ہزار پایہ — بانو قدسیہ

گاڑی دھچکا کھا کر رکی لیکن اگر گاڑی یوں نہ بھی رکتی تو بھی میں جاگ پڑتی کیوں کہ بڑی دیر سے مجھے لگ رہا تھا کوئی کنکھجورا میری گردن پر ہولے ہولے رینگ رہا ہے۔ ابھی وہ میرے منہ پرآ جائے گا اور اپنے سوئیوں ایسے پاؤں میری آنکھوں میں گاڑ دے گا۔ 

باہر پھیکی چاندنی میں ایک کالا بدہیئت انجن سیاہ چمکدار ناگوں ایسی لائنوں پرشنٹ کر رہا ہے۔ اندر ہمارے ڈبے میں ایک سیٹ پر امی، ایک پر بڑی آپا اورایک پر زینب آپا ایرانی بلیوں کی طرح سو رہی ہیں۔ غسل خانے کی بتی امی کے بڑے ٹرنک پرروشنی کا گول سفید دھبہ ڈال رہی ہے۔ ادلتے بدلتے پنکھے چھت سے چمٹے گھوں گھوں کرتے ادھرادھر چہرے گھما رہے ہیں۔ سارے ڈبے میں باسی پانی اور تازہ سانسوں کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے اور رسالے بھی سیٹ سے کھسک کر فرش پر پھیل گئے ہیں جن کے سہارے یہ سفر کٹ جانے کی امید تھی۔ اگرمجھے باجی سے آنکھیں ملانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں بھی زینب آپا، بڑی آپا اور امی کی طرح روتی روتی ہی سو جاتی۔ 

لیکن آج مجھے باجی ڈرا رہی ہیں۔ عرصہ دراز پہلے ایک دن انہوں نے کچھ کہے بغیر مجھے ڈرا دیا تھا۔ امی نے نعمت خانے میں ان کے لئے مٹھائی رکھ کر تالا لگایا تھا۔ پھر وہ چابیاں تخت پر رکھ کر نماز پڑھنے لگی تھیں تو میں نے چابیوں کا گچھا اٹھا لیا اور دبے پاؤں نعمت خانے تک جا پہنچی۔ گرمیوں کی خاموش دوپہرتھی۔ میرے اور امی کے سوائے سب سو رہے تھے لیکن اس کے باوجود میں ڈرتے ڈرتے نعمت خانے کے تالے کو چابی سے کھول رہی تھی۔ جب بڑی ہمت کے بعد میں نے پلیٹ نعمت خانہ سے نکالی تو باجی آگئیں۔ میں نے پلیٹ میں سے کچھ بھی نہ اٹھایا تھا لیکن باجی نے نگاہوں ہی نگاہوں میں مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چور بنا دیا۔ 

یہ باجی کا مقدر ہے کہ انہیں ہمیشہ سے اچھی چیزیں ملتی ہیں۔ امی مٹھائی کا حصہ رکھیں گی تو باجی کے لئے زیادہ رکھیں گی۔ گھر پر کپڑا آئے گا تو باجی اپنی پسند کا اٹھا لیں گی۔ پکچر جانا ہوگا تو جس فلم کا نام باجی لیں گی سبھی وہی دیکھیں گے۔ اورتواور دولہا ملنے میں بھی باجی کا مقدراپنی بڑی دو بہنوں پر سبقت لے گیا۔ بڑی آپا اور زینب آپا کے دولہے توایسے تھے۔۔۔ خیرجیسے آدمی ہوتے ہیں لیکن باجی کا دولہا۔۔۔ 

اس دن میں نے آنگن دھویا تھا۔ پائنچے بھیگ گئے تھے اور ہاتھوں میں خالی بالٹی تھی۔ سر اٹھا کر میں نے دیکھا، ایئرفورس کی وردی پہنے سنہری مونچھوں والا باوا سامنے کھڑا تھا۔۔۔ لمحے بھر کے لے میرا دل دھڑکتا دھڑکتا رک گیا۔ جیسے خواب میں سے اٹھا کر کسی نے تھپڑ مارا ہو۔ پھر سنہری مونچھوں والے باوے نے ہنس کر مجھ سے بالٹی لے لی اور پوچھا، ’’کہاں رکھنا ہے اسے؟‘‘ 

زینب آپا اور بڑی آپا کے شوہروں سے کتنی مختلف بات تھی۔ ان کے سامنے سارے گھر کی چارپائیاں اندر باہر کرتے سانس پھول جاتی لیکن وہ ٹانگ پرٹانگ دھرے سگریٹ پیتے رہتے۔ جب ولایتی باوا تانگے سے اپنا سامان اتروا رہا تھا تو اندر باہر ایک طوفان سا آ گیا۔ سوائے باجی کے سبھی کچھ نہ کچھ کر رہے تھے اور جس لاتعلقی سے وہ بیٹھی کشیدہ کاڑھ رہی تھیں، اس سے صاف ظاہرتھا کہ در اصل باوے کا سب سے زیادہ تعلق انہیں سے ہے۔ پتہ نہیں کیوں، اسی روزمجھے باجی سے سخت چڑ پیدا ہو گئی۔ باجی کی ہمیشہ سے عادت ہے کہ خواہ مخواہ چڑانا شروع کر دیتی ہیں۔ بس چھوٹی سی بات میں ایسا الجھاؤ پیدا کر دیتی ہیں کہ رونے کو جی چاہتا ہے۔ ہم چاروں بہنیں بیٹھی نئے باوے کے متعلق باتیں کر رہی تھیں۔ زیبب آپا بولیں، ’’سب کچھ اچھا ہے، ویسے تو یوسف کا سب کچھ اچھا ہے، اک ذرا مجھے آنکھیں ناپسند ہیں۔‘‘ 

مجھے پتہ نہیں ان کی بات سن کر کیوں غصہ آگیا، جھٹ بولی، ’’کیوں؟ ان کی آنکھوں کا رنگ تو اس قدر خوبصورت ہے جیسے نیلے نیلے کنچے۔‘‘ باجی نے ہنس کر پوچھا، ’’اور تمہیں نیلے کنچے پسند ہیں کیا؟‘‘ میری ناک پر پسینہ آگیا۔ میں جھلا کر بولی، ’’ہاں۔ کیوں نہیں؟‘‘ اب باجی کو چڑانے کی سوجھی۔ میرے کندھے پکڑ کر جھلانے لگیں۔ پھر اپنے مخصوص انداز میں لب اٹھا کر بار بار دوہراتی گئیں، ’’کیوں تمہارا کروا دیں بیاہ یوسف سے۔۔۔؟ بولو جی تہمینہ۔۔۔ بولو جی!‘‘ 

اس سے پہلے کئی بار باجی نے مجھے چڑایا تھا لیکن میں روئی نہ تھی۔ اس دن میں نے کندھے جھٹک دیے اور رونے لگی۔ آنسو تھے کہ آپی آپ آنکھوں میں آ رہے تھے اور گرتے جا رہے تھے۔ بڑی آپا نے گلے سے لگا کر کہا، ’’ارے رونے لگیں۔۔۔ یہ باجی تو پگلی ہے تہمینہ۔۔۔ اس کے کہنے سے کوئی تیری شادی تھوڑی ہو چلی ہے یوسف سے۔‘‘ پھر وہ باجی کو ڈانٹتے ہوئے بولیں، ’’خوشی سے لڈو اپنے دل میں پھوٹ رہے ہیں، رلا اس بے چاری کو رہی ہے۔ اس عمر میں ایسے مذاق نہیں کیا کرتے۔‘‘ پھر سب معاملہ رفع دفع ہو گیا لیکن رات جب میں سونے لگی تو ایک بار پھر آنسو میری آنکھوں میں تیرنے لگے اور میں ہاتھ مروڑتی ہوئی کہنے لگی، ’’اللہ میاں کرے باجی تو مر ہی جائے۔۔۔ مر ہی جائے بالکل ساری کی ساری۔‘‘ 

باجی میری بددعا سے مر تو نہ سکی۔ ہاں ہمارا گھر چھوڑ کر ضرور چلی گئی۔ انہیں یوسف بھائی کے ساتھ کار میں بٹھا کر ہم سب واپس لوٹے تو آتے ہی میں نے دن رات بجنے والی ڈھولک کو پیر مار کر پھاڑ دیا اوربستر پر اوندھی لیٹ کر رونے لگی۔ سارے گھر میں باسی پھولوں اور پلاؤ فرنی کی خوشبو اڑ رہی تھی۔ ہر ایک کسی نہ کسی کونے میں بیٹھا باجی کی کمی محسوس کرتا ہوا افسردہ ہو رہا تھا لیکن مجھے باجی کی عدم موجودگی کے ساتھ ساتھ ایک عجیب طرح کا غصہ بھی آ رہا تھا۔ ساری شام انہوں نے مجھے بھگا بھگا کر پیر چھلنی کر دیے تھے۔ پھر بھی جو کوئی تھا، ان ہی کی تعریف کر رہا تھا، انہیں ہی گھور رہا تھا۔ خالہ نے شام کے دوران میں بس ایک مرتبہ مجھ پرعنایت کی جو پوچھا تھا، ’’اب کس جماعت میں ہو تہمینہ۔۔۔؟‘‘ 

’’جی دسویں میں۔۔۔‘‘ اس پر وہ ہنس کر بولی تھیں، ’’چلو اب تمہاری باری آئے گی۔۔۔‘‘ پھر جب باجی اپنے چھوٹے سے بچے کو لے کر ہمارے ہاں آئیں تو ان کا بچہ دیکھ کر سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ سنہری بال، سفید رنگت اور کنچوں ایسی نیلی نیلی آنکھیں ۔۔۔ لیکن میں نے دیکھا کہ یوسف بھائی میں پہلے سے بہت فرق آ چکا تھا۔ ناک کے دونوں طرف گہری لکیریں پڑ چکی تھیں اور وہ بوڑھے نظر آتے تھے۔ باجی سارا سارا دن اپنے بچے کو گود میں لئے کھیلتی رہتی اور میں کنکھیوں سے دیکھتی، یوسف بھائی بے چینی سے منتظر رہتے کہ کب باجی کو فرصت ہو اور وہ ان سے بھی بات کرے۔ ایسے میں یوسف بھائی کے پاس جا بیٹھتی اور ان سے باتیں کرنے لگتی۔ وہ ہوائی جہازوں کی اونچی اڑانوں پر مجھے ساتھ لے جاتے۔ ایسے ناگہانی حادثات بیان کرتے کہ دل ہوائی جہاز کے پنکھے کی طرح چلنے لگتا۔۔۔ پھران کی نیلی آنکھوں میں موت سے کھیلنے والے پائلٹ کا سا خوف آ جاتا اور وہ اپنے بچے سے بھی کم عمر نظرآتے۔ میرا جی چاہتا کہ ان کے سنہری بالوں میں انگلیوں کو ڈبو کر کہوں، ’’موت سے کیوں ڈرتے ہو۔ وہ تو اپنے پلنگ پر بھی آجاتی ہے۔‘‘ 

اگر یوسف بھائی کے کچھ اپنے فکر تھے تو ان میں باجی شامل نہ تھیں۔ وہ ان چھوٹی موٹی جھلاہٹوں میں بھی یوسف بھائی کے ساتھ شامل نہ ہوتیں جوعموما ًمیاں بیوی میں خواہ مخواہ لڑائی کی شکل اختیار کر لیا کرتی ہیں۔ یوں تو روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا تھا لیکن اس دن یوسف بھائی غسل خانے میں گھسے ہی تھے کہ مجھے احساس ہوا کہ اندر کوئی تولیہ نہیں ہے اورابھی وہ نہا کر تولیے کے لئے پکاریں گے۔ تھوڑی دیرکے بعد انہوں نے باجی کو پکارنا شروع کر دیا۔ باجی اندرپلنگ پر بیٹھی ننھے کو پاؤڈر لگا رہی تھیں۔ انہوں نے سنی ان سنی کردی تو میں غسل خانے کے کواڑ کے پاس جا کر بولی، ’’کہیے بھائی جان ۔۔۔‘‘ 

’’بھئی ذرا تولیہ پکڑانا تہمینہ۔۔۔‘‘ 

میں تولیہ لے کر گئی توہ کھڑکی کا آدھا پٹ کھولے سر نکالے کھڑے تھے۔ دھلے دھلائے چہرے پرشہد کی بوندوں کی طرح پانی کے قطرے لڑھک رہے تھے اور نیلی کنچوں جیسی آنکھیں بالکل زمردیں لگ رہی تھیں۔ گیلے بازو پر تولیہ رکھتے ہوئے انہوں نے پوچھا، ’’اور ملکہ صاحبہ کیا کر رہی ہیں؟‘‘ گو میں جانتی تھی کہ باجی کو کوئی ایسا کام نہ تھا لیکن میں بولی، ’’جی وہ ننھے کودودھ پلا رہی ہیں۔‘‘ وہ کواڑ بند کرتے ہوئے بولے، ’’اگر انہیں فرصت بھی ہوتی تو بھی وہ کب آتی تھیں۔‘‘ پھر وہ اونچے اونچے کہنے لگے، ’’تہمینہ! شادی کے بعد اپنے شوہر کا خیال ضرور رکھنا اچھا۔۔۔!‘‘ 

ایسی کئی ننھی ننھی باتیں ان بڑے بڑے ناگوں کی طرح میرے ذہن میں ابھر رہی تھیں جن پر ایک کالا بدہیئت انجن شنٹ کر رہا ہے اور جسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہماری گاڑی چل رہی ہو۔ اس بدہیئت انجن کی طرح ایک خیال میرے دل میں آگے پیچھے چکر لگا رہا ہے۔ اگر یہ خیال چند لمحے کے لئے مجھے چھوڑ دیتا تو میں بڑی آپا، آپا زینب اور امی کی طرح تھوڑی دیر کے لئے سو جاتی۔ 

اور سونا تو اس رات بھی ممکن نہ تھا جب یوسف بھائی کے سر میں بلا کا درد اٹھا تھا۔ پہلے تو باجی کچھ دیر بیٹھی دباتی رہی۔ پھر جب ننھا رونے لگا تھا تو وہ اسے چپ کرانے کے لئے اٹھیں اور اسے تھپکتے تھپکتے خود بھی سو گئیں۔ یوسف بھائی کروٹیں بدلتے ہوئے کراہ رہے تھے۔ بڑی آپا نے اسپرو کھلائی مگر افاقہ نہ ہوا۔ امی نے پانی دم کر کے پلایا۔ درد ویسے ہی رہا۔ پھر میں خود بخود اٹھ کر ان کے سرہانے جا بیٹھی اور ان کا سر دبانے لگی۔ سنہری بالوں پربندھا ہوا سرخ ریشمی رومال میں نے کھول دیا۔ یوسف بھائی نے میری طرف دیکھا اورتکیے پرڈالا ہوا سرمیری جانب اور کھسکا دیا۔ آہستہ آہستہ یوسف بھائی سو گئے۔ ان کا سانس میرے زانو کو چھونے لگا۔ اس رات میں نے کتنی ہی انجانی راہوں پر ڈرتے ڈرتے قدم دھرنے کےخواب دیکھے اور یہ شاید انہی خوابوں کا نتیجہ تھا کہ میں سر دباتے دباتے اونگھ گئی۔ 

جب باجی نے مجھے جگایا تومیرے ہاتھ یوسف بھائی کے بالوں میں تھے۔ اور دوپٹہ ان کے چہرے پر پڑا تھا۔۔۔ پتہ نہیں کیوں اس وقت بھی مجھے وہ دن یاد آ گیا جب میں نے تخت سے چابیاں اٹھا کر نعمت خانے سے مٹھائی نکالی تھی۔۔۔! اگر صبح ہی باجی اپنے گھر جانے کا پروگرام نہ بنا لیتیں تو شاید اتنی شدید نفرت میرے دل میں کبھی پیدا نہ ہوتی۔۔۔ لیکن ادھر باجی اور یوسف بھائی اپنے گھر روانہ ہوئے اور ادھر میں غم وغصہ سے رونے لگی۔ باربار مجھے یوں لگتا جیسے باجی جی ہی جی میں مجھ پر الزام دھرتی گئی ہیں۔ جتنا میں باجی کے الزام کے متعلق سوچتی اتنا ہی مجھے اپنے بے قصور ہونے کا خیال آتا۔ اور جب میرا بس نہ چلتا تو میں تکیے میں منہ دے کر کہتی، ’’اللہ میاں جی! باجی تو مر ہی جائے بالکل ساری کی ساری ۔۔۔‘‘ 

لیکن اب یہی خیال بدہیئت انجن کی طرح میرے ذہن کو کوٹ رہا تھا۔۔۔ مجھے پورا یقین ہے کہ میری بددعا نے باجی کی جان لی۔ وہ انفلوئنزا سے نہیں اپنی بہن کی بددعا سے مر گئی ہے۔۔۔ اور اب جب وہ مرگئی ہے تو میں اسے کیسے یقین دلاؤں کہ یہ بد دعا میں نے جی سے نہ دی تھی۔ اسٹیشن کی بے رونق بتیوں کی طرح باجی کے گلے میں باسی مرجھائے پھول ہوں گے اور وہ ڈرائے دھمکائے بغیرمجھے مل کر پوچھے گی، ’’بولو اب تو خوش ہو؟ اب تو خوش ہو۔۔۔؟‘‘ 

گاڑی دھچکا کھا کر چلنے لگی ہے۔ بدہیئت کالا انجن ہم سے دور ناگوں ایسی لائنوں پر شنٹ کرتا پیچھے رہ گیا ہے۔ امی، بڑی آپا اور آپا زینب ایرانی بلیوں کی طرح سیٹوں پر پڑی سو رہی ہیں۔۔۔ لیکن احساس گناہ کا ہزار پایہ ہولے ہولے میری گردن پر رینگ رہا ہے۔ 

ابھی وہ میرے منہ پر آ جائے گا اور میری آنکھوں میں سوئیوں ایسے پاؤں گاڑ دے گا!

کوئی تبصرے نہیں: