بے گناہ مجرم — شفيق الرحمن قدوائی

اس کہانی کا مسودہ محترمہ بیگم صاحبہ صدیقہ قدوائی کو شفیق صاحب مرحوم کے کا غذات میں اتفاقیہ مل گیا، اور محترمہ بیگم صاحبہ نے یہ مسودہ از راہ نوازش ہمیں مرحمت فرما دیا۔ 

یہ کہانی شفیق صاحب مرحوم نے ظاہر ہے کہ بالغوں کے لئے لکھی ہو گی۔  انھوں نے تعلیم و ترقی کے لئے اور بھی چند کتاب ہیں لکھی ہیں۔  اس کہانی کا معیار ذرا اونچا ہے۔  غالباً اس کے لکھتے وقت شفیق صاحب کے سامنے وہ بالغ مبتدی ہوں گے جن کی پڑھنے لکھنے کی صلاحیتیں مسلسل مشق کی وجہ سے ترقی کر چکی ہوں گی۔ بہرحال، شعبہ تصنیف و تالیف اپنے ادارہ کے بانی کی اس یاد گار کو تبرک کے طور پر شائع کر رہا ہے۔  اُمید ہے کہ بالغ مبتدی اس اخلاقی کہانی سے فائدہ اٹھائیں گے۔ 

شعبہ تصنیف و تالیف ادارہ تعلیم و ترقی

 

 

بے گناہ مجرم

کسی گاؤں میں ایک تاجر رہتا تھا۔  اس کا نام فیروز تھا۔  اس کی دو دکانیں تھیں اور اپنا ایک ذاتی مکان تھا۔  فیروز بڑا اچھا خوش مزاج آدمی تھا۔  لیکن یار دوستوں کی بری صحبت میں شراب کی بُری عادت بھی پڑ گئی تھی جب بہت پی لیتا تو اکثر دوسروں سے جھگڑے اور لڑائی بھی کرنے لگتا تھا۔  لیکن جب اُس کی شادی ہوئی تو اس کی یہ عادت چھوٹ گئی۔  سوائے اس کے کہ کبھی کبھار مل گئی تو پی لی۔ 

ایک دن فیروز کچھ مال و اسباب لے کر ایک میلے میں جانے کے لئے تیار ہوا اور بیوی بچوں سے رخصت ہونے گیا تو بیوی نے کہا:  ”آج نہ جاؤ تو اچھا ہے رات میں نے ایک بڑا برا خواب دیکھا ہے۔  اور میرا جی نہیں مانتا کہ تم آج سفر کرو۔“

فیروز یہ سن کر ہنسا اور کہنے لگا:” تم ڈرتی ہو کہ میں وہاں ناچ رنگ میں پھنس جاؤں گا، اسی لئے روک رہی ہو۔“  بیوی نے جواب دیا:” یہ تو میں جانتی نہیں کہ کس بات کا اندیشہ ہے۔  میں تو صرف اتنا کہتی ہوں کہ میں نے تمھارے متعلق ایک بڑا برا خواب دیکھا ہے۔  میں نے دیکھا ہے کہ تم میلے سے لوٹ آئے ہو اور تمھارے سارے بال سفید ہو گئے ہیں۔“ 

فیروز یہ سن کر بہت ہنسا اور کہنے لگا:” یہ تو خوش نصیبی کی ایک علامت ہے۔  دعا کرو کہ سارا مال بک جائے تو میں تمھارے لئے میلے سے اچھی اچھی چیزیں لاؤں۔“

پھر وہ اپنی بیوی اور بچوں سے رخصت ہو کر روانہ ہوا۔  جب آدھا راستہ طے کر چکا تو اسے ایک اور سود اگر ملا جسے وہ پہلے سے جانتا تھا۔ چلتے چلتے جب رات ہو گئی تو دونوں ساتھ ایک سرائے میں اُترے اور کھا پی کر وہیں سو گئے۔ 

فیروز یوں بھی سویرے اُٹھنے کا عادی تھا۔  اور پھر اس خیال سے کہ صبح کو ٹھنڈے ٹھنڈے راستہ زیادہ طے ہو جائے اس نے ذرا اور سویرے اٹھ کر گاڑی بان کو جگایا کہ  سواری تیار کرے اور پھر روانہ ہو گیا۔  جب بارہ چودہ میل کا راستہ طے کر چکا تو ایک پڑاؤ پر تھوڑی دیر کے لئے گاڑی رُکی۔ گاڑی بان نے بیلوں کو کھول دیا۔  فیروز اپنی بانسری نکال کر بجانے لگا۔  اتنے میں وہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک تھا نہ دار اور دو پولیس کے سپاہی یکہ پر آئے اور اسی جگہ اتر کر سیدھے اس کے پاس آئے۔  پہلے نام پوچھا پھر یہ کہ کہاں سے آئے ہو۔  کہاں جاتے ہو۔  کیا کام کرتے ہو۔  راستہ میں کہاں ٹھہرے تھے۔  اکیلے تھے کہ اور بھی کوئی ساتھ تھا اور اس طرح کی معلوم نہیں کتنی باتیں اس سے پوچھ ڈالیں۔ فیروز بہت گھبرایا کہ ماجرہ کیا ہے۔  آخر یہ سب سوالات تھانے دار کیوں کر رہا ہے۔  کیا میں نے کوئی جرم کیا ہے۔  لیکن میں تو سیدھا اپنے گھر سے آ رہا ہوں اور میلے کو جا رہا ہوں۔  رات کو میں نے شراب بھی نہیں پی تھی کہ بے ہوشی میں کسی سے لڑائی جھگڑا ہوا ہوتا۔  آخر یہ میرے پیچھے کیوں پڑے ہیں۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو فیروز نے تھانے دار سے کہا:  " داروغہ جی آخر بات کیا ہے۔  کسی مجرم کو آپ تلاش کر رہے ہیں۔  میں نے تو چوری نہیں کی۔  یہ سارا مال میرا ہی ہے۔  میں ____ رہنے والا ہوں۔

تھانے کے داروغہ جی مجھ کو اچھی طرح جانتے تھے۔  اور تھانے سے جب کوئی سپاہی میرے گاؤں میں آتا ہے تو میرے ہی گھر پر ٹھیرا کرتا ہے۔  میں اس وقت میلے جا رہا ہوں۔ اب مجھے دیر ہو رہی ہے۔  میں جاؤں؟ تھانے دار نے کہا:” ابھی جاؤ گے کہاں میں تمھارے سامان کی تلاشی لینا چاہتا ہوں کل جو سوداگر تمھارے ساتھ سرائے میں اُترا تھا رات کو اس کا قتل ہو گیا تمھیں جو کچھ معلوم ہو صاف صاف مجھے بتا دو نہیں تو سارا الزام تمھی پر آئے گا۔  سب لوگوں کو تم ہی پر شبہ ہے“

سپاہیوں نے تھانے دار کے سامنے بستر کی تلاشی لینا شروع کی۔ اس کے اندر سے ایک بڑا چاقو نکلا۔  اس چاقو میں خون لگا ہوا تھا۔  تھانے دار نے چونک کر پوچھا کہ یہ چاقو کس کا ہے۔  فیروز نے چاقو دیکھا تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔  تھانے دار نے کہا کہ اس میں تو خون بھی لگا ہے۔  فیروزکو سکتہ سا ہو گیا۔  بولنا چاہتا تھا۔  بات منہ سے نکلتی نہ تھی۔  بڑی مشکل سے اتنا کہہ سکا:” میں .... میں نہیں جانتا .... میرا نہیں ہے۔  چاہے مجھ سے قسم لے لیجئے“ یہی بار بار کہتا رہا۔  تھانے دار نے مجرم تلاش کر لیا تھا۔  اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔  اب اس کے تیور بدل گئے تھے۔  اس نے ڈانٹنا اور دھمکا نا شروع کیا ” جرم کا پورا ثبوت موجود ہے تم ہی مجرم ہو .... بتاؤ تم نے کس طرح اُسے مارا تمھاری اس کی کوئی دشمنی تھی۔  کتنی رقم اس کی جبیب سے نکالی۔  پیش کرو۔“

فیروز نے قسم کھا کر کہا: ۔  اس نے یہ کام ہرگز ہرگز نہیں کیا۔  رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ سو گیا۔  اور اسے کوئی خبر نہیں کہ سود اگر سے کس کی لڑائی ہوئی کس نے اس کو قتل کیا۔  میرے پاس پچاس پچاس کے نوٹ ہیں۔ یہ میرے ذاتی ہیں۔  اور یہ چاقو بھی میرا نہیں ہے۔  نہ میں نے بستر میں رکھا۔  فیروز کی آواز بھرائی ہوئی تھی چہرہ زرد پڑ گیا تھا۔  اور وہ خوف سے اس طرح کانپ رہا تھا۔  گویا اس نے یہ جرم کیا ہے۔ 

تھانے دار نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ فیروز کے ہتھکڑیاں ڈال کر یکہ پر سے بٹھائیں، فیروز پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔  اس کا مال اسباب بھی اس سے لے لیا گیا اور اسے حوالات میں پہنچا دیا گیا۔  اس کے بعد اس کے چال چلن کی تحقیقات شروع ہوئی۔  گاؤں والوں نے بتایا کہ پہلے وہ شراب پینے کا عادی تھا۔  ناچ رنگ سے جی بہلاتا تھا۔  لیکن اب ایک مدت سے یہ سب باتیں چھوڑ دی ہیں۔  بال بچوں والا آدمی ہے اور نیک چلن ہے۔  پھر مقدمہ عدالت میں شروع ہوا اور فرد جرم لگا دی گئی کہ اس نے ایک سوداگر کو قتل کیا اور اس کی جیب سے کئی سو کی نقدی چرالی۔  ملزم کو حوالات سے جیل خانے میں بھیج دیا گیا تھا۔ 

کچھ دن بعد بیوی کو معلوم ہوا تو وہ بہت روئی اور پریشان ہوئی۔  اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کرے۔  بچے سب چھوٹے چھوٹے تھے اور ایک بچی تو ابھی گود میں تھی۔  ان سب کو لے کر وہ اس شہر میں گئی جہاں فیروز قید تھا۔ 

پہلے تو اس کو ملنے کی اجازت ہی نہ ملتی تھی۔  لیکن پھر بڑی خوشامدوں کے بعد جیل کے افسروں نے اجازت دے دی۔  اور وہ پھاٹک کے اندر داخل ہوئی۔  تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد اس نے اپنے شوہر کو جیل کے کپڑوں میں آتے دیکھا اور چیخ مار کر رونے لگی۔  بچے بھی ماں کے ساتھ رونے لگے فیروز کو سب نے تسلی دی۔  حال احوال پوچھا اور اپنا سارا قصہ سنایا بیوی نے پوچھا:” پھر اب کیا کیا جائے؟ “

فیروز نے کہا:  " رحم کی ایک درخواست دے دو کہ بے گناہ قیدی کو پھانسی کی سزانہ دی جائے، بیوی نے کہا:” یہ درخواست تو میں دے چکی ہوں، وہ منظور نہیں ہوئی “ فیروز نے اس پر پھر کوئی جواب نہ دیا، اورمایوس ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ 

بیوی نے کہا:” تم کو یاد ہو گا میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ تمھارے بال سفید ہو گئے ہیں۔  میں نے تم کو بہت روکا کہ اس روز میلے نہ جاؤ مگر تم نہ مانے۔  میری قسمت ہی میں یہ لکھا تھا، کیسے ملتا “ پھر وہ اپنے خاوند کے کپڑے پر سے مٹی جھاڑنے لگی اور دبی زبان سے پوچھا:”مجھے سچ سچ بتاؤ تم نے تو یہ قتل نہیں کیا۔“

ارے، تمھیں بھی مجھ پر شبہ ہے ؟ فیروز نے یہ کہا اور اپنے چہرے کو ہاتھوں ڈھک کر زار و قطار رونے لگا، اتنے میں جیل کا سپاہی آیا اور عورت سے کہا کہ تمھاری ملاقات کا وقت ختم ہو گیا۔  اب تم باہر چلو۔  اس کے بعد فیروز اپنی بیوی بچوں سے یہ سمجھ کر رخصت ہوا کہ اب یہ اس کی آخری ملاقات ہے۔ 

چلے گئے تو فیروز کو پھر یہ خیال آیا کہ کیا میری بیوی کو مجھ پر شبہ ہے، اور پھر اپنے جی میں کہنے لگا:- اصل حقیقت صرف خدا کو معلوم ہے۔  اسی سے دعا کرنی چاہئے، وہی مجھ بے گناہ پر رحم کرے گا۔  پھر فیروز نے کوئی درخواست کسی کے پاس نہ بھیجی نہ کسی سے رحم کی درخواست کی۔  صرف خدا پر بھروسا کر کے بیٹھ رہا، اور اسی سے دُعا مانگتا رہا۔ 

٭٭٭

مقدمے کی پیشیاں ختم ہوئیں۔  فیصلہ سنایا گیا اور فیروز کو کالے پانی کی سزا دی گئی۔ 

فیروز چودہ سال کالے پانی کی سزا کاٹتا رہا۔  اس کے بال اؤن کے گالے کی طرح سفید ہو گئے۔  داڑھی بھی بڑھ گئی۔  اس کی ساری رنگین مزاجی جاتی رہی۔  وہ کبھی ہنستا نہ تھا بلکہ اکثر رو رو کر دعائیں مانگتا رہتا۔ 

قید خانے میں فیروز نے جوتے بنانے کا کام سیکھ لیا۔  پڑھنا لکھنا جانتا تھا۔  اُس نے جیل کے کتب خانے سے ایک کتاب لے لی جس کا نام تھا ” بزرگان دین کے حالات زندگی“ یہ کتاب اس کو بہت پسند تھی۔  جب موقع ملتا تھا اس کو پڑھتا تھا۔  اور بار بار پڑھتا تھا اس لئے کہ اس کو پڑھ کر اُس کو کچھ تسکین سی ہو جاتی تھی۔ 

جیل کے حکام اور سپاہی سب فیروز سے خوش تھے اور جیل کے دوسرے قیدی بھی فیروز کی بڑی عزت کرتے تھے۔  سب لوگ اس کو ہمیشہ بابا کہہ کر پکارتے تھے۔  اگر حکام جیل سے کوئی درخواست کرنا ہوتی تو فیروز ہی سے کہلاتے تھے۔  اور اگر آپس میں کوئی جھگڑا ہوتا تو فیروز ہی ان جھگڑوں کو چکا دیا کرتا تھا۔  سب لوگ اس کا کہا مانتے تھے۔ 

٭٭٭

ایک زمانہ گزر گیا۔  اور فیروز کو گھر کی خبر نہ ملی۔  اسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اس کے بیوی بچے زندہ ہیں یا مر گئے۔  ایک دن کچھ نئے قیدی جیل خانے میں داخل ہوئے۔  نیا داخلہ پرانے قیدیوں کے لئے بڑا خوش کن ہوتا ہے شام کے وقت کچھ لوگ نئے قیدیوں کے ارد گرد جمع ہوئے اور پوچھنے لگے، کہ کہاں کہاں سے آئے ہیں اور کیا جرم ہے۔  فیروز بھی وہیں ایک طرف سر جھکا کے بیٹھ گیا اور سننے لگا کہ وہ کیا کہتے ہیں۔  سب اپنی اپنی داستان کہہ چکے تو ایک بوڑھے قیدی کی باری آئی۔  اس کی عمر قریب ساٹھ برس کے تھی۔  اور اچھے خاصے ڈیل ڈول کا آدمی تھا۔  وہ کہنے لگا:”اس مرتبہ تو میں مذاق مذاق میں پکڑا گیا مجھے گھر جانے کی جلدی تھی۔  ایک گھوڑا اپنے تھان پہ بندھا تھا۔  میں اس پر سوار ہو کر چل دیا اور منزل پر پہنچ کر گھوڑا چھوڑ دیا۔ یہ تو پتہ چلا نہیں کہ گھوڑا کس کا ہے۔  مگر مجھے چوری کے الزام میں گرفتار کر کے یہاں بھیج دیا۔  اس سے پہلے میں نے واقعی جرم کیا تھا۔  اس وقت مجھے کسی نے گرفتار نہیں کیا۔  لیکن میں یہاں دوسری مرتبہ آیا ہوں۔  پہلی بار جب آیا ہوں تو یہاں کا جیلر اللہ کی پناہ بڑا ظالم مرد تھا۔“

”اچھا اس وقت تم آئے کہاں سے ہو۔“  ایک قیدی نے پوچھا۔ 

.... سے۔ میرا گھر اسی کے قریب ایک دیہات میں ہے اور میرا نام کلّن ہے۔  فیروز نے اپنے گاؤں کا جو نام سنا تو اپنا سر اٹھایا اور پوچھنے لگا:  اے بھائی کلن ! تم نے سوداگر فیروز کا نام بھی سنا ہے ؟ اس کے گھر والوں کا کچھ حال جانتے ہو تو بتاؤ۔  زندہ ہیں کہ مر گئے۔“

کلن نے کہا:” سوداگر فیروز کو بھلا کون نہیں جانتا۔  وہ بڑے امیر لوگ ہیں۔  مگر ان کا باپ فیروز بے چارہ کہیں مرگیا ہو گا۔  اس کو بھی کالے پانی کی سزا ہوئی تھی۔  اور کیا تم بھی اس طرف کے رہنے والے ہو ؟“ فیروز نے تو کچھ جواب نہ دیا۔  گھر کی خوش حالی سن کر اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر ایک آہ سرد بھر کر خاموش ہو گیا۔  لیکن فیروز کے پرانے ساتھیوں نے اس کی ساری داستان مسنائی - کلن پورا قصہ سن کر بڑے اچنبھے میں پڑ گیا اور کہنے لگا۔  یہ تو بڑا اندھیر بڑا ظلم ہوا۔  لیکن اس وقت تمھاری عمر کیا تھی ؟ “ لوگوں نے کلن سے پوچھا کہ کیا تم فیروز بابا کو جانتے ہو ؟“ سمن نے کہا کہ سبھی لوگ ان کو جانتے ہیں پھر بھلا میں کیوں نہ جانتا “ فیروز نے اب ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ پھر کیا یہ نہ معلوم ہو سکا کہ سوداگر کا اصلی قاتل کون تھا ؟ کلن ہنسنے لگا اور کہا کہ ”بھائی جس کے بستر سے چاقو بر آمد ہوا تھا وہی قاتل ہو گا۔  اگر اور کسی نے قتل کیا ہوتا تو پکڑا نہ جاتا اور اگر کسی نے تمھارے بسترمیں وہ چاقو چھپا دیا تو تم نے اس کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑ لیا۔“

کلن کی ان باتوں سے فیروز کو یقین ہو گیا کہ سوداگر کا اصلی قاتل یہ ہے۔  وہ اُٹھا اور اُٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔  اس دن تمام رات فیروز ایک لمحے کے لئے نہ سویا۔  طرح طرح کے خیالات اور صورتیں اس کے دماغ میں چکر لگاتی رہیں۔  کبھی اس کی بیوی کی صورت اس کی آنکھوں کے سامنے آتی۔  جب وہ گھر سے آخری بار رخصت ہو رہا تھا۔  پھر کبھی بچوں کا دھیان آتا کہ کس طرح وہ ماں کی چھاتی پر کھیل کود رہے ہیں۔  اس کے بعد کبھی اپنا خیال آتا اور وہ نوجوانی اور بے فکری کے مزے یاد آتے۔  پھر میلے کا سفر، پڑاؤ پر اترنا، تھانے دار کا یکا یک آنا اور اُسے گرفتار کرنا، جیل میں بیوی بچوں سے آخری ملاقات اور مفارقت، کالے پانی کی سزا کا حکم۔  عدالت کا انصاف اور بے رحمی، غرض ساری زندگی کا پورا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا۔  اور ان سب خیالات سے وہ ایسا ملول اور رنجیدہ خاطر ہو جاتا کہ فوراً خود کشی کرنے پر آمادہ ہو جاتا۔ 

لیکن پھر کلمن کا خیال آ جاتا اور وہ کہنے لگتا:- یہ سب اسی کم بخت کی حرکت ہے۔  اس کے دل میں کلن کی طرف سے غصہ اور نفرت پیدا ہو گئی تھی وہ ہر قیدی سے ملتا تھا مگر کلن کے پاس سے ہو کر گزر جانا بھی اس کو گوارا نہ تھا۔  اس کے نزدیک کفن چور تھا، ڈاکو تھا، قاتل تھا اور بڑا بے رحم تھا۔  غرض اس حالت میں کوئی دو ہفتے گزر گئے اور اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ 

٭٭٭

ایک بار جیل کے حکام اور قیدیوں میں کچھ ان بن ہو گئی۔  قیدیوں کے سرغنہ میاں کلن ہی تھے۔  انھی کے اکسانے پر قیدیوں نے حکام کے خلاف ایکا کر لیا۔  سازش کی تحقیقات شروع ہوئی، مگر پتہ نہ چلا۔ 

سارا اندیشہ فیروز سے تھا۔  وہ جھوٹ نہیں بول سکتا۔  خاموش رہے گا، سچ مچ سازش کا حال بتا دے گا۔  کلن نے فیروز سے کہا ”اگرتم نے ذرا بھی زبان کھولی تو وہ مارے کوڑوں کے میری کھال کھینچ کر رکھ دیں گے۔  مگر اس سے پہلے میں تمھارا ہی خاتمہ کر دوں گا۔ “

فیروز نے کہا:  " تم تو مجھے پہلے ہی قتل کر چکے ہو۔  اب مجھے مار ڈالنے کی دھمکی دیتے ہو۔  اور اگر ایسا کر دو تو مجھ پر احسان ہو گا۔  باقی رہا اس بات کا کہہ دینا۔  وہ ممکن ہے۔  کہوں یا نہ کہوں جیسی خدا ہدایت دے۔ 

دوسرے روز فیروز با با کی پیشی ہوئی۔  جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے فیروز سے کہا:  ” تم ایک سچے آدمی ہو، تم خدا کو حاضر ناظر جان کر بتاؤ کہ یہ حرکت کس کی ہے؟“ سارے قیدی ذرا فاصلے پر ایک طرف بیٹھے تھے کلن دانت پیس پیس کر فیروز کی طرف دیکھ رہا تھا۔  فیروز کی نظر کلن پر پڑی تو اس کی صورت دیکھ کر فیروز کو غصہ آیا اور جی چاہا کہ اس وقت وہ اپنا پورا انتقام کلن سے لے لے لیکن پھر چپ رہا اور خدا کو حاضر ناظر جان کر کہا کہ اس میں کلن کی کیا خطا۔  سارے قیدی اس میں شریک تھے اور پھر اس کو سزا ملنے سے بھلا میرا کیا فائدہ ہو گا۔  اتنے میں سپرنٹنڈنٹ نے پھر پوچھا:” کیوں بڑے میاں سچ کہو، کیوں یہ سازش کی گئی۔“ فیروز نے جواب دیا ”حضور میں نہیں کہہ سکتا۔  خدا کی مرضی نہیں ہے کہ میں کچھ کہوں۔  آپ مجھے جو سزا دیں میں حاضر ہوں۔“  سپرنٹنڈنٹ نے ہر چند معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن فیروز کی زبان پر قفل لگ چکا تھا۔  بالآخر وہ معاملہ وہیں چھوڑنا پڑا۔  رات کو فیروز اپنے بستر پر لیٹا اور قریب تھا کہ سو جائے۔  اتنے میں دیکھتا کیا ہے کہ کلن سامنے اندھیرے میں کھڑا ہے۔  فیروز نے پوچھا:” کہو اب کیا چاہتے ہو کلن چپکا کھڑا رہا۔  پھر بیٹھ گیا۔  فیروز بھی اب اُٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا:” بولونا آخر کیا چاہتے ہو۔  میں پہرے دار کو آواز دیتا ہوں “ کلن نے فیروز کے قدم پکڑ لئے۔ اور کہنے لگا۔  فیروز میں اس وقت اپنی خطا معاف کرانے تمھارے پاس آیا ہوں فیروز نے کہا: ۔  ”آخر کس لئے“ کلمن نے کہا:  ”کس کس خطا کو معاف کراؤں۔ میں ہی تھا جس نے سوداگر کو قتل کیا اور چاقو تمھارے بستر میں چھپایا۔  میں تو تمھیں بھی قتل کرنا چاہتا تھا۔  لیکن عین اسی وقت تمھارے گاڑی بان نے کھانسنا شروع کیا اور اس لیے میں چاقو جھٹ سے تمھارے بستر میں ڈال کر بھاگ گیا “ فیروز چپ چاپ سنتا رہا۔  کلن بار بار فیروز کے ہاتھ اور اس کے پاؤں پکڑ پکڑ کر اور اس کے قدموں پر سر ڈال کر معافی مانگتا رہا اور بولا کہ میں اب اقرار کر لوں گا کہ میں نے سوداگر کو قتل کیا تھا۔  تم چھوٹ جاؤ گے اور گھر چلے جاؤ گے مگر خدا کے لئے مجھے معاف کر کے یہاں سے جاؤ۔ “

فیروز نے کہا:” بھائی، ساری زندگی تو قید میں گزر گئی۔  اب چھوٹ بھی گیا تو کہاں جاؤں گا۔  کس کے پاس جاؤں گا۔  میری بیوی مر چکی ہے۔  بچے مجھے بھول گئے ہوں گے۔  اور یہ کہہ کر اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے ادھر کلن بھی اپنے گناہوں کے سیاہ داغ آنسوؤں کے چشمے سے دھورہا تھا۔ 

فیروز نے کہا:” میں نے تمھیں معاف کیا۔  خدا بھی تمھیں معاف کرے گا۔  کیا معلوم ! ممکن ہے کہ میرے گناہ تمھارے گناہوں سے بھی زیادہ ہوں۔“

کلن نے جا کر اپنے جرم کا اقرار کر لیا۔  لیکن فیروز قید حیات سے آزاد ہو چکا تھا، جب سرکار سے اس کی رہائی کا پروانہ آیا۔

٭٭٭

مطبوعہ بمبئی آرٹ پریس
قاسم جان اسٹریٹ دہلی  
طباعت پہلی بار:  1000
قیمت:  آٹھ آنے  
یونیکوڈ کنورژن اور پروف ریڈنگ: شکیب احمد

کوئی تبصرے نہیں: