چوتھی کا جوڑا — عصمت چغتائی

 سہ دری کے چوکے پر آج پھر صاف ستھری جازم بچھی تھی۔ ٹوٹی پھوٹی کھپریل کی جھریوں میں سے دھوپ کے آڑے ترچھے قتلے پورے دالان میں بکھرے ہوئے تھے۔ محلے ٹولے کی عورتیں خاموش اور سہمی ہوئی سی بیٹھی تھیں۔ جیسے کوئی بڑی ورادات ہونے والی ہو۔ ماؤں نے بچے چھاتیوں سے لگا لئے تھے۔ کبھی کبھی کوئی محنتی سا چڑ چڑا بچہ رصد کی کمی کی دہائی دے کر چلا اٹھتا۔ 


’’نائیں نائیں میرے لال!‘‘ دبلی پتلی ماں اسے اپنے گھٹنے پر لٹا کر یوں ہلاتی جیسے دھان ملے چاول دھوپ میں پٹک رہی ہو۔ اور پھر ہنکارے بھر کر خاموش ہو جاتا۔ 


آج کتنی آس بھری نگاہیں کبریٰ کی ماں کے متفکر چہرے کو تک رہی تھیں، چھوٹے عرض کی ٹول کے دو پاٹ تو جوڑ لئے گئے تھے، مگر ابھی سفید گزی کا نشان بیونتنے کی کسی کو ہمت نہ پڑی تھی۔ کاٹ چھانٹ کے معاملہ میں کبریٰ کی ماں کا مرتبہ بہت اونچا تھا۔ ان کے سوکھے سوکھے ہاتھوں نے نہ جانے کتنے جہیز سنوارے تھے، کتنے چھٹی چھوچھک تیار کئے تھے اور کتنے ہی کفن بیونتے تھے۔ جہاں کہیں محلہ میں کپڑا کم پڑ جاتا اور لاکھ جتن پر بھی بیونت نہ بیٹھی، کبریٰ کی ماں کے پاس کیس لایا جاتا۔ کبریٰ کی ماں کپڑے کی کان نکالتیں، کلف توڑتیں، کبھی تکون بناتیں، کبھی چوکھنٹا کرتیں اور دل ہی دل میں قینچی چلا کر آنکھوں سے ناپ تول کر مسکرا پڑتیں۔ 


’’آستین کیلئے گھیر تو نکل آئے گا، گریبان کے لئے کتر ن میری بقچی سے لے لو۔‘‘اور مشکل آسان ہو جاتی۔ کپڑا تراش کردہ کترنوں کی پنڈی بنا کر پکڑا دیتیں۔ 


پر آج تو سفید گزی کا ٹکڑا بہت ہی چھوٹا تھا اور سب کو یقین تھا کہ آج تو کبریٰ کی ماں کی ناپ تول ہار جائے گی، جب ہی تو سب دم سادھے ان کا منہ تک رہی تھیں۔ کبریٰ کی ماں کے پر استقلال چہرے پر فکر کی کوئی شکل نہ تھی، چار گرہ گزی کے ٹکڑے کو وہ نگاہوں سے بیونت رہی تھیں۔ لال ٹول کا عکس ان کے نیلگوں زرد چہرے پر شفق کی طرح پھوٹ رہا تھا۔ وہ اداس اداس گہری جھریاں اندھیری گھٹاؤں کی طرح ایک دم اجاگر ہو گئیں، جیسے گھنے جنگل میں آگ بھڑک اٹھی ہو، اور انھوں نے مسکرا کر قینچی اٹھا لی۔ 


محلہ والیوں کے جمگھٹے سے ایک لمبی اطمینان کی سانس ابھری۔ گود کے بچے بھی ٹھسک دئے گئے۔ چیل جیسی نگاہوں والی کنواریوں نے چمپا چمپ سوئی کے ناکوں میں ڈورے پروئے، نئی بیاہی دلہنوں نے انگشتانے پہن لئے۔ کبریٰ کی ماں کی قینچی چل پڑی تھی۔ 


سہ دری کے آخری کونے میں پلنگڑی پر حمیدہ پیر لٹکائے ہتھیلی پر ٹھوڑی رکھے کچھ سوچ رہی تھی۔ 


دوپہر کا کھانا نمٹا کر اسی طرح بی اماں سہ دری کی چوکی پر جا بیٹھتی ہیں اور بقچی کھول کر رنگ برنگے کپڑوں کا جال بکھیر دیا کرتی ہیں۔ کونڈھی کے پاس بیٹھی مانجھتی ہوئی کبریٰ کن انکھیوں سے ان لال کپڑوں کو دیکھتی تو ایک سرخ جھپکی اس زردی مائل مٹیائے رنگ میں لپک اٹھتی۔ روپہلی کٹوریوں کے جال جب پولے پولے ہاتھوں سے کھول کر اپنے زانوؤں پر پھیلاتیں تو ان کا مرجھایا ہوا چہرہ ایک عجیب ارمان بھری روشنی سے جگمگا اٹھتا۔ گہری صندوقوں جیسی شکنوں پر کٹوریوں کا عکس ننھی ننھی مشعلوں کی طرح جگمگانے لگتا۔ ہر ٹانکے پر زری کا کام ہلتا اور مشعلیں کپکپا اٹھتیں۔ 


یاد نہیں کب اس کے شبنمی دوپٹے بنے، ٹکے تیار ہوئے اور گاڑی کے بھاری قبر جیسے صندوق کی تہہ میں ڈوب گئے۔ کٹوریوں کے جال دھندلا گئے۔ گنگا جمنی کرنیں ماند پڑ گئیں۔ طولی کے لچھے اداس ہو گئے مگر کبریٰ کی برات نہ آئی۔ جب ایک جوڑا پرانا ہو جاتا تو اسے چالے کا جوڑا کہہ کر سینت دیا جاتا اور پھر ایک نئے جوڑے کے ساتھ نئی امیدوں کا افتتاح ہو جاتا۔ بڑی چھان بین کے بعد نئی دلھن چھانٹی جاتی۔ سہ دری کے چوکے پر صاف ستھری چادر بچھتی۔ محلہ کی عورتیں ہاتھ میں پاندان اور بغلوں میں بچے دبائے جھانجھیں بجاتی آن پہنچتیں۔ 


’’چھوٹے کپڑے کی گونٹ تو اتر آئے گی، پربچیوں کا کپڑا نہ نکلے گا۔‘‘ 


’’بوبولو اور سنو۔ تو کیا نگوڑ ماری ٹول کی چولیں پڑیں گی؟‘‘ اور پھر سب کے چہرے فکر مند ہوجاتے۔ کبریٰ کی ماں خاموش کیمیاگر کی طرح آنکھوں کے فیتے سے طول و عرض ناپتی اور بیویاں آپس میں چھوٹے کپڑے کے متعلق کھسر پھسر کر کے قہقہہ لگاتیں۔ ایسے میں کوئی من چلی کوئی سہاگ یا بنا چھیڑ دیتی۔ کوئی اور چار ہاتھ آگے والی سمدھنوں کو گالیاں سنانے لگتی، بیہودہ گندے مذاق اور چہلیں شروع ہو جاتیں۔ ایسے موقعوں پر کنواری بالیوں کو سہہ دری سے دور سر ڈھانک کر کھپریل میں بیٹھنے کا حکم دے دیا جاتا او رجب کوئی نیا قہقہہ سہ دری سے ابھرتا تو بے چاریاں ایک ٹھنڈی سانس بھر کر رہ جاتیں۔ ’’اللہ! ’’یہ قہقہے انھیں خود کب نصیب ہوں گے؟‘‘ 


اس چہل پہل سے دور کبریٰ شرم کی ماری مچھروں والی کوٹھری میں س جھکائے بیٹھی رہتی۔ اتنے میں کتر بیونت نہایت نازک مرحلے پر پہنچ جاتی۔ کوئی کلی الٹی کٹ جاتی اور اس کے ساتھ بیویوں کی مت بھی کٹ جاتی۔ کبریٰ سہم کر دروازے کی آڑ سے جھانکتی۔ 


یہی تو مشکل تھی۔ کوئی جوڑا اللہ مارا چین سے نہ سلنے پایا۔ جو کلی الٹی کٹ جائے تو جان لو نائن کی لگائی ہوئی بات میں ضرور کوئی اڑنگا لگے گا۔ یا تو دولھا کی کوئی داشتہ نکل آئے گی یا اس کی ماں ٹھوس کڑوں کا اڑنگا باندھے گی، جو گوٹ میں کان آ جائے تو سمجھ لو یا تو مہر پر بات ٹوٹے گی یا بھرت کے پایوں کے پلنگ پر جھگڑا ہو گا۔ چوتھی کے جوڑے کا شگون بڑا نازک ہوتا ہے۔ بی اماں کی ساری مشاقی اور سگھڑاپا دھرا رہ جاتا۔ نہ جانے عین وقت پر کیا ہو جاتا کہ دھنیا برابر بات طول پکڑ جاتی۔ بسم اللہ کے زور سے سگھڑ ماں نے جہیز جوڑنا شروع کر دیا تھا۔ ذرا سی کترن بھی بتیا تو تیلے دانی یا شیشی کا غلاف سی کر دھنک گو کھرو سے سنوارکر رکھ دیتیں۔ لڑکی کا کیا ہے کھیرے ککڑی کی طرح بڑھتی ہے۔ جو برات آ گئی تو یہی سلیقہ کام آئے گا۔ 


اور جب سے ابا گزرے۔ سلیقہ کا بھی دم پھول گیا۔ حمیدہ کو ایک دم ابا یاد آ گئے۔ ابا کتنے دبلے پتلے لمبے جیسے محرم کا علم۔ ایک بار جھک جاتے تو سیدھے کھڑا ہونا دشوار تھا۔ صبح ہی صبح اٹھ کر نیم کی مسواک توڑ لیتے اور حمیدہ کو گھٹنے پر بٹھا کر نہ جانے کیا سوچا کرتے۔ پھر سوچتے سوچتے نیم کی مسواک کا کوئی پھونسڑا حلق میں چلا جاتا اور وہ کھانستے ہی چلے جاتے۔ حمیدہ بگڑ کر ان کی گود سے اتر آتی۔ کھانسی کے دھکوں سے یوں ہل ہل جانا اسے قطعی پسند نہ تھا۔ اس کے ننھے سے غصے پر وہ ہنستے اور کھانسی سینے میں بے طرح الجھتی جیسے گردن کٹے کبوتر پھڑ پھڑا رہے ہوں۔ پھر بھی اماں آ کر انھیں سہلادیتیں۔ پیٹھ پر دھپ دھپ ہاتھ مارتیں۔ 


’’توبہ ہے، ایسی بھی کیا ہنسی؟‘‘ 


اچھوکے دباؤ سے سرخ آنکھیں اوپر اٹھا کر ابا بے کسی سے مسکراتے۔ کھانسی تو رک جاتی مگر وہ دیر تک بیٹھے ہانپا کرتے۔ 


’’کچھ دوا دارو کیوں نہیں کرتے؟ کتنی بار کہا تم سے؟‘‘ 


’’بڑے شفا خانے کا ڈاکٹر کہتا ہے سوئیاں لگواؤ اور روز تین پاؤ دودھ اور آدھی چھٹانک مکھن۔‘‘ 


’’اے خاک پڑے ان ڈاکٹروں کی صورت پر۔ بھلا ایک تو کھانسی ہے اوپر سے چکنائی۔ بلغم نہ پیدا کردےگی۔ حکیم کو د کھاؤ کسی کو۔‘‘ 


’’د کھاؤں گا۔‘‘ابا حقہ گڑ گڑاتے اور پھر اچھو لگتا۔ 


’’آگ لگے اس موئے حقے کو۔ اسی نے تو یہ کھانسی لگائی ہے۔ جوان بیٹی کی طرف بھی دیکھتے ہو آنکھ اٹھا کر۔‘‘ 


اور ابا کبریٰ کی جوانی کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتے۔ کبریٰ جوان تھی۔ کون کہتا تھا کہ جوان تھی۔ وہ تو جیسے بسم اللہ کے دن سے ہی اپنی جوانی کی آمد کی سناؤنی سن کر ٹھٹھک کر رہ گئی تھی۔ نہ جانے کیسی جوانی آئی تھی کہ نہ تو اس کی آنکھوں میں کرنیں ناچیں نہ اس کے رخساروں پر زلفیں پریشان ہوئیں نہ اس کے سینے پر طوفان اٹھے، کبھی ساون بھادوں کی گھٹاؤں سے مچل مچل کر پریتم یا ساجن مانگے۔ وہ جھکی جھکی سہمی سہمی جوانی جو نہ جانے کب دبے پاؤں اس پر رینگ آئی، ویسے ہی چپ چاپ نہ جانے کدھر چل دی۔ میٹھا برس نمکین ہوا اور پھر کڑوا ہو گیا۔ 


ابا ایک دن چوکھٹ پر اوندھے منھ گرے اور انھیں اٹھانے کے لئے کسی حکیم یا ڈاکٹر کا نسخہ نہ آسکا۔ اور حمیدہ نے میٹھی روٹی کے لئے ضد کرنی چھوڑ دی۔ اور کبریٰ کے پیغام نہ جانے کدھر راستہ بھول گئے۔ جانو کسی کو معلوم ہی نہیں کہ اس ٹاٹ کے پردے کے پیچھے کسی کی جوانی آخری سسکیاں لے رہی ہے۔ اور ایک نئی جوانی سانپ کے پھن کی طرح اٹھ رہی ہے۔ 


مگر بی اماں کا دستور نہ ٹوٹا، وہ اسی طرح روز دوپہر کو سہ دری میں رنگ برنگے کپڑے پھیلا کر گڑیوں کا کھیل کھیلا کرتی ہیں۔ کہیں نہ کہیں سے جوڑ جمع کر کے شبرات کے مہینے میں کریب کا دوپٹہ ساڑھے سات روپے میں خرید ہی ڈالا۔ بات ہی ایسی تھی کہ بغیر خریدے گزارہ نہ تھا۔ منجھلے ماموں کا تار آیا کہ ان کا بڑا لڑکا راحت پولیس کی ٹریننگ کے سلسلے میں آ رہا ہے۔ بی اماں کو تو بس جیسے اکدم گھبراہٹ کا دورہ پڑ گیا۔ جانو چوکھٹ پر برات آن کھڑی ہوئی۔ اور انہوں نے ابھی دلہن کی مانگ کی افشاں بھی نہیں کتری۔ ہول سے تو ان کے چھکے چھوٹ گئے۔ جھٹ اپنی منھ بولی بہن بندو کی ماں کو بلا بھیجا کہ ’’بہن میرا مری کا منھ دیکھو جو اسی گھڑی نہ آؤ۔‘‘ 


اور پھر دونوں میں کھسر پھسر ہوئی۔ بیچ میں ایک نظر دونوں کبریٰ پر بھی ڈال لیتیں۔ جو دالان میں بیٹھی چاول پھٹک رہی تھی۔ وہ اس کانا پھوسی کی زبان کو اچھی طرح سمجھتی تھی۔ 


اسی وقت بی اماں نے کانوں کی چار ماشہ کی لونگیں اتار کر منھ بولی بہن کے حوالے کیں کہ جیسے تیسے کر کے شام تک تولہ بھر گو کھروچھ ماشہ سلمہ ستارا اور پاوگز نیفے کے لئے ٹول لادیں۔ باہر کی طرف والاکمرہ جھاڑ پونچھ کر تیار کیا۔ تھوڑا سا چونا منگا کر کبریٰ نے اپنے ہاتھوں سے کمرہ پوت ڈالا۔ کمر تو چٹا ہو گیا مگر اس کی ہتھیلیوں کی کھال اڑ گئی اور جب وہ شام کو مسالہ پیسنے بیٹھی تو چکر کھا کر دوہری ہوگئی۔ ساری رات کروٹیں بدلتی گزری۔ ایک تو ہتھیلیوں کی وجہ سے، دوسرے صبح کی گاڑی سے راحت آ رہے تھے۔ 


’’اللہ! میرے اللہ میاں! اب کے تو میری آپا کا نصیبہ کھل جائے۔ میرے اللہ میں سو رکعت نفل تیری درگاہ میں پڑھوں گی۔‘‘ حمیدہ نے فجر کی نماز پڑھ کر دعا مانگی۔ 


صبح راحت بھائی آئے تو کبریٰ پہلے ہی سے مچھروں والی کوٹھری میں جا چھپی تھی۔ جب سیویوں اور پر اٹھوں کا ناشتہ کر کے بیٹھک میں چلے گئے تو دھیرے دھیرے نئی دلہن کی طرح پیر رکھتی کبریٰ کوٹھری سے نکلی اور جھوٹے برتن اٹھا لئے۔ ’’لاؤ میں دھوؤں بی آپا۔‘‘ حمیدہ نے شرارت سے کہا۔ 


’’نہیں۔‘‘وہ شرم سے جھک گئی۔ 


حمیدہ چھیڑتی رہی، بی اماں مسکراتی رہیں اور کریب کے دوپٹہ میں لپا ٹانکتی رہیں۔ 


جس راستہ کان کی لونگیں گئی تھیں اسی راستے پھول پتہ اور چاندی کی پازیب بھی چل دی اور پھر ہاتھوں کی دو دو چوڑیاں بھی جو منجھلے ماموں نے رنڈاپا اتارنے پر دی تھیں۔ روکھی سوکھی خود کھا کر آئے دن راحت کے لئے پر اٹھے تلے جاتے، کوفتے، بھنا پلاؤ مہکتے۔ خود سوکھا سانوالہ پانی سے اتار کر وہ ہونے والے داماد کو گوشت کے لچھے کھلاتیں۔ 


’’زمانہ بڑا خراب ہے بیٹی۔‘‘ وہ حمیدہ کو منھ پھیلاتے دیکھ کر کہا کرتیں۔ اور وہ سوچا کرتی۔ ’’ہم بھوکے رہ کر داماد کو کھلا رہے ہیں۔ بی آپا صبح سویرے اٹھ کر جادو کی مشین کی طرح جٹ جاتی ہے۔ نہار منہ پانی کا گھونٹ پی کر راحت کے لئے پر اٹھے تلتی ہے۔ دودھ اوٹاتی ہے تاکہ موٹی سی ملائی پڑے۔ اس کا بس نہیں تھا کہ وہ اپنی چربی نکال کر ان پر اٹھوں میں بھردے۔ اور کیوں نہ بھرے۔ آخر کو وہ ایک دن اس کا اپنا ہو جائے گا۔ جو کچھ کمائے گا اس کی ہتھیلی پر رکھ دے گا۔ پھل دینے والے پودے کو کون نہیں سینچتا؟ پھر جب ایک دن پھول کھلیں گے اور پھلوں سے لدی ہوئی ڈالی جھکے گی تو یہ طعنہ دینے والیوں کے منھ پر کیسا جوتا پڑے گا اور اس خیال ہی سے میری بی آپا کے چہرے پر سہاگ کھل اٹھا۔ کانوں میں شہنائیاں بجے لگتیں۔ اور وہ راحت بھائی کے کمرے کو پلکوں سے جھاڑتیں۔ ان کے کپڑوں کو پیار سے تہ کرتیں۔ جیسے وہ کچھ ان سے کہتے ہوں ۔ وہ ان کے بدبو دار چوہوں جیسے سڑے ہوئے موزے دھوتیں۔ بسا ندی بنیان اور ناک سے لتھڑے ہوئے رومال صاف کرتیں۔ ان کے تیل میں چہچہاتے ہوئے تکئے کے غلاف پر سوئٹ ڈ ریم کاڑھتیں۔ پر معاملہ چاروں کونے چوکس نہیں بیٹھ رہا تھا۔ راحت صبح انڈے پر اٹھے ڈٹ کر کھاتا ۔ اور شام کو آکر کوفتے کھا کر سوجاتا۔ اور بی اماں کی منہ بولی بہن حما نہ انداز میں کھسر پھسر کرتیں۔ 


’’ بڑا شرمیلا ہے بے چارہ۔‘‘ بی اماں تاویلیں پیش کرتیں۔ ’’ہاں یہ تو ٹھیک ہے پر بھئی کچھ تو پتا چلے رنگ ڈھنگ سے، کچھ آنکھوں سے۔‘‘ 


’’اے نوج،خدا نہ کرے میری لونڈ یا آنکھیں لڑائے۔اس کا آنچل بھی نہیں دیکھا ہے کسی نے۔‘‘بی اماں فخر سے کہتیں۔ 


’’اے تو پردا توڑ وانے کو کو ن کہے ہے۔‘‘بی آپا کے پکے مہاسوں کو دیکھ کر انھیں بی اماں کی دور اندیشی کی داد دیی پڑی۔ 


’’اے بہن، تم تو سچ میں بہت بھولی ہو۔ یہ میں کب کہوں ہوں۔ یہ چھوٹی نگوڑی کون سی بکرید کو کام آئے گی؟‘‘ وہ میری طرف دیکھ کر ہنستی۔ 


’’ارے او نک چڑھی! بہنوئی سے کوئی بات چیت، کوئی ہنسی مذاق، اونہہ واری چل دیوانی۔‘‘ 


’’اے تو میں کیا کروں خالہ؟‘‘ 


’’راحت میاں سے بات چیت کیوں نہیں کرتی؟‘‘ 


’’بھئی ہمیں تو شرم آتی ہے۔‘‘ 


’’اے ہے، وہ تجھے پھاڑ ہی تو کھائے گا۔‘‘بی اماں چڑ کر بولیں۔ 


’’نہیں تو۔ مگر...‘‘ میں لا جواب ہو گئی اور پھر مسکوٹ ہوئی۔ بڑی سوچ بچار کے بعد کھل کے کباب بنائے گئے۔ آج بی آپا بھی کئی بار مسکرا پڑیں چپکے سے بولیں۔ 


’’دیکھو ہنسنا نہیں، نہیں تو سارا کھیل بگڑ جائے گا۔‘‘ 


’’نہیں ہنسوں گی۔‘‘میں نے وعدہ کیا۔ 


’’کھانا کھا لیجئے۔‘‘میں نے چوکی پرکھانے کی سینی رکھتے ہوئے کہا۔ پھر جوپٹی کے نیچے رکھے ہوئے لوٹے سے ہاتھ دھوتے وقت میری طرف سر سے پاؤں تک دیکھا تو میں بھاگی وہاں سے۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اللہ توبہ کیا خناس آنکھیں ہیں۔’’جا نگوڑی ماری اری دیکھ تو سہی،وہ کیسا منہ بناتا ہے۔اے ہے سارا مزہ کرکرا ہو جائےگا۔‘‘ 


آپا بی نے ایک بار میری طرف دیکھا۔انکی آنکھوں میں التجا تھی۔لو ٹی ہوئی برا توں کا غبار تھا اور چوتھی کے پرانی جوڑ وں کی مانند اداسی۔ میں سر جھکا ئے پھر کھمبے سے لگ کر کھڑی ہوگئی۔ 


راحت خاموش کھاتے رہے، میری طرف نہ دیکھا۔ کھلی کے کباب کھاتے دیکھ کر مجھے چاہئے تھا کہ مذاق اڑاؤں۔ قہقہہ لگاؤں کہ ’’واہ جی واہ دولھا بھائی! کھلی کے کباب کھا رہے ہو۔‘‘ مگر جانو کسی نے میرا نر خرہ دبوچ لیا ہو۔ 


بی اماں نے جل کر مجھے واپس بلالیا۔ اور منھ ہی منھ میں مجھے کو سنے لگیں۔ اب میں ان سے کیا کہتی کہ وہ مزے سے کھا رہا ہے کم بخت۔ 


’’راحت بھائی! کوفتے پسند آئے؟‘‘ بی اماں کے سکھانے پر میں نے پوچھا۔ 


جواب ندارد۔ 


’’بتائیے نا؟‘‘ 


’’اری ٹھیک سے جا کر پوچھ‘‘۔ بی اماں نے ٹھوکا دیا۔ 


’’آپ نے لا کر دیئے۔ اور ہم کھائے۔ مزیدار ہی ہوں گے۔‘‘ 


’’ارے واہ رے جنگلی۔‘‘بی اماں سے نہ رہا گیا۔ 


’’تمھیں پتہ بھی نہ چلا، کیا مزے سے کھلی کے کباب کھا گئے۔‘‘ 


’’کھلی کے؟ ارے تو روز کاہے کے ہوتے ہیں؟ میں تو عادی ہو چکا ہوں کھلی اور بھوسا کھانے کا۔‘‘ 


بی اماں کا منھ اتر گیا۔ بی آپا کی جھکی ہوئی پلکیں اوپر نہ اٹھ سکیں۔ دوسرے روز بی آپا نے روزانہ سے دوگنی سلائی کی۔ اور پھر شام کو جب میں کھانا لے کر گئی تو بولے، ’’کہیئے آج کیا لائے ہیں؟ آج تو لکڑی کے برا دے کی باری ہے۔‘‘ 


’’کیا ہمارے یہاں کا کھانا آپ کو پسند نہیں آتا؟‘‘میں نے جل کر کہا۔ 


’’یہ بات نہیں۔ کچھ عجیب سا معلوم ہوتا ہے۔ کبھی کھلی کے کباب تو کبھی بھوسے کی ترکاری۔‘‘ 


میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ہم سوکھی روٹی کھا کے اسے ہاتھی کی خوراک دیں۔ گھی ٹپکتے پراٹھے ٹھنسائیں۔ میری بی آپا کو جو شاندہ نصیب نہیں اور اسے دودھ ملائی نگلوائیں۔ میں بھنا کر چلی آئی۔ 


بی اماں کی منھ بولی بہن کا نسخہ کام آ گیا اور راحت نے دن کا زیادہ حصہ گھر ہی میں گزارنا شروع کر دیا۔ بی آپا تو چولھے میں پھکی رہتیں۔ بی اماں چوتھی کے جوڑے سیا کرتیں۔ اور راحت کی غلیظ آنکھیں تیز بن کر میرے دل میں چبھا کرتیں۔ بات بے بات چھیڑنا۔ کھانا کھلاتے وقت کبھی پانی تو کبھی نمک کے بہانے سے اور ساتھ ساتھ جملہ بازی میں کھسیا کر بی آپا کے پاس جا بیٹھیا۔ جی چاہتا کہ کسی دن صاف کہہ دوں کہ کس کی بکری اور کون ڈالے دانہ گھاس۔ اے بی مجھ سے تمھارا یہ بیل نہ ناتھا جائے گا۔ مگر بی آپا کے الجھے ہوئے بالوں پر چولھے کی اڑتی ہوئی راکھ... نہیں... میرا کلیجہ دھک سے ہو گیا۔ میں نے ان کے سفید بال لٹ کے نیچ چھپا دیئے۔ ناس جائے اس کم بخت نزلہ کا بچاری کے بال پکنے شروع ہو گئے۔ 


راحت نے پھر کسی بہانے سے مجھے پکارا۔ ’’اونہہ!‘‘ میں جل گئی۔ پر بی آپا نے کٹی ہوئی مرغی کی طرح جو پلٹ کر دیکھا تو مجھے جانا ہی پڑا۔ 


’’آپ ہم سے خفا ہو گئیں؟‘‘راحت نے پانی کا کٹورا لے کر میری کلائی پکڑ لی۔ میرا دم نکل گیا اور بھاگی تو ہاتھ جھٹک کر۔ 


’’کیا کہہ رہے تھے؟‘‘بی آپا نے شرم و حیا سے گھیل ہوئی آواز میں کہا۔ میں چپ چاپ ان کا منھ تکنے لگی۔ 


’’کہہ رہے تھے کس نے پکایا ہے کھانا۔ واہ واہ! جی چاہتا ہے کھاتا ہی چلا جاؤں۔ پکانے والی کے ہاتھ کھا جاؤں... اوہ نہیں... کھا نہیں بلکہ چوم لوں۔‘‘ 


میں نے جلدی جلدی کہنا شروع کیا اور بی آپا کا کھردرا ہلدی دھنیا کی بساند میں سڑا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھ سے لگالیا۔ میرے آنسو نکل آئے۔ ’’یہ ہاتھ۔‘‘ میں نے سوچا جو صبح سے شام تک مسالہ پیتےھ ہیں، پانی بھرتے ہیں، پیاز کاٹتے ہیں، بستر بچھاتے ہیں، جوتے صاف کرتے ہیں۔ یہ بیکس غلام صبح سے شام تک جٹے ہی رہتے ہیں ان کی بیگار کب ختم ہو گی؟ کیا ان کا کوئی خریدار نہ آئے گا؟ کیا انھیں کبھی کوئی پیار سے نہ چومے گا؟ کیا ان میں کبھی مہندی نہ رچے گی؟ کیا ان میں کبھی سہاگ کا عطر نہ بسے گا؟ جی چاہا زور سے چیخ پڑوں۔ 


’’اور کیا کہہ رہے تھے؟‘‘بی آپا کے ہاتھ تو اتنے کھردرے تھے، پر آواز اتنی رسیلی اور میٹھی تھی کہ اگر راحت کے کان ہوتے تو... مگر راحت کے نہ کان تھے نہ ناک بس دوزخ جیسا پیٹ تھا۔ 


’’اور کہہ رہے تھے کہ اپنی بی آپا سے کہنا کہ اتنا کام نہ کیا کریں اور جوشاندہ پیا کریں۔‘‘ 


’’چل جھوٹی۔‘‘ 


’’ارے واہ جھوٹے ہوں گے آپ کے وہ...‘‘ 


’’اری چپ مردار!‘‘انھوں نے میرا منھ بند کر دیا۔ 


’’دیکھ تو سوئٹر بن گیا ہے انھیں دے آ۔ پر دیکھ تجھے میری قسم میرا نام نہ لیجیو۔‘‘ 


’’نہیں بی آپا۔ انھیں نہ دو وہ سوئٹر۔ تمھاری ان مٹھی بھر ہڈیوں کو سوئٹر کی کتنی ضرورت ہے؟‘‘میں نے کہنا چاہا پر کہہ نہ سکی۔ 


’’آپا بی تم خود کیا پہنوگی؟‘‘ 


’’ارے مجھے کیا ضرورت ہے؟ چولھے کے پاس تو ویسے ہی جھلس رہتی ہے۔‘‘ 


سوئٹر دیکھ کر راحت نے اپنی ایک ابرو شرارت سے اوپر تان کر کہا۔ 


’’کیا یہ سوئٹر آپ نے بنا ہے؟‘‘ 


’’نہیں تو۔‘‘ 


’’تو بھئی ہم نہیں پہنیں گے۔‘‘ 


میراجی چاہا کہ اس کا منھ نوچ لوں کمینے۔ مٹی کے تھودے۔ یہ سوئٹر ان ہاتھوں نے بنا ہے جو جیتے جاگتے غلام ہیں۔ اس کے ایک ایک پھندے میں کسی نصیبوں جلی کے ارمانوں کی گردنیں پھنسی ہوئی ہیں، یہ ان ہاتھوں کا بنا ہوا ہے جو ننھے پنگورے جھلانے کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ان کو تھام لو گدھے کہیں کے۔ اور یہ دو پتوار بڑے سے بڑے طوفان کے تھپیڑوں سے تمھاری زندگی کی ناؤ کو بچا کر پار لگادیں گے۔ یہ ستارے کے گت نہ باپ سکیں گے۔ منی پوری اور بھارت ناٹیم کے مدرا نہ دکھاسکیں گے۔ انھیں پیانو پر رقص کرنا نہیں سکھایا گیا۔ انھیں پھولوں سے کھیلنا نہیں نصیب ہوا۔ مگر یہ ہاتھ تمھارے جسم پر چربی چڑھانے کے لئے صبح سے شام تک سلائی کرتے ہیں۔ صابن اور سوڈے میں ڈبکیاں لگاتے ہیں۔ چولھے کی آنچ سہتے ہیں۔ تمھاری غلاظتیں سہتے ہیں۔ تمھاری غلاظتیں دھوتے ہیں تاکہ تم اجلے چٹے بگلا بھتی کا ڈھونگ ر چائے رہو۔ محنت نے ان میں زخم ڈال دئے ہیں۔ ان میں کبھی چوڑیاں نہیں کھنکتی ہیں۔ انھیں کبھی کسی نے پیار سے نہیں تھاما۔ 


مگر میں چپ رہی۔ بی اماں کہتی ہیں کہ میرا دماغ تو میری نئی نئی سہیلیوں نے خراب کر دیا ہے۔ وہ مجھے کیسی نئی نئی باتیں بتایا کرتی ہیں۔ کیسی ڈراؤنی موت کی باتیں، بھوک اور کال کی باتیں۔ دھڑکتے ہوئے دل کے ایک دم چپ چاپ ہو جانے کی باتیں۔ 


’’یہ سوئٹر تو آپ ہی پہن لیجئے۔ دیکھئے نا آپ کا کرتا کتنا باریک ہے؟‘‘ 


جنگلی بلی کی طرح میں نے اس کا منھ، ناک، گریبان اور بال نوچ ڈالے اور اپنی پلنگڑی پر جا گری۔ بی آپا نے آخری روٹی ڈال کر جلدی جلدی تسلے مٰں۔ ہاتھ دھوئے۔ اور آنچل سے پونچھتی میرے پاس آ بیٹھی۔ 


’’وہ بولے؟‘‘ ان سے نہ رہا گیا۔ تو دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا۔ 


’’بی آپا۔ یہ راحت بھائی بڑے خراب آدمی ہیں۔‘‘میں نے سوچا کہ میں آج سب کچھ بتادوں گی۔ 


’’کیوں؟‘‘وہ مسکرائیں۔ 


’’مجھے اچھے نہیں لگتے... دیکھئے میری ساری چوڑیاں چورہ ہو گئیں۔‘‘میں نے کانپتے ہوئے کہا۔ 


’’بڑے شریر ہیں۔‘‘انھوں نے رومانٹک آواز میں شرما کے کہا۔ 


’’بی آپا... سنو بی آپا۔ یہ راحت اچھے آدمی نہیں۔‘‘میں نے سلگ کرکہا۔ ’’آج میں اماں سے کہہ دوں گی۔‘‘ 


’’کیا ہوا؟‘‘بی اماں نے جانماز بچھاتے ہوئے کہا۔ 


’’دیکھو میری چوڑیاں بی اماں۔‘‘ 


’’راحت نے توڑ ڈالیں۔‘‘بی اماں مسرت سے بولیں۔ 


’’ہا ں‘‘! 


’’خوب کیا۔ تو اسے ستاتی بھی تو بہت ہے۔ اے ہے تو دم کا ہے کو نکل گیا۔ بڑی موم کی بنی ہوئی ہو کہ ہاتھ لگایا اور پگھل گئیں۔‘‘پھر چمکار کر بولیں۔’’ خیر تو بھی چوتھی میں بدلہ لے لیجیو۔ وہ کسر نکالیو کہ یاد ہی کریں میاں جی۔‘‘یہ کہہ کر انھوں نے نیت باندھ لی۔ 


منھ بولی بہن سے پھر کانفرنس ہوئی اور معاملات کو امید افزا راستے پر گامزن دیکھ کر ازحد خوشنودی سے مسکرایا گیا۔ 


’’اے ہے تو تو بڑی ہی ٹھس ہے۔ اے ہم تو اپنے بہنوئیوں کا خدا کی قسم، ناک میں دم کر دیا کرتے تھے۔‘‘ 


اور وہ مجھے بہنوئیوں کے چھیڑ چھاڑ کے ہتھکنڈے بتانے لگیں۔ کہ کس طرح انھوں نے صرف چھیڑ چھاڑ کے تیر بہدف نسخے سے ان دونمبری بہنوں کی شادی کرائی جن کی ناؤ پار لگنے کے سارے موقعے ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ ایک تو ان میں سے حکیم جی تھے جہاں بیچارے کو لڑکیاں بالیاں چھیڑتیں شرمانے لگتے اور شرماتے شرماتے اختلاج کے دورے پڑنے لگتے اور ایک دن ماموں صاحب سے کہہ دیا کہ مجھے غلامی میں لے لیجئے۔ 


دوسرے وائسرائے کے دفتر میں کلرک تھے جہاں سنا کہ باہر آئے ہیں لڑکیاں چھیڑنا شروع کر دیتی تھیں۔ کبھی گلوریوں میں مرچیں بھر کے بھیج دیں۔ کبھی سونئیوں میں نمک ڈال کر کھلا دیا۔ 


اے لو، وہ تو روز آنے لگے۔ آندھی آئے، پانی آئے، کیا مجال جو وہ نہ آئیں۔ آخر ایک دن کہلوا ہی دیا۔ اپنے ایک جان پہچان والے سے کہ ان کے یہاں شادی کرادو۔ پوچھا کہ ’’بھئی کس سے؟‘‘ تو کہا، ’’کسی سے بھی کرا دو۔‘‘ اور خدا جھوٹ نہ بلائے تو بڑی بہن کی صورت تھی کہ دیکھو تو جیسے بیچا چلا آتا ہے۔ چھوٹی تو بس سبحان اللہ۔ ایک آنکھ پورب تو دوسری پچھم۔ پندرہ تولے سونا دیا ہے باپ نے اور بڑے صاحب کے دفتر میں نوکری الگ دلوائی۔‘‘ 


’’ہاں بھئی جس کے پاس پندرہ تولے سونا ہو۔ اور بڑے صاحب کے دفتر کی نوکری اسے لڑکا ملتے کیا دیر لگتی ہے؟‘‘ بی اماں نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ 


’’یہ بات نہں ہے بہن! آجکل کے لڑکوں کا دل بس تھالی کا بیگن ہوتا ہے جدھر جھکا دو ادھر ہی لڑھک جائے گا۔‘‘ 


مگر راحت تو بینگن نہیں اچھا خاصا پہاڑ ہے۔ جھکاؤ دینے پر کہیں میں ہی نہیں پس جاؤں۔ میں نے سوچا۔ پھر میں نے آپا کی طرف دیکھا۔ وہ خاموش دہلیز پر آ بیٹھی، آٹا گوندھ رہی تھیں اور سب کچھ سنتی جا رہی تھیں۔ ان کا بس چلتا تو زمین کی چھاتی پھاڑ کر اپنے کنوارپنے کی لتنآ سمیت اس میں سما جاتیں۔ 


’’کیا میری آپا مرد کی بھوکی ہے؟ نہیں وہ بھوک کے احساس سے پہلے ہی سہم چکی ہے۔ مرد کا تصور اس کے ذہن میں ایک امنگ بن کر نںمر ابھرا بلکہ روٹی کپڑے کا سوال بن کر ابھرا ہے۔ وہ ایک بیوہ کی چھاتی کا بوجھ ہے۔ اس بوجھ کو ڈھکیلنا ہی ہوگا۔‘‘ 


مگر اشاروں کنایوں کے باو جود راحت میاں نہ خود منھ سے پھوٹے اور نہ ہی ان کے گھر ہی سے پیغام آیا۔ تھک ہار کر بی اماں نے پیروں کے توڑے گروی رکھ کر پیر مشکل کشا کی نیاز دلا ڈالی۔ دوپہر بھر محلے ٹولے کی لڑکیاں صحن مٰیں اودھم مچاتی رہیں۔ بی آپا شرمائی لجائی مچھروں والی کوٹھری میں اپنے خون کی آخری بوندیں چسانے کو جا بیٹھی۔ بی اماں کمزوری میں اپنی چوکی پر بیٹھی چوتھی کے جوڑے میں آخری ٹانکے لگاتی رہیں۔ آج ان کے چہرے پر منزلوں کے نشان تھے۔ آج مشکل کشائی ہو گی۔ بس آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں۔ وہ بھی نکل جائیں گی۔ آج ان کی جھریوں میں پھر مشعلیں تھرتھرا رہی تھیں۔ بی آپا کی سہیلیاں ان کو چھیڑ رہی تھیں اور وہ خون کی بچی کھچی بوندوں کو تاؤ میں لا رہی تھیں۔ آج کئی روز سے ان کا غبار نہیں اترا تھا۔ تھکے ہارے دئے کی طرح ان کا چہرہ ایک بار ٹمٹماتا اور پھر بجھ جاتا۔ اشارے سے انھوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ اپنا آنچل ہٹا کر نیاز کے ملیدے کی طشتری مجے تھمادی۔ 


’’ ا س پر مولوی صاحب نے دم کیا ہے۔‘‘ ان کی بخار سے دہکتی ہوئی گرم گرم سانس میرے کان میں لگی۔ 


طشتری لے کر میں سوچنے لگی۔ مولوی صاحب نے دم کیا ہے۔ یہ مقدس ملیدہ اب راحت کے تندور میں جھونکا جائے گا۔ وہ تند ورجو چھ مہینے سے ہمارے خون کے چھینٹوں سے گرم رکھا گیا۔ یہ دم کیا ہوا ملیدہ مراد بر لائے گا۔ میرے کانوں میں شادیانے بنے لگے۔ میں بھاگی بھاگی کوٹھے سے برات دیکھنے جا رہی ہوں۔ دولھا کے منھ پر لمبا سا سہرا پڑا ہے۔ جو گھوڑے کی ایالوں کو چوم رہا ہے۔ 


چوتھی کا شہابی جوڑا پہنے پھولوں سے لدی شرم سے نڈھال، آہستہ آہستہ قدم تولتی بی آپا چلی آ رہی ہیں.....چوتھی کا زر تار جوڑا جھلمل جھلمل کر رہا ہے۔ بی اماں کا چہرہ پھول کی طرح کھلا ہوا ہے... بی آپا کی حیا سے بوجھل آنکھیں ایک بار اوپر اٹھتی ہیں۔ شکریہ کا ایک آنسو ڈھلک کر افشاں کے ذروں میں قمقمے کی طرح الجھ جاتا ہے۔ 


’’یہ سب تیری ہی محنت کا پھل ہے۔‘‘بی آپا کی خاموشی کہہ رہی ہے۔ حمیدہ کا گلا بھر آیا۔ 


’’جاؤ نہ میری بہنو۔‘‘بی آپا نے اسے جگا دیا۔ اور وہ چونک کر اوڑھنی کے آنچل سے آنسو پونچھتی ڈیوڑھی کی طرف بڑھی۔ 


’’یہ... یہ ملیدہ۔‘‘اس نے اچھلتے ہوئے دل کو قابو میں رکھتے ہوئے کہا۔ اس کے پیر لرز رہے۔ جیسے وہ سانپ کی بانیؤ میں گھس آئی ہو۔ اور پھر پہاڑ کھسکا..! اور منھ کھول دیا۔ وہ ایک دم پیچھے ہٹ گئی۔ مگر دور کہیں بارات کی شہنائیوں نے چیخ لگائی۔ جیسے کوئی ان کا گلا گھونٹ رہا ہو۔ کانپتے ہاتھوں سے مقدس ملیدے کا نوالہ بنا کر اس نے راحت کے منھ کی طرف بڑھا دیا۔ 


ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پہاڑ کی کھوہ میں ڈوبتا چلا گیا۔ نیچے تعفن اور تاریکی کے اتھاہ غار کی گہرائیوں میں اور ایک بڑی سی چٹان نے اس کی چیخ کو گھونٹ دیا۔ 


نیاز کے ملیدے کی رکابی ہاتھ سے چھوٹ کر لالٹین کے اوپر گری اور لالٹین نے زمین پر گر کر دو چار سسکیاں بھریں اور گل ہو گئی۔ باہر آنگن میں محلے کی بہو بیٹیاں مشکل کشا کی شان میں گیت گا رہی تھیں۔ 


صبح کی گاڑی سے راحت مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتا ہوا روانہ ہو گیا۔ اس کی شادی کی تاریخ طے ہو چکی تھی اور اسے جلدی تھی۔ 


اس کے بعد اس گھر میں کبھی انڈے نہ تلے گئے۔ پراٹھے نہ سکے اور سوئٹر نہ بنے گئے۔ دق نے جو ایک عرصے سے بی آپا کی تاک میں بھاگی پیچھے پیچھے آرہی تھی ایک ہی جست میں انھیں دبوچ لیا اور انھوں نے چپ چاپ اپنا نامراد وجود اس کی آغوش میں سونپ دیا۔ 


اور پھر اس سہ دری میں چوکی پر صاف ستھری جازم بچھائی گئی۔ محلے کی بہو بیٹیاں جڑیں۔ کفن کا سفید سفید لٹھا۔ موت کے آنچل کی طرح بی اماں کے سامنے پھیل گیا۔ تحمل کے بوجھ سے ان کا چہرہ لرز رہا تھا۔ بائیں ابرو پھڑک رہی تھی۔ گالوں کی سنسان جھریاں بھائیں بھائیں کر رہی تھیں۔ جیسے ان میں لاکھوں اژدہے پھنکار رہے ہوں۔ 


لٹھے کی کان نکال کر انھوں نے چوپرتہ کیا اور ان کے دل میں ان گنت قینچیاں چل گئیں۔ آج ان کے چہرے پر بھیانک سکون اور ہرا بھر اطمینان تھا۔ جیسے انھیں پکا یقین ہو کہ دوسرے جوڑوں کی طرح چوتھی کا جوڑا سینتا نہ جائے۔ 


ایک دم سہ دری میں بیٹھی لڑکیاں، بالیاں میناؤں کی طرح چہکنے لگیں۔ حمیدہ ماضی کو دور جھٹک کر ان کے ساتھ جا ملی۔ لال ٹول پر۔ سفید گزی کا نشان! اس کی سرخی میں نہ جانے کتنی معصوم دلہنوں کا سہاگ رچا ہے اور سفیدی میں کتنی نامراد کنواریوں کے کفن کی سفیدی ڈوب کر ابھری ہے اور پھر سب ایک دم خاموش ہو گئے۔ بی اماں نے آخری ٹانکا بھر کے ڈورہ توڑ لیا۔ دو موٹے موٹے آنسو ان کے روئی جیسے نرم گالوں پر دھیرے دھیرے رینگنے لگے۔ ان کے چہرے کی شکنوں میں سے روشنی کی کرنیں پھوٹ نکلیں اور وہ مسکرا دیں۔ جیسے آج انھیں اطمینان ہو گیا کہ ان کی کبریٰ کا سوہا جوڑا بن کر تیار ہو گیا ہو اور کوئی دم میں شہنائیاں بج اٹھیں گی۔ 

کوئی تبصرے نہیں: