باہر بارش نے تو برا حال کردیا ہے۔ اندر کیا خفیہ میٹنگ ہو رہی ہے۔‘‘ میں ہنس پڑا اور کوئی نہ بولا۔ ویسے زیر لب سبھی مسکرا رہے تھے۔ چچا اتنا کہہ سنگار میز کی طرف بڑھا اور اس کے درازوں میں دیر تک کچھ تلاش کرتا رہا اور کسی نے اس سے کچھ نہ پوچھا۔ آخر وہ خود ہی عظمی کی جانب مڑا۔ 

’’بھئی لڑکی۔۔۔ میں موم بتیوں کا ایک سالم بنڈل لایا تھا اور اسی دراز میں رکھا تھا، غائب کیوں ہوگیا؟‘‘ 

’’آپ ہی لائے تھے آپ ہی نے رکھا تھا اور آپ ہی جانیں۔‘‘ عظمی نے موزے بنتے ہوئے جواب دیا اور چچا زیر لب نہ معلوم کیا کیا بڑبڑاتا ہوا پھر ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگا۔ سعید بولا، ’’چچا موم بتیوں کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ چچا خاموش رہا۔ آخر اسے ایک جگہ موم بتیوں کا سالم بنڈل مل گیا اور وہ کمبل سے منہ سر لپیٹ کر باہر نکلتے ہوئے بولا، ’’ضرورت کیا ہے بھئ، بازی لگائی ہوئی ہے اور تیل ختم ہوگیا۔‘‘ وہ باہر نکل گیا اور سب ہنسنے لگے۔ 

دروازہ کھلا اور ایک دبلی پتلی سی لڑکی جس کا قد انار کا بوٹا اور ہونٹ باریک اور رخسار ریشمی تھے۔ دونوں ہاتھوں میں چائے کا ٹرے لیے سنبھل کر قدم اٹھاتی اندر داخل ہوئی۔۔۔ یہ راجدہ تھی۔ 

راجدہ۔۔۔میری موم بتی، میری مری انگرڈ برجمین اور میری جین ایرا اور میرے میدان کی آگ اور میرے پہاڑ کا سورج، راجدہ نے جھک کر ٹرے میز پر رکھا اور پھلوں سے لدی ہوئی شا خ نے لچک کر زمین کو اپنے شیریں میوے پیش کرنا شروع کردیے اور ایران کی زہرہ جمال دوشیزاؤں نے اپنے سوڈانی دف اٹھائے اور قہوہ خانے کی پراسرار فضا میں رقص کرنا شروع کردیا۔ پرانے قالینوں پر، مومی شمعوں کی دھیمی دھیمی روشنی میں ان کے نیم عریاں ادھ پکے سنہری جسم بے قرار شعلوں میں تبدیل ہوگیے۔ اور کم عمر خوبصورت بچے ترکی میخانوں میں گرم گرم قہوہ لیے ادھر اُدھر گھومنے لگے۔ شیراز کے باغات میں چاندی کے فوارے ابل رہے تھے اور مسجدوں کے دودھیا گنبدوں کے اوپر نیلے آسمان پر سپید و براق کبوتروں کی ٹولیاں محو پرواز تھیں اور لمبارڈی کے خیابانوں میں پتھریلی شاہراہوں کے دونوں جانب جھکی ہوئی نرم بیلوں پر کانسی رنگ کے انگوروں کے خوشے پک گیے تھے اور ان پر سفیدی سی جم رہی تھی۔ 

گلمرگ کی رنگین وادیوں میں چناروں کی ٹہنیوں پر سرخ سرخ شگوفوں کی شمعیں روشن ہوگئی تھیں۔ باغات کے گھنے ذخیروں میں کشمیر کی شوخ وشنگ سیب کے درختوں پر سے سیب اتار اتار کر اپنے ٹوکروں میں رکھ رہی تھیں اور راجدہ نے ٹرے میز پر رکھ دیا۔ راجدہ خاموشی سے باہر نکل گئی۔ اس نے کسی سے بات نہ کی۔ اس نے کسی کی طرف آنکھ نہ اٹھائی۔ راجدہ نے لکھا تھا میں زہر کھالوں گی اور راجدہ نے زہر کھالیا تھا۔ چائے کا گرم گھونٹ حلق میں اتارتے ہوئے، میں نے راجدہ کی آواز سنی۔ وہ اپنی امی کو بلا رہی تھی اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ خواب کے جزیروں سے مجھے آوازیں دے رہی ہے۔ میرے دل میں ایک اجنبی اور مقدس خیال بجلی کی مانند چمکا اور میرا ذہن چکا چوند ہو کر رہ گیا۔ 

ایک قسم کی بزرگی، عظمت اور برتری کا خیال۔ جو بھر تری ہری کو گھنے جنگلوں میں اور موسٰی کوآگ کی طرف کھینچتا ہوا لے گیا اور جس نے کالی داس کو میگھ دوت اور دانتے کو ڈیوائن کامیڈی لکھنے پر اکسایا۔ میں نے سگریٹ آتش دان میں پھینکا اور اس خیال کی تعظیم میں میرا سر خود بخود جھک گیا۔ جب میں گلی سے نکل رہا تھا تو مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میں صدبہار درآغوش، اقلیم محبت کی سنہری خیابانوں میں داخل ہو رہا ہوں۔ مجھے اپنے آپ پر ایک ایسے بجرے کا گمان ہو رہا تھا جس کے ریشمی بادبان تنے ہوئے ہوں اور جسے مشرقی ہواؤں کے مہربان جھونکے آہستہ آہستہ دور۔۔۔ پرسکون جھیلوں، روشن پہاڑوں اور پھولوں کے ڈھکے ہوئے گم نام جزیروں کی طرف لیے جارہے ہوں۔۔۔ 

آج راجدہ کی شادی کو تیسرا سال ہو رہا ہے۔ مگر میری راجدہ اس وقت بھی میرے پاس ہے۔ وہ ازل سے میرے پاس تھی اور ابد تک رہے گی اور اس کا سعید کی راجدہ سے کوئی تعلق نہیں۔ جس طرح کسی قد آور درخت سے چمٹی ہوئی لچکیلی بیل رات کی خاموشی میں اپنی غذا حاصل کرتی ہے، اسی طرح میں راجدہ کی محبت سے اپنی غذا حاصل کر رہا ہوں۔ 

میں اس کی محبت کو ہضم کر گیا ہوں اور اس کے اجزا میرے روح و بدن میں سرایت کر گیے ہیں۔ سعید کی راجدہ کے تین بچے ہیں اور اب وہ سعید کی راجدہ کم اور اپنے بچوں کی زیادہ ہے لیکن میری راجدہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی بے لوث محبت کی تمام جائداد کا واحد مالک ہوں۔ وہ ایک سدا بہار درخت ہے جو مجھے اپنی ایک ٹھنڈی چھاؤں عطا کرتا ہے۔ ایک چشمہ ہے جس کا شفاف پانی محض میری خاطر زمین سے پھوٹتا ہے اور ایک گم نام وادی جس کے نشیب و فراز صرف میرے قدموں کی چاپ سے آشنا ہیں۔ 

جب مشرق میں صبح ہوتی ہے تو میں اسے اپنےساتھ کرنوں کا تاج پہنے زریں تخت پر بیٹھے اوپر کو اٹھتے دیکھتا ہوں۔ شام کے وقت جب وادیوں پر اندھیرا چھانے لگتا ہے تو ہم پہاڑ پر چڑھ کر ان کی رخصتی کا گیت ہم آواز ہوکر گاتے ہیں اور جب رات کا جادو پھیل جاتا ہے تو ستاروں کے دریچے کھول کر نورانی راستوں پر سے گزرتی ہوئی میرے پاس آجاتی ہے اور ہم تمام رات گلاب کے پیالوں میں شبنم کی شراب پیتے ہیں اور ازلی و ابدی محبت کے غیر فانی گیت گاتے رہتے ہیں۔ 

ہر جگہ اور ہر مقام پر ہمارے قدم ایک ساتھ اور ہم آہنگ ہو کر اٹھتے ہیں۔ اس کا خیال مجھے اپنے تئیں اس بادل کا احساس دلاتا ہے جو خشک اور بنجر زمینوں پر بارش کے موتی لٹانے کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے بلند ہوا ہو۔ 

وہ بوڑھی ہے نہ جوان، کنواری ہے نہ شادی شدہ۔۔۔ اسے وقت کا بوڑھا ہاتھ کبھی نہیں چھو سکتا۔ وہ اس کی دسترس سے باہر، لازوال اٹل اور غیر فانی ہے۔ وہ ہر لحظہ، ہر گھڑی، ہر پل میرے ساتھ ہے۔ وہ اس وقت بھی میرے دل پر اپنی محبت کے نازک پروں کا سایہ کیے ہوئے ہے جب کہ میں اس کی داستان قلم بند کر رہا ہوں۔ 

’’سعید کی راجدہ سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور میں اس کے بارے میں کبھی کوئی افسانہ نہیں لکھوں گا۔۔۔‘‘ 

کوئی تبصرے نہیں: