ہوا بند کیوں ہے؟ — حسن منظر

 پہلی بار جب پہرے والا سپاہی سلاخوں کے باہر سے گذرا تو احمد کو وہ خیال آیا۔ دوسری دفعہ وہ اسے آواز دینے کو ہوا اور ہونٹ کھول کر رہ گیا۔ اس کے بعد سپاہی نے متواتر کئی پھیرے کئے، لیکن احمد کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکا۔ بالاخر جب اس نے آواز دی تو وہ اتنی مدھم تھی کہ جیل کی اس کوٹھری میں بازگشت بھی نہ پیدا کر سکی۔ ۔۔۔ جیسی آواز سوتے میں ڈر جانے کے بعد منہ سے نکلتی ہے، بلکہ کوشش کے باوجود نہیں نکلتی۔ 

کوٹھری کے باہر بجری کٹی ہوئی سڑک پر کہرا چھایا ہوا تھا۔ دور سے، دور ہوتی ہوئی فل بوٹوں کی دھمک سنائی دے ری تھی۔ اگر کوٹھری کے باہر سائبان نہ ہوتا تو چاند بذات خود نظر آجاتا۔ لیکن اب صرف اس کی چھایا احاطہ ء نگاہ میں آتی تھی، اور سڑک پر درختوں کے سائے کے چلنے سے پتہ چلتا تھا کہ آسمان پر بادل بھاگ رہے ہوں گے۔ باوجود کان لگا کر سننے کے یہ معلوم کرنا مشکل تھا کہ لوگ ابھی جا گ رہے ہیں یا سوگئے۔ 

جیل میں لوگوں کو کام ہی کیا ہوتا ہے جو رات گئے تک جاگیں۔ جو باتیں، جو کتھا کہانی سنانی ہوتی ہے وہ بہت پہلے ختم ہو جاتی ہے۔ قیدی سرشام سو جاتے ہیں۔ سنتری جاگتے ہیں اور اکتائے سے نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے وہ محرر جس نے آخری خانہ پری کی تھی ابھی جاگتا ہو اور لیمپ کے پاس سر نیہوڑائے اونگھ اونگھ کر کچھ لکھ رہا ہو۔ لیکن وہ جگہ یہاں سے دو تھی۔ زندگی کی اکیلی پہچان اس وقت کتوں کے بین پر مشتمل تھی۔۔۔۔ جیسا کہ ہوتا آیا ہے۔ 

ایک بار پھر سے بھاری بوٹوں کی چرچراہٹ نزدیک آنی شروع ہوئی۔ ایکا ایکی گھپ اندھیرا چھا گیا، اور ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا احمد کے جسم کو چھوتا ہوا گذرا جیسے اندھیرا پڑے قبرستان سے گذرتے ہوئے کسی نے ٹھنڈے ہاتھوں سے اس کے جسم کو پیچھے سے آکر چھو دیا ہو۔ کوئی پل جارہا ہے کہ بارش شروع ہو جائے گی اور سپاہی اپنی کا بک میں جا چھپے گا۔ 

احمد نے گھبرا کر فیصلہ کر ڈالا۔ 

اس نے ٹھنڈی سلاخوں میں سے اپنے سر کو باہر نکالتے ہوئے زور سے آواز دی۔ 

’’دیکھو۔ بات سنو!‘‘ 

دوسرے ہی لمحے اس نے محسوس کیا فاصلہ تھوڑا تھا، اتنی اونچی آواز کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ الفاظ مصنوعی سے تھے۔ 

سپاہی نے ٹھٹھک کر پوچھا ’’کیا ہے؟‘‘ 

’’مجھے یہاں ڈر لگ رہا ہے‘‘۔ 

’’ڈر! تمہیں؟‘‘ 

’’ہوں‘‘ احمد نے سلاخیں پکڑے پکڑے زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ 

’’پھر؟ کیا حکم ہے؟ تاشے باجے بجواؤں؟ تمہاری بھابی کو بلواؤں؟‘‘ 

احمد نے آخر ی جملے کو ان سنا کرتے ہوئے پوچھا۔ 

’’باہر کہر ہے نا؟‘‘ 

’’ہونہہ کہر!‘‘ سپاہی نے بندوق دروازے سے تھوڑی ہٹا کر دیوار سے ٹیکتے ہوئے کہا۔ ’’بارش ہونے والی ہے کہ کہر ہے‘‘۔ 

’’مجھے یہاں ڈر لگ رہا ہے‘‘۔ 

’’تو پھر کیا کروں۔ ناچوں؟ گاؤں؟‘‘ سپاہی نے پنڈلیوں پر پھیلے ہوئے رگوں کے جال پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ 

’’نہیں ، یہ تو میں نہیں کہہ رہا۔ بس اکیلے سے جی گھبراتا ہے‘‘۔ 

’’تو پھر ڈھول ڈھمکا کہاں سے آئے؟‘‘ سپاہی نے کہا۔ 

’’یہ جگہ سب سے الگ تھلگ کیوں ہے؟‘‘ 

’’جیل میرے مشورے سے نہیں بنی تھی۔ جی چاہے تو سپرنٹنڈنٹ صاحب سے پوچھ لینا‘‘۔ 

’’مجھے بارک میں کیوں نہیں لے چلتے؟‘‘ 

’’میں دروغہ ہوں ‘‘ سپاہی نے بندوق اٹھاتے ہوئے کہا۔ 

احمد زمین سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس خیال سے کہ مبادا وہ کچھ اور کہے ۔ سپاہی اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ 

پھر ڈرتے ڈرتے احمد نے کہا۔ 

’’مجھے یہاں ڈر لگتا ہے‘‘۔ 

’’پھر وہی بات۔ ڈر لگتا تھا تو جیل کیوں آئے؟‘‘ سپاہی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ 

’’تم تھوڑی دیر یہاں ٹھہر جاؤ، مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے‘‘۔ 

سپاہی نے دور جاتے ہوئے کہا ’’مجھے تم سے ڈر لگتا ہے‘‘۔ 

اس کے بعد سناٹا چھا گیا۔ 

ڈیوٹی روم میں محرر نے زور سے چائے کی آخری چسکی لی اور پیالی میز پر رکھتے ہوئے بولا۔ 

’’وہی لڑکا جس نے اپنی بھابی کو قتل کیا ہے؟۔۔۔۔ چائے کچھ ٹھنڈی تھی آج‘‘۔ 

’’پچھلے سال اسی کوٹھری میں میں نے ایک آدمی کو دہشت سے مرتے ہوئے دیکھا تھا‘‘۔ پہرے کا سپاہی بولا۔ ’’رات کو میں گشت کر رہا تھا، پچھلے پہر چیخنے کی آوازیں آئیں۔ جب ہم بتی لے کر گئے تو وہ اینٹھا ہو اپڑا تھا، ناخن جنگلی کبوتروں کے رنگ کے تھے، اور باچھیں نیچے کو کھنچ گئی تھیں۔ پوسٹ مارٹم میرے سامنے ہوا تھا۔۔۔۔ سن رہے ہو یا نہیں؟‘‘ 

’’سن رہا ہوں‘‘ محرر نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ 

’’سوائے اس کے کہ اس کے پیٹ میں کیچوئے بھرے پڑے تھے اور کچھ نہیں ملا۔ کیچوئے بھوک سے بلبلا رہے تھے، کم سے کم ان کے لجلجانے سے تو ایسا ہی دکھائی پڑتا تھا‘‘۔ 

محرر بڑے عاقلانہ انداز سے بولا ’’لوگ کہتے ہیں اندھیرے میں انسان کو اپنا آپ نظر آتاہے۔ جیسے اندھیرا ایک آئینہ ہو اور اس میں پچھلی تمام برائیاں، سارے گناہ صاف دکھائی دیں۔ دن ہوتا ہے تو دوسرے ہی دوسرے دکھتے ہیں، دوسروں پر غصہ آتا ہے، اپنا آپ غائب ہو جاتا ہے۔ روشنی سے ضمیر چندھیا جاتا ہے۔ 

عام آدمی ہو سکتا ہے جب اکیلا ہو اور اندھیرے میں تو اس کا دل دہشت سے پھٹ جاتاہو۔ ان ہتھیاروں کو اپنا آپ نظر آتا ہے لیکن ان کے دل نہیں پھٹتے۔ ورنہ اتنے آدمیوں کو روز پھانسی دے کر نہیں مارنا پڑتا۔ اسے ڈر ور کچھ نہیں لگ رہا ہے، اپنا آپ نظر آرہا ہوگا، یار تمہارے سگریٹ میں سے ہمیشہ چنبیلی کے تیل کی بو آتی ہے‘‘۔ 

’’اس لڑکے کو اندھیرے میں اپنا آپ نظر آتاہو یہ بات ٹھیک نہیں ہے‘‘۔ سپاہی نے محرر کے سامنے والی کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔ ’’ابھی تو اس کے داڑھی بھی ٹھیک سے نہیں نکلی ہے‘‘۔ 

’’داڑھی کا قتل سے کوئی رشتہ نہیں، جن کے داڑھی ہوتی ہے وہ بھی قتل کرتے ہیں، جن کے نہیں ہوتی وہ بھی‘‘۔ محررنے معمرانہ انداز سے جواب دیا۔ 

سپاہی نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا ’’میرا مطلب عمر سے ہے بھیا۔ تم خود سوچو اس کی عمر کیا ہے۔ سترہ یا زیادہ سے زیادہ اٹھارہ۔ اٹھارہ برس کا تھا تو میں اپنی عورت کو اپنی بیوی کہتے ہوئے شرماتا تھا‘‘۔ 

ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا اس کے چہرے کو چھوتا ہوا نکل گیا۔ 

کچھ دیر خاموشی رہی۔ 

سپاہی دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ 

’’میں پچھتاوے کی بات کررہا تھا‘‘۔ محرر نے بے رحمی سے کہا۔ ’’پچھتاوا انہیں ہوتا ہے جن کا دل معصوم ہو!‘‘ 

’’میں بھی پچھتاوے کی بات کر رہا ہوں۔ پچھتاوے کی بھی عمر ہوتی ہے‘‘۔ سپاہی نے چڑ کر کہا۔ 

’’اچھا جاؤ پہرے پر جاؤ‘‘۔ محررنے جمائی لیتے ہوئے کہا اور آنکھوں پر پانی کا چھپکا مارنے چلا گیا۔ 

کمرے سے باہر نکل کر سپاہی نے دیکھا بارش ہو کر تھم چکی ہے اور جیل کی سڑکوں پر کیچڑ کھڑی ہے۔ وہ کچھ دیر برآمدے میں ستون سے ٹیک لگائے کھڑا رہا۔ محرر دن رات اردو کے رسالے پڑھ پڑھ کر اپنے ساتھیوں کے سامنے دون کی لیتا تھا۔ وہ خود شعر کہتا تھا اور اچھا شعر سن کر داد بھی اونچی آواز میں دے سکتا تھا۔ اس وقت سپاہی کو اس سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ پچھتاوے کے اس بے رحم تجزئیے نے اسے بڑے کٹھور روپ میں اجاگر کر دیا تھا۔ 

جس کوٹھری میں احمد تھا وہ جگہ سب سے الگ تھلگ تھی۔ اس کوٹھری کی پشت پر وہ نالہ کھلتا تھا جس کے منہ پر لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ بادل چھٹ گئے تھے اور چاند، پورنماشی کا پورا چاند، بڑی تیز رفتاری سے آسمان میں بھاگ رہا تھا۔ ہوا کے سوا ساری کائنات حرکت میں تھی۔ یہی آخری چیز تھی جسے سوچ کر سپاہی نے احمد کی کوٹھری کی طرف جانے کا ارادہ تقریباً تر ک کردیا۔ ہوا کے نہ ہونے نے! 

اسے معلوم تھا اس وقت اگر وہ احمد کی نظر پڑ گیا تو اس کا پہلا سوال ہوگا: 

’’ہوا کیوں بند ہے؟‘‘ 

بارش سے نہائی ہوئی سڑ ک پر چلتے ہوئے سپاہی نے کوٹھریوں کے اندر نگاہیں گڑھو کر دیکھا۔ مٹیالے کمبل اوڑھے کچھ قیدی سورہے تھے۔ کہیں پر گھپ اندھیرے میں بیڑی کا جلتا ہوا سرخ سرا ایک بار نیچے غوطہ کھا کر دوبارہ اوپر لوٹ آیا۔ تب ہی ایک مری مری سی آواز آئی: 

’’آج ہوا کیوں بند ہے؟‘‘ جیسے کسی نے اسے جھنجھوڑ ڈالا ہو۔ 

’’یہ تو حضرت میکائیل سے پوچھو‘‘۔ سپاہی نے دلچسپی لیتے ہوئے قدرے توقف سے کہا۔ 

’’شاید بارش کی وجہ سے ہو ا ٹھیر گئی ہے‘‘۔ احمد نے لجاجت سے کہا۔ ’’بارش ہوئی ہے نا! بارش کے بعد عام طور پر ہوا رک جاتی ہے‘‘۔ 

’’جب تمہیں ہر بات کا جواب خود معلوم ہے تو مجھ سے کیوں پوچھا کرتے ہو۔ لیٹ کر سو رہو۔ میرا وقت کیوں برباد کرتے ہو؟‘‘ 

’’وقت کیسے برباد کر رہا ہوں بھائی؟ مجھے معلوم ہے بارک میں کوئی خطرناک قیدی نہیں ہے۔ دوسری کوٹھریاں تین چار دن سے خالی پڑی ہیں۔ صبح ہی جمعدار سے میں نے پوچھا تھا یہاں کون کون خطرناک قیدی ہیں؟ جو سب سے خطرناک قیدی ہے وہ میں ہوں۔ پھر اگر تھوڑی دیر، چاہے اپنی بندوق ہی لیے، تم میری کوٹھری کے سامنے ٹھہر گئے تو کیا ہوا۔ اس طرح وقت اچھا گذر جاتاہے‘‘۔ 

سپاہی نے بوٹ کے تلوے کو کگر سے رگڑتے ہوئے کہا ’’وقت تو تمہارا ختم ہی ہو چکا ہے۔ اس کے اچھے یا برے گزرنے کا کیا سوال ہے‘‘۔ 

پھر اس نے محسوس کیا یہ بات محرر کے کہنے کی تھی۔ ایک آدمی سے۔۔۔۔ بلکہ ایک لڑکے سے ۔۔۔۔ جس کا وقت ختم ہو چکا ہے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ خفت مٹانے کے لیے اس نے دل میں کہا ’’توبہ یہاں کی مٹی کتنی چکنی ہے، ایک بار تلے سے چمٹ جائے چھٹنے کا نام نہیں لیتی‘‘۔ 

موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے احمد نے کہا ’’جب تلے سے کوئی چیز چمٹی ہوئی ہو تو چلنے میں عجیب بے چینی سی رہتی ہے جیسے دانتوں میں کچھ پھنسا رہ جانے پر معلوم ہوتا ہے‘‘۔ 

’’ہاں آدمی بے کل ہو جاتا ہے‘‘۔ سپاہی نے کہا۔ 

’’مجھے یہاں بے حد ڈر لگتا ہے۔ میرا مطلب ہے جب کوئی آس پاس نہ ہو‘‘۔ 

’’موت کا خیال آتا ہے؟‘‘ 

احمد خاموش رہا۔ 

’’نہیں‘‘ سپاہی نے دیوار سے بندوق ٹیکتے ہوئے کہا ’’بھابی اندھیرے میں سے جھانکنے لگتی ہے؟‘‘ 

’’اوں ہنہہ‘‘ 

’’پچھلے سال جو آدمی یہاں دہشت سے مر گیا تھا کسی نے اس کی کہانی تمہیں سنائی ہے؟‘‘ 

’’نہیں‘‘۔ 

’’پھر لیٹ کر سو رہو۔ نیند آجائے گی‘‘۔ 

احمد سلاخیں پکڑے پکڑے زمین پر بیٹھ گیا۔ سپاہی نے ہتھیلیاں رگڑتے ہوئے پوچھا۔ 

’’احمد آخر سچی بات کیا ہے؟ تم نے اپنی بھا بی کو قتل کیوں کیا تھا؟‘‘ 

’’مجھے نہیں معلوم‘‘۔ احمد نے بے دھیانی سے جواب دیا۔ 

’’اصلی بات بغیر کسی سے کہے ہی مرجاؤ گے؟‘‘ 

’’پتہ نہیں‘‘ احمد نے گہر ی سانس لیتے ہوئے کہا۔ 

’’لوگ کہتے ہیں تمہارے بھائی کو اب بھی تم سے بڑی محبت ہے؟‘‘ 

احمد خاموش رہا۔ 

سپاہی نے بیزار ہو کر بندوق اٹھائی اور آگے چل پڑا۔ 

احمد نے چونک کر کہا ’’مجھے بے حد ڈر لگ رہا ہے بھائی، یہاں ہوا بالکل نہیں ہے۔ کھڑکی ہوا کے رخ۔۔۔‘‘ 

سپاہی نے دور ہوتے ہوئے کہا ’’مجھے معلوم ہے تمہارے شیش محل میں نہ روشنی ہے نہ پنکھا‘‘۔ 

تھوڑی سی دیر اور ٹھیر جاؤ‘‘۔ احمد نے گھگھیاتے ہوئے کہا۔ 

’’میں جا کر پنکھا کھینچنے والے قلی کو بھیجتا ہوں‘‘۔ دور سے سپاہی کی تمسخر آمیز آواز آئی۔پھر بجری پر بوٹوں کے چلنے کی آواز ڈوبتی چلی گئی۔ 

کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ جیسا قبروں کے اندر ہوتا ہے اور وہ سیلن جو سالہا سال سے بے مکین عمارتوں کا خاصا ہوتی ہے۔ 

سپاہی کے چلے جانے کے بعد احمد پہلے تو کچھ دیر سلاخوں کو پکڑے باہر اندھیرے میں گھورتا رہا۔ پھر گھبرا کر اس نے اپنی پشت کی طرف کھڑکی کو دیکھا۔ بہت سے سوال ثانیے کو لہروں کی طرح آگے پیچھے اس کے ذہن سے ہو کر گزر گئے جن میں پچھلی رات کا خواب بھی تھا۔ 

لیکن ایسے اندھیرے میں اس کی نوعمر بھابی نے جس کے پیٹ میں پہلا بچہ تھا اسے آکر تنگ نہیں کیا۔ موت جو یقینی تھی اس کا وہ دہشت ناک روپ بھی اس کے سامنے نہیں آیا جسے سوچ کر ہی بہت سے پیغمبر اور فاتح رو پڑتے تھے۔ 

وہ کون آدمی تھا جو پچھلے سال دہشت سے یہاں مر گیا تھا؟ احمد ایک کونے میں دبکنے لگا، لیکن سلاخوں والی کھڑکی اور سلاخوں والا دروازہ ایسا لگتا تھا چوپٹ کھلے ہوئے ہیں! 

پچھلی رات جھپکی آنے پر اس نے دیکھا تھا اس کے پتھر جیسے سر میں آر پار ایک سوراخ ہے جس میں سے ایک سانپ باہر کو سر نکالتا ہے۔ احمد نے لکڑی سے جوں ہی سانپ پر وار کیا، سانپ نے اپنا سر اندر کر لیا۔ لکڑی اس کی کنپٹی پر پڑی۔ درد کی تکلیف سے پتھر کے سر نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ 

احمد کی آنکھ بھی کھل گئی۔ 

اس نے ڈرتے ڈرتے گردن لمبی کر کے سلاخوں میں سے باہر جھانکا۔ اور دوبارہ گڑمڑی مار کر بیٹھ گیا۔ اس گھپ اندھیرے میں وحشت تھی۔ اندھیرا نہ قتل کی واردات دوبارہ سنارہاتھا، نہ پھانسی پانے کے خوف کو اس پر مسلط کر پایا تھا۔ ویسے بھی پھانسی کا جسمانی خوف فی الحال بے معنی تھا، کیوں کہ اس نے کبھی کسی کو پھانسی چڑھتے نہیں دیکھا تھا۔ 

کہیں ایک الو اپنی بھدی آواز میں دو تین بار چیخا۔ احمد نے اپنے پورے جسم کو سن ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ یہی اندھیرے کا گم بودگی، بے کلی اور دہشت کا پیغام تھا۔ 

دھیرے دھیرے کوٹھری میں بھی چاندنی پھیل گئی۔ 

احمد نے کھڑے ہو کر کھڑکی کی دہلیز پر ہاتھ پھیر کر دیکھا۔ ایک جلی ہوئی موم بتی کا، سیمنٹ پر پھیلا ہوا موم اور ایک پرانا بلیڈ معلوم نہیں کب کی یہ دو چیزیں وہاں پڑی رہ گئی تھیں۔ کئی بار وہ سونے کے لیے لیٹا اور جوں ہی غنودگی طاری ہونے لگتی آنکھ کھٹکے سے کھل جاتی تھی۔ جیسے کھڑکی کی طرف یہ کوٹھری غیر محفوظ ہے۔ کوئی جھانک رہا ہے۔ کئی بار اٹھ اٹھ کر وہ دروازے کی سلاخوں تک آیا۔ کتنی ہی بار وہ کھڑکی تک گیا۔۔۔ جس طرح بچے رات کو پلنگ سے نیچے پیر رکھتے ہوئے گھبراتے ہیں اور ڈر کے باوجود کبھی کبھی لٹک کر نیچے جھانکنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ 

صبح جب سپاہیوں نے آکر اسے دیکھا تو اس کے ہاتھ کھڑکی کی سلاخوں کو مٹھیوں میں بھینچے ہوئے تھے۔ ناخن جنگلی کبوتر کے رنگ کے تھے۔ باچھیں نیچے کو لٹک گئی تھیں، اور اس کا جسم اینٹھا ہوا تھا۔ بے نور آنکھیں کھڑکی کے باہر نالے کی طرف گھور رہی تھیں۔ 

صبح کے دس بجے احمد کا پوسٹ مارٹم پیر بخش نے کیا جو اس سے پہلے اس کی بھابی کا پوسٹ مارٹم بھی کر چکا تھا۔ اور جس کے بارے میں مشہور تھا کہ لاش پر چاقو چلاتے ہوئے اس کے کان ڈاکٹر اور پولیس کے سپاہی کی گفتگو پر رہتے ہیں۔ ہر پوسٹ مارٹم کا مطلب اس کے نزدیک ایک نئی کہانی ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں اگر اس کا بس چلے تو وہ کہانی کے فراق میں پورے شہر کو پوسٹ مارٹم کی میز پر لا لٹائے۔ 

جیل کے محرر نے کہا ’’تعجب ہے اس لڑکے کے پیٹ سے بھی کیچوے نکلے!‘‘ 

ایک بڑھیا نے جو اپنے کسی رشتے دار سے ملنے آئی تھی کہا۔ 

’’آٹے میں مٹی ملی ہوتی ہے بھیا۔ جب پیٹ میں مٹی ہوگی تو کیچوے آپ ہی رہویں گے‘‘۔ 

ساڑھے دس بجے ایک لمبا تڑنگا آدمی لاش لینے اکیلا آیا اور بیل گاڑی پر لاش کو لاد کر چلا گیا۔ لاش پر پڑی ہوئی خشک گھاس گاڑی سے دور تک گرتی چلی گئی کیوں کہ ہوا تیز تھی۔ 

لوگوں نے کہا وہ مرنے والے کا بڑا بھائی تھا جس کی بیوی کو مرنے والے نے قتل کیا تھا۔ 

گاڑی بان گاڑی ہانک رہا تھا اور وہ آدمی بہلی کے ساتھ ساتھ چلا جارہا تھا۔ ایسا لگتا تھا اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ 

کہا جاتا ہے، قتل کی وجہ اسے معلوم تھی۔ 

کچھ لوگ کہتے ہیں، نہیں، صحیح وجہ اسے بھی نہیں معلوم۔ 

لیکن اس بات کی اہمیت ہی کیا ہے؟ 

کوئی تبصرے نہیں: